کال کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے !!!

آج کی جنریشن زیڈ یا جنریشن زی کیلئے یہ تصور کرنا محال ہوگا کہ کبھی پورے محلے کے ایک گھر میں فون ہوتا تھا جو پورے محلے کی ٹیلی فون کی ضروریات کیلئے کافی تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب ٹیلیفون تاروں سے بندھے ہوئے تھے اور لوگ آزاد تھے۔ آج ٹیلیفون متحرک ہے اور لوگ نہ نظر آنے والے تاروں سے اس آلے سے بندھے ہوئے ہیں۔  اے ذوق دیکھ دختر رز کو نہ منہ لگا  چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی  جنریشن زی اس جنریشن کو کہتے ہیں کہ جو نوے کی دہائی کے آخر اور دوہزار دس کے درمیاں پیدا ہوئی ہے۔ یہ وہ نسل یے جو اپنے ابتدائی بچپن سے ہی انٹرنیٹ اور موبائل فون کے ساتھ بڑی ہوئی ہے۔ یہ نسل ففٹی ففٹی کا وہ لطیفہ سمجھ ہی نہیں سکتی کہ دادا نے ٹیلیفون کے کنکشن کی درخواست دی تھی اور پوتے کی زندگی میں ٹیلیفون کا کنکشن ملتا ہے۔ آج جب گھر کے افراد سے زیادہ گھر میں ٹیلیفون موجود ہیں اور کال مختلف ایپ کے ذریعے تقریباً مفت ہوچکی ہے لیکن لوگ ایک دوسرے سے قریب ہونے کے بجائے مزید دور ہوگئے ہیں۔ عام طور پر جب بھی ٹیکنالوجی لوگوں کی زندگی میں آئی تو لوگوں نے پہلے اس کو سیکھا اور پھر استعمال کیا، مثال کے طور پر وی سی آر کو پیش کیا جاسکتا ہے کہ شروع میں اس کو کرائے پر لینے کی صورت میں اس کے ساتھ اس کو چلانے والا بھی آتا تھا۔ ہم نے موبائل فونز صرف چلانا سیکھا لیکن اس کے ساتھ کے آداب و اطوار کو بالکل ہی نظر انداز کردیا حالانکہ اس کے آداب تو بہت ہی ضروری ہے۔ آج اس آلے کے آداب نہ سیکھنے کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے کا کال کرتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ اگر کال وصول کرنے والے کال کاٹ دی تو ایسا نہ ہوں کہ:  گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے  لوگ عام طور پر کہتے ہیں کہ ہم میٹنگ میں مصروف تھے، بالکل ٹھیک تو میٹنگ شروع ہونے سے پہلے ہی فون کو خاموش موڈ پر کر دیجئے تاکہ کوئی کال آپ کی میٹنگ میں مخل نہ ہوں اور آپ میٹنگ کے بعد جن کی کالز آئی تھی انھیں کال کر لیجئے لیکن اگر آپ اپنے اختیار اور قوت کا مظاہرہ کرکے کال کو کاٹتے ہے تو پھر اس صورت میں ابھی آپ کو اس آلے کے متعلق اور شاید اپنے متعلق بھی بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہم پہلے آلے پر بات کر لیتے ہیں۔ اگر آلے کا اسکرین آپ کے چہرے کی طرف ہے تو اس کے دائیں جانب ایک بٹن ہے کہ جس کو دبانے سے بغیر کال کاٹے آتی کال کی گھنٹی یا بیل کو خاموش کیا جاسکتا ہے اور یوں آپ میٹنگ میں مخل ہونے سے بچ جائے گے لیکن اگر آپ نے اپنے اختیار اور قوت کا مظاہرہ کرنا ہے تو پھر کال کاٹنا ہی بہتر آپشن ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہ لوگ جو بہت برملا دوسرے لوگوں کی کال کاٹتے ہیں وہ بھی اپنی کال کٹنے پر شکوہ کرتے نظر آتے ہیں۔ لوگ خود دوسروں کی کالز کے ساتھ جو چاہے سلوک کریں لیکن وہ چاہتے ہیں کہ ان کی کال فوراً وصول کی جائے بلکہ کثیر القومی اداروں کے طریقہ کار کے مطابق پہلی تین گھنٹیوں میں ہی وصول کی جائے۔ نہیں جناب ایسا نہیں ہوسکتا یہ دو رویہ راستہ ہے یہ صرف ایک صورت میں یک رویہ ہوسکتا ہے کہ جب آپ ایک بہت ہی کلیدی عہدے پر ہوں اور اپنی نوکری کے دوران آپ لوگوں کی ضرورت ہوں۔ آپ کو یہ خیال رکھنا ہوگا کہ یہ استحقاق آپ کے پاس صرف نوکری کے دنوں تک ہے اور نوکری ختم ہوتے ہی یہ سڑک خودبخود دو رویہ ہوجائے گی اور آپ کو کال کرنے سے پہلے سوچنے پر مجبور کرے گی۔ اگر آپ نے نوکری کے دنوں میں اپنے استحقاق کا کچھ زیادہ ہی استعمال کیا ہوگا تو پھر باقی عمر فون کو چیک کرنے میں ہی گزرے گی کہ کوئی خرابی تو نہیں ہوگئی کہ کوئی کال نہیں آرہی ہے۔ میں 1992 سے موبائل فون استعمال کررہا ہوں جو میرے اس وقت کے ادارے نے دیا تھا۔ اس دور میں پاکستان میں دو ہی ادارے یہ سہولت فراہم کرتے تھے۔ Patel اور Istaphone جب کہ موبی لنک بہت بعد میں آئی تھی۔ یہ وہ دور تھا کہ جب کال وصول کرنے کے بھی پیسے دینے پڑتے تھے اور موبائل فون ایک اسٹیٹس سمبل تھا اور لوگ بڑی شان سے اس کو لیکر چلتے تھے۔ عام ہونے کے بعد موبائل فون کی کوئی عزت نہیں رہی اور آج اسٹیٹس سمبل یہ ہے کہ کوئی اور آپ کا موبائل فون اٹھائے اور کال آنے پر آپ کو بتائیں کہ کس کا فون ہے اور یہ آپ کی مرضی ہے کہ آپ بات کرنا چاہے یا بات کرنے سے انکار کردے۔  اس تحریر کی تحریک یوں ملی کہ کسی کے فون پر ایک پیغام آیا۔ پیغام وصول کرنے والے کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اسے یہ پیغام کیوں بھیجا گیا ہے؟ پیغام میں ایک عام سی نصیحت آموز تحریر تھی۔ اس پر میں نے پیغام وصول کرنے والے فرد سے کہا کہ یہ آپ سے رابطے میں رہنا چاہتے ہیں لیکن کال نہیں کرنا چاہتے کیونکہ شاید وہ کال کے ممکنہ نتائج کیلئے خود کو تیار نہیں پاتے۔ میرے نزدیک کسی کی کال کاٹنا انتہائی درجے کی بدتمیزی اور بدتہذیبی ہے۔ یہ میری ذاتی رائے ہے۔ اگر آپ دوسروں کی کالز کاٹتے ہیں تو آپ کو اختلاف رائے کا حق بھی ہے اور یہ آپ کی  ضرورت بھی ہے۔ وہ لوگ جو اب فون کو بار بار اٹھا کر چیک کرتے ہے کہ کام بھی کررہا ہے یا نہیں ان کیلئے ایک کہانی اور اختتام۔  ایک بہت بڑے افسر (اپنے تئیں) ریٹائرمنٹ کے بعد کسی نئی رہائشی کالونی میں منتقل ہوئے۔ پہلے کچھ دن تک وہ کسی سے بات نہیں کرتے تھے۔ شام کو اکیلے ہی چہل قدمی کرکے گھر چلے جاتے تھے۔ ایک شام وہ کالونی کے پارک میں ایک صاحب کے ساتھ بیٹھے اور انھیں بتانے لگے کہ وہ کتنے بڑے افسر تھے۔ وہ صاحب پہلے تو خاموشی سے سنتے رہے جب وہ چپ ہوئے تو انھوں نے سوسائٹی کے دیگر لوگوں کا ان سے تعارف کروایا کہ باقی لوگ بھی بہت بڑے بڑے افسران تھے۔ اس کے بعد بولے کہ نوکری کے دوران آپ کتنے بڑے افسر تھے اس سے نوکری کے دوران تو فرق پڑتا ہے مگر ریٹائرمنٹ کے بعد ہم سب فیوز بلب ہے اور بلب کے فیوز ہونے کے بعد اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ سو واٹ کا تھا یا زیرو واٹ کا کیونکہ اب سب فیوز بلب ہے۔ پتہ نہیں اس قصے کے بعد وہ صاحب سمجھے یا نہیں لیکن آپ مجھے اجازت دیجئے۔  

from The Express News https://ift.tt/oZzEpjy
Previous Post Next Post

Contact Form