مسائل سے بھاگنا ممکن نہیں

Mitch Albom کا لکھا ناول The five People you Meet in Heaven جو2003 میں شائع ہوا تھا۔

اس ناول کی کہانی ایک تفریحی پارک میں دیکھ بھال کرنے والے Eddie کی زندگی کے گرد گھومتی ہے جو اپنی83 ویں سالگرہ پر Falling ride سے گرتی ہوئی ایک چھوٹی بچی کو بچانے کی کوشش میں مر جاتا ہے۔

اپنی موت کے بعد وہ اپنے آ پ کو جنت میں پاتا ہے اور پانچ لوگوں سے ملتا ہے جنہوں نے اس کی زندگی میں بالواسطہ یا بلا واسطہ اہم کردار ادا کیا تھا۔ ایڈی سے ملنے والا پہلا شخص Joseph Corvel Zchik ہے جو ایک سرکس میں کام کرتا تھا اور بچپن میں ایڈی کے لیے بہت متاثر کن تھا وہ ایڈی کو جنت کا پہلا سبق سکھاتا ہے کہ ہر زندگی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے اور ہر عمل کا اثر ہوتا ہے۔

دوسرا شخص جو ایڈی سے ملتا ہے وہ جنگ میں اس کا سابق کپتان ہے جو ایڈی کو دکھاتا ہے کہ جنگ کے بعد اس کے اعمال نے کپتان کی زندگی کو کیسے متاثر کیا۔ تیسرا شخص جس سے ایڈی ملاقات ہوئی وہ اس کی بیوی Marguerite ہے جو اس سے برسوں پہلے مر گئی تھی۔ وہ اس کے دوبارہ ملنے کے ذریعے ایڈی معافی کی اہمیت اور محبت کی طاقت سیکھتا ہے۔

ایڈی سے ملنے والا چوتھی فرد روبی ہے جس لڑکی کو اس نے اپنی موت کے دن بچانے کی کوشش کی۔ روبی ایڈی کو سکھاتی ہے کہ اس کی زندگی معنی اور مقصد رکھتی ہے حالانکہ اسے ہمیشہ اس کا احساس نہیں ہوتا تھا۔

پانچواں اور آخری فرد جس سے ایڈی ملتا ہے وہ Tala نامی ایک چھوٹی سی لڑکی ہے جو ایڈی کو دکھا تی ہے کہ ہر زندگی کا ایک مقصد ہوتا ہے، چاہے یہ ہمیشہ ظاہر نہ ہو۔ Tala نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ایڈی کی موت کے دن اس کے بہادرانہ اقدامات نے اس کی جان بچائی اور وہ اپنی تقدیر کو پورا کرنے کے قابل تھی۔

Louis Lamourکہتا ہے ’’ ایک وقت آئے گا جب آپ کو یقین ہو گا کہ سب کچھ ختم ہوگیا ہے لیکن یہ شروعات ہوگی۔‘‘ جب کہ Marcus Aurelius نے کہا تھا ’’جب آپ صبح اٹھیں تو سوچیں کہ زندہ رہنا کتنا قیمتی اعزاز ہے۔ سانس لینا، سوچنا، لطف اندوز ہونا ، محبت کرنا ‘‘ دنیا میں کوئی بھی بے جان یا جاندار چیز بغیر مقصد کے پیدا نہیں کی گئی ہے۔

ہر چیز کے اندر ایک مقصد اور معنی چھپے ہوئے ہوتے ہیں۔ بے جان چیزیں چپ چاپ اپنا اپنا کردار ادا کرتی رہتی ہیں جب کہ جاندار چیزیں اپنا اپنا کردار ادا کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔

Timothy Leary کہتا ہے ’’انسانی تاریخ میں جیسا کہ ہماری نسل نے اس خوفناک حقیقت کا سامنا کیا ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ ہم کون ہیں یا افراتفری کے اس سمندر میں ہم کہاں جارہے ہیں‘‘ اسی لیے سقراط بار بار یہ کہتا تھا کہ خود کو پہچانو۔ خود کو پہچانے بغیر آپ اپنی زندگی کے بارے میں سچ اور حقیقت سے آگاہ نہیں ہوسکتے۔ خود پہچاننے کے لیے آپ کو اپنے اندر طویل سفرکرنا پڑتا ہے۔

آئیں ! آپ کو ایک خاتون کی کہانی سناتے ہیں جسے 17سال کی عمر میں کالج سے مسترد کردیا گیا ۔25 سال کی عمر میں اس کی ماں بیماری سے مرگئی ، 26 سال کی عمر میں اسے اسقاط حمل کا سامنا کرنا پڑا۔

27 سال کی عمر میں اس کی شادی ہوگئی اس کے شوہر نے اسے تشدد کا نشانہ بنایا ، وہ ایک بیٹی کی ماں بنی۔ 28سال کی عمر میں اس کی طلاق ہوگئی اور وہ شدید ڈپریشن کی مریض بن گئی۔29 سال کی عمر میں وہ فلاحی زندگی گزارنے والی اکیلی ماں تھی۔

30 سال کی عمر میں وہ اس زمین پر نہیں رہنا چاہتی تھی ، لیکن پھر اس نے اپنے سارے جذبے کو ایک کام میں لگا دیا جو وہ کسی اور کے مقابلے میں بہتر کرسکتی تھی اس نے لکھنا شروع کر دیا ۔ 31 سال کی عمر میں آخر کار اس کی پہلی کتاب شائع ہوگئی۔ 35سال کی عمر میں وہ چار کتابوں کی مصنفہ بن چکی تھی اور اس نے سال کی بہترین مصنفہ کا ایوارڈ حاصل کر لیا ۔42 سال کی عمر میں اس کی نئی کتاب کی ریلیز کے پہلے دن ہی 11ملین کاپیاں فروخت ہوئیں۔

اس خاتون کا نام J.K. Rowling ہے جو 30سال کی عمر میں خود کشی کرنا چاہتی تھی۔ آج اس کا سات سیریز پر مشتمل ناول Harry Potter ایک عالمی قیمتی برانڈ ہے جس کی قیمت 15 ملین ڈالر ہے۔ یاد رکھو کبھی ہمت نہ ہارو، اپنے آپ پر بھروسہ کرو پرجو ش رہو۔ کبھی بھی دیر نہیں ہوتی ہے۔ آپ بغیر مقصد اور معنیٰ کے پیدا نہیں کیے گئے ہیں۔

فرانسیسی ادیب Alexander Dumasاپنے ناول The Count of Monte Cristo جو1844میں لکھا گیا لکھتا ہے۔

’’تمام انسانی حکمت ان دو الفا ظ میں موجود ہے۔ ’’ انتظار اورامید ‘‘ Catherine Fisher اپنے ناول Sapphique میں لکھتی ہے ’’ دیواروں کے کان ہوتے ہیں، دروازے کی آنکھیں ہوتی ہیں ، درختوں کی آوازیں ہوتی ہیں درندے جھوٹ بولتے ہیں ، بارش سے بچو، برف سے بچو۔‘‘ انسانی فطرت عموماً تبدیلی کی مزاحمت کرتی ہے کیونکہ ذات کی تبدیلی غیر آرام دہ ہوتی ہے ہم اکثر اسے قبول نہیں کرتے ہیں اور منفی رویے پر قائم رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔

چارلس ڈکنز نے ایک قیدی کے بارے میں لکھا ہے جو کہ کئی سالوں تک جیل میں قید تھا جب اس کی سزا کی موت پوری ہوجاتی ہے تو اسے آزادی دے دی جاتی ہے ، اسے اس کی تنگ و تاریک کوٹھڑی سے نکال کر کھلی اور روشن فضا میں لایا جاتا ہے وہ شخص چند لمحے ادھر ادھر دیکھتا ہے اور پھر اپنی تازہ تازہ حاصل ہونے والی آزادی اسے اتنی غیر آرام دہ محسوس ہونے لگتی ہے کہ وہ کہتا ہے کہ اسے اس کی تنگ و تاریک کوٹھڑی میں واپس بھیج دیا جائے۔

اس قیدی کے لیے آزادی اور کھلی دنیا کا تحفظ اور آرام و سکون عطا کر نے والی تبدیلی کو قبول کرنے سے جیل ، زنجیریں اور تاریکی زیادہ مانوس تھیں۔‘‘

جدید دورکے قیدی بھی ایسا ہی کررہے ہیں وہ غیر مانوس دنیا سے نبرد آزما ہونے کے تناؤ سے اس قدر خوفزدہ ہیں کہ وہ بدترین حالات میں جینے کو ترجیح دیتے ہیں،کیونکہ زنداں میں آزادی تو محدود ہوتی ہے لیکن انھیں بہت کم فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔

اصل میں ان لوگوں کو اس حقیقت کا علم نہیں ہوتا کہ وہ ایک بیماری میں مبتلا ہیں۔ اس بیماری کا نام ہے ’’ تجزیے کا فالج ‘‘ ان کے پاس بہانوں کا سرطان ہوتا ہے ۔ وہ زمانہ حال میں جینا پسند نہیں کرتے بلکہ اپنی ساری توانائیاں مستقبل کے بارے میں سوچنے پر صرف کردیتے ہیں۔ اسی لیے نہ تو حال ان کے قابو میں آتا ہے اور نہ ہی کبھی مستقبل آتا ہے۔ کامیابی ، سکون ، خوشحالی کبھی اتفاقیہ نہیں ملا کرتی ہے۔

یہ ہمارے رویوں کا نتیجہ ہوتی ہے اور ہمارے رویے تمہارا اپنا انتخاب ہوتے ہیں۔ چنانچہ کامیابی، سکون اور خوشحالی انتخاب ہوتی ہے اتفاق نہیں۔ جیت جدوجہد کے بغیر حاصل نہیں ہوتی ہے۔ انگریزی کہاوت ہے ’’ غیر متلاطم سمندر کبھی کسی کو ماہر ملاح نہیں بناتا ‘‘ ذہن میں رہے کہ ہم اپنے مسائل سے بھاگ کر کہیں نہیں جاسکتے۔

The post مسائل سے بھاگنا ممکن نہیں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/wuikDvG
Previous Post Next Post

Contact Form