سندھ میں نجی اسکولوں نے 10 فیصد طلبا کو مفت تعلیم دینے کا قانون نظرانداز کردیا

  کراچی: حکومت سندھ کے نجی اسکولوں کے لیے 10 فیصد طلبا کو مفت تعلیم دینے کے قانون پر پوری طرح عمل نہیں ہورہا، دوسری جانب نجی اسکول اس قانون کو متنازع قرار دے رہے ہیں۔ 

کراچی سمیت پورے صوبے میں قائم نجی اسکولوں کی جانب سے اپنے کل زیر تعلیم (انرولڈ) طلبا میں سے 10 فیصد کو “فری شپ” دینے کے لازمی قانون کے معاملے پر حیرت انگیز حقائق کے ساتھ دلچسپ صورتحال سامنے آئی ہے۔

حکومت سندھ نے نجی اسکولوں کو 10 فیصد فری شپ دینے کے 2013 کے قانون یاد دلایا تو نجی اسکولوں نے فیسوں میں صرف 5 فیصد اضافے کے 2004 کے حکومتی قانون کو پرانا اور فرسودہ قرار دے دیا ہے ۔

اس بحث کا آغاز اس وقت ہوا جب نگراں حکومت نے 2013 کے اس قانون پر عملدرآمد کے لیے نجی اسکولوں پر ڈنڈا اٹھایا۔

واضح رہے کہ پری پرائمری سے لے کر ہائی اسکول تک تدریس کے لیے سندھ میں کل 11 ہزار 736 نجی اسکول فعال ہیں جس میں سے 7 ہزار کے لگ بھگ کراچی میں رجسٹرڈ ہیں۔

تازہ ترین سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 11 ہزار سے زائد ان رجسٹرڈ نجی اسکولوں کی کل انرولمنٹ 39 لاکھ 41 ہزار 938 ہے اور 10 فیصد طلبا کو فری شپ دینے کے 2013 کے قانون کے تحت پورے سندھ میں 3 لاکھ 94 ہزار طلبا کو بھی اسکولوں میں مفت تعلیم ملنی چاہیے۔

لیکن حکومت کو فری شپ کے معاملے پر اب تک موصولہ ڈیٹا بتارہا ہے کہ صرف کراچی میں 10 ہزار سے زائد طلبا بھاری یا مناسب فیس لینے والے نجی اسکولوں میں مفت تعلیم حاصل کررہے ہیں جبکہ انھی اسکولوں میں اسکالر شپس یا رعایتی فیس پر 9 ہزار کے لگ بھگ طلبا کو تعلیم دی جارہی ہے۔

تاہم یہ اعداد و شمار کراچی کے موصولہ تقریبا ڈھائی سو نجی اسکولوں کے ہیں جن کی انرولمنٹ 1 لاکھ 21 ہزار سے کچھ زائد ہے۔

ادھر تعلیمی افسران کا دعوی ہے کہ بعض این جی اوز کے تحت چلنے والے نجی اسکول اس کے علاوہ ہیں جن میں بھی بڑی تعداد میں فری شپ دی جارہی ہے،  تعلیمی افسران کا کہنا ہے کہ ابھی مزید نجی اسکولوں سے ڈیٹا موصول ہورہا ہے جس کے بعد اس تعداد میں مزید کچھ اضافے کی گنجائش ہے۔

یاد رہے کہ چند روز قبل نگراں وزیر اعلی سندھ کی جانب سے اس سلسلے میں محکمہ اسکول ایجوکیشن سے رپورٹ طلب کی گئی تھی کہ سندھ میں کتنے فیصد اسکول 10 فیصد فری شپ دینے کے صوبائی حکومت کے قانون پر عمل پیرا ہیں۔

اس حکم کے بعد محکمہ اسکول ایجوکیشن سندھ حرکت میں آگیا اور ڈائریکٹوریٹ آف پرائیویٹ انسٹیٹیوشنز سندھ کی جانب سے نجی اسکولوں سے اس سلسلے میں ڈیٹا کی طلبی کا معاملات شروع ہوا جو ہنوز جاری  ہے۔

تاہم اس معاملے میں نجی اسکولوں کی جانب سے حکومت سندھ کو فراہم کیے جانے والے ڈیٹا سے ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ “مفت اور لازمی تعلیم” کا ایکٹ سندھ اسمبلی سے فروری 2013 میں منظور ہوا تھا جس کا مقصد 5 سے 16 سال تک کے طلبا کی تعلیم مفت تھی۔

اس ایکٹ کی ایک شق میں نجی اسکولوں کو اس بات کا پابند کیا گیا تھا کہ وہ اپنی کل انرولمنٹ کا 10 فیصد طلبا کو مکمل فری شپ دیں گے،  اب اس قانون کو منظور ہوئے 10 برس گزر چکے ہیں جس کے بعد موجودہ نگراں حکومت نے اس معاملے کا اچانک نوٹس لیا ہے، تاہم  نجی اسکول اس نوٹس کو یکطرفہ اور زمینی حقائق کے برعکس قرار دیتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ سندھ میں 2004 کا ایک قانون پرائیویٹ انسٹی ٹیوشنز رجسٹریشن ایکٹ کی صورت میں موجود ہے جس نے نجی اسکولوں کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں،  اس قانون نے نجی اسکولوں کو پابند کر رکھا ہے کہ وہ اپنی فیسوں میں سالانہ 5 فیصد سے زائد اضافہ نہیں کرسکتے۔

اسکے برعکس پنجاب میں وہاں کے قانون کے تحت نجی اسکول فیسوں میں سالانہ 8 فیصد تک اضافہ کرتے ہیں جس کے سبب وہاں کے اسکولوں کے پاس معاشی بنیادوں پر زیادہ گنجائش موجود ہے۔  تاہم سندھ میں اس مختصر سی گنجائش کے ساتھ نجی اسکولوں کو اس بات کا پابند کیا جاتا ہے کہ وہ 10 فیصد فری شپ بھی دیں۔

آل پرائیویٹ اسکولز اینڈ کالجز ایسوسی ایشن سندھ کے چیئرمین حیدر علی نے اس صورتحال پر ’’ ایکسپریس‘‘ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پورے ملک میں مہنگائی 40 فیصد تک بڑھ گئی ہے لیکن فیسوں میں اضافے کی اجازت صرف 5 فیصد تک ہے اس پر کہا جارہا ہے کہ 10 فیصد فری شپ کے قانون پر بھی عمل کرو یہ سمجھ میں نہ آنے والا قانون  ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پورے سندھ میں 12 ہزار کے قریب نجی اسکول 40 لاکھ کے لگ بھگ طلبا کو تعلیم دے رہے ہیں جبکہ دوسری طرف 40 ہزار سرکاری اسکولوں میں 45 لاکھ طلبہ پڑھ رہے ہیں۔

انھوں نے دعوی کیا کہ 12 ہزار میں سے صرف 1 ہزار نجی اسکولز ایسے ہیں جن کی فیس 5 ہزار سے زائد ہے باقی تمام اسکولز 4 ہزار روپے تک فیس لے کر تعلیم دے رہے ہیں،  90 فیصد نجی اسکولوں میں تمام بنیادی سہولیات بھی موجود ہیں۔

انھوں حکومت سے سوال کیا کہ نجی اسکولوں کے علاوہ وہ کونسا شعبہ ہے جو اپنے اپنے اداروں میں فری شپ دے رہا ہے،  پرائیویٹ اسکول مختلف طرح کے ڈسکائونٹس فری شپ کے علاوہ دے رہے ہیں اس کے باوجود کہ ان پر ہر طرح کے سرکاری ٹیکسز لگائے جارہے ہیں۔  ان کا کہنا تھا کہ پرائیویٹ اسکولوں کو بند گلی میں لاکر دیوار سے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

علاوہ ازیں حکومت سندھ سے ’’ ایکسپریس‘‘ کو ملنے والے اعداد و شمار بتارہے ہیں کہ جو ڈیٹا نجی اسکولوں سے اس سلسلے میں موصول ہورہا ہے وہ انتہائی پیچیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ دلچسپ بھی ہے۔

کراچی کے پوش علاقوں ڈیفنس، کلفٹن اور پی ای سی ایچ ایس میں قائم بعض نجی اسکول 1 فیصد بھی فری شپ نہیں دے رہے تاہم ان ہی میں سے کچھ اسکول 8 فیصد تک فری شپ فراہم کررہے ہیں،  ان میں سے اکثر اسکول کیمبرج بورڈ سے الحاق شدہ ہیں۔  ادھر معروف چین آف اسکولز کے کچھ کیمپسز میں فری شپ دی جارہی ہے اور کچھ میں صرف اسکالر شپ آفر ہورہی ہے۔

واضح رہے کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کیمبرج میں صرف اے اور او لیول میں سندھ کی سطح پر انرولمنٹ 55 ہزار سے کچھ زائد ہے۔

علاوہ ازیں اس صورتحال پر’’ ایکسپریس‘‘ نے سیکریٹری اسکول ایجوکیشن شیریں ناریجو سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ  اگر نجی اسکولوں کی شکایت جائز ہے تو قانون میں ترمیم بھی ہوسکتی ہے لیکن اس کے لیے پہلے اسٹڈی کرانی ہوگی ، ہم اسٹڈی تو کراسکتے ہیں لیکن ترمیم اسمبلی سے ہی ہوسکتی ہے جو اس وقت موجود نہیں ۔

ایک سوال پر سیکریٹری ایجوکیشن کا کہنا تھا کہ دیکھنا ہوگا کہ دیگر صوبوں میں فیسوں میں اضافے اور فری شپ کے حوالے سے کیا قانون ہے۔

ادھر 2013 میں بننے والے اس قانون کی خالقین میں سے ایک اور ماہر تعلیم ڈاکٹر محمد میمن کا اس سلسلے میں کہنا تھا کہ نجی اسکولوں کی بعض شکایات جائز ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب یہ ایکٹ بن رہا تھا تو اس وقت بھی یہ بات کہی گئی تھی کہ ہم نجی اسکولوں پر اتنا وزن کیوں ڈال رہے ہیں،  اس وقت بھی ان کا اعتراض کچھ حد تک درست ہے۔

مہنگائی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کی contingency cost بھی بڑھ گئی ہے حکومت کو چاہیے کہ 2004 کے قانون کو بھی rationalise کرے۔

ڈاکٹر میمن بھاری فیسیں لینے والے بعض نجی اسکولوں کے حوالے سے یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی بیس لائن فیس اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ اگر وہ 5 فیصد سالانہ اضافہ بھی کریں تو والدین پر بڑا بوجھ بن جاتا ہے لہٰذا اس قانون کی rationalization میں کیٹگریز کی بنیاد پر کام کرنا ہوگا۔

 

The post سندھ میں نجی اسکولوں نے 10 فیصد طلبا کو مفت تعلیم دینے کا قانون نظرانداز کردیا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/9YiPqb5
Previous Post Next Post

Contact Form