ٹرین ٹو کوئٹہ ۔۔۔۔ ایک مسافر کی داستان

زیارت کی زیارت؛کوئٹہ سے نکلے تو گرمی بتدریج کم ہوتی محسوس ہوئی۔ ویسے کوئٹہ میں بھی گرمی زیادہ نہیں تھی۔ کچلاک، بوستان، ولگئی، غڑکی اور وام سے ہو کر ہم بابِ زیارت کے سامنے پہنچ گئے۔ یہاں زبردست قسم کی ٹھنڈی ہوا نے ہمارا استقبال کیا۔ بابِ زیارت شہر کا خوب صورت دروازہ ہے جس کے پاس ہی الہجرہ کالج واقع ہے جس کی تفصیل آگے پیش کی جائے گی۔

سبی ڈویژن کا ٹھنڈا ضلع زیارت، کوئٹہ کے شمال مشرق میں واقع ہے اور دْکی، لورالائی، ہرنائی، کوئٹہ اور پشین کے اضلاع سے گھرا ہوا ہے۔

کبھی بھی گرمی نہ دیکھنے والا یہ شہر پاکستان اور بلوچستان کے پُرفضا سیاحتی مقامات میں شامل ہے جہاں ملک کے مختلف حصوں سے لوگ گرمیوں میں چھٹیاں گزارنے آتے ہیں۔

یہ علاقہ اپنے قدرتی حسن کی بدولت انیسویں صدی کے وسط میں انگریز پولیٹیکل ایجنٹ کی نظر میں آگیا اور اسے گرمائی مقام تجویز کیا گیا۔ 1882 میں یہاں ریذیڈنسی بنا دی گئی اور 1887 میں اسے برطانوی حکومت نے استعمال کرنا شروع کردیا۔

زیارت کا پرانا نام غوسکی/کوشکی تھا۔ اٹھارہویں صدی میں یہاں ایک بزرگ بابا خرواری رہے تھے جن کی وفات کے بعد ان کا مزار تعمیر کیا گیا۔ لوگ اس کی زیارت کو آنے لگے، جس کی وجہ سے اس کا نام زیارت پڑگیا۔ 1886 میں اسے باقاعدہ زیارت کا نام دے دیا گیا۔ 1903 میں یہ اس جگہ کو بلوچستان کے گرم ترین ضلع، سبی کا گرمائی صدر مقام قرار دیا گیا۔ 1974 میں اسے تحصیل کا درجہ دے دیا گیا اور 1986 میں علیحدہ ضلع بنا دیا گیا۔

اس کی دو تحصیلوں میں سنجاوی اور زیارت شامل ہیں۔ آبادی ایک لاکھ ساٹھ ہزار کے قریب ہے۔ بلوچستان کے تمام اضلاع میں زیارت، انسانی ترقی کے لحاظ سے پہلے نمبر پر ہے۔

پاکستان کے سردترین شہر کا اعزاز بھی زیارت کے پاس ہے جو سطح سمندر سے لگ بھگ 2400 میٹر بلند ہے۔ 11 فروری 2009ء کو اس شہر کا درجۂ حرارت منفی 50 ڈگری کو چھورہا تھا جو پاکستان کہ کسی بھی شہر کا اب تک کا ریکارڈ کیا گیا سب سے کم درجۂ حرارت ہے۔

زیارت بنیادی طور پر پشتونوں کا علاقہ ہے۔ زیارت میں سارنگزئی، پانیزئی، کاکڑ، ترین اور دوتانی پشتون آباد ہیں جب کہ سنجاوی میں، دمڑ، غلزئی، پیچئی، ونیچئی، سید اور تارن مقیم ہیں۔

یہاں کے بیشتر لوگ نوکری، زراعت اور سیاحت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ یوں تو زیارت کی پیداوار میں سیب، انار، چیری خوبانی، آڑو اور بادام شامل ہیں لیکن لال چیری سے لدے خوب صورت باغ خاص طور پر دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ زیارت کا شمار بلوچستان کے سرسبز ترین علاقوں میں ہوتا ہے جہاں صنوبر کے وسیع جنگلات ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں چلغوزہ بھی پایا جاتا ہے۔

زیارت میں جمعیت العلما اسلام (ف) کا زیادہ اثر رسوخ ہے اور اکثر نمائندے اْن ہی کے منتخب ہو کر پارلیمان میں آتے ہیں۔ جگہ جگہ دیواروں پر ’’زیارت کا ضلع جمیعت کا قلعہ۔‘‘ کے نعرے لکھے ملتے ہیں۔ یہاں پر دوسری بڑی سیاسی جماعت پختونخوا ملی عوامی پارٹی ہے۔

زیارت میں ہمارا سب سے پہلا پڑاؤ قائد کی ریزیڈنسی تھی۔

قائداعظم ریزیڈنسی؛15 جون 2013 میرے لیے ایک دکھ بھرا دن ثابت ہوا۔ زیارت ریزیڈنسی پر بی ایل اے کے دہشت گردانہ حملے کا سن کر افسوس ہوا لیکن جب معلوم ہوا کہ ظالموں نے راکٹوں سے بلوچستان کی نمائندہ عمارت ہی تباہ کر دی ہے تو دل جیسے بند ہونے کو آگیا۔ میرے قائد کی یادگار جو اب تک میں نے دیکھی بھی نہ تھی۔ یہ قوم کا ایک بہت بڑا نقصان تھا۔

ایک لمبی جدوجہد کے بعد قائداعظم کا تھکنا اور بیمار ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہ تھی، لیکن آخری وقت میں ان کا بروقت اسپتال نہ پہنچ سکنا قوم کو اب بھی کَھلتا ہے۔ نوزائیدہ مملکت کے گورنر جنرل نے ریاست کے تمام کاموں کی سرپرستی کا بیڑا اٹھایا اور دن رات ایک کرنے کی وجہ سے خود کی صحت پر توجہ نہ دے سکے۔ ٹی بی کی تشخیص کے بعد آپ کے ذاتی معالج ڈاکتر کرنل الہیٰ بخش نے آپ کو آرام کا مشورہ دیا تو قائد نے زیارت آنے کا فیصلہ کیا اور زندگی کے آخری دو ماہ دس دن یہیں قیام کیا۔

بھائی کے ساتھ سائے کی طرح رہنے والی ان کی وفاشعار بہن محترمہ فاطمہ جناح اور ایک نرس مس اے- ایس نتھینئل بھی ان کے ساتھ یہیں قیام پذیر ہوئیں۔

گھنے درختوں کے بیچ، لکڑی سے بنائی گئی یہ خوب صورت عمارت 1890 کی دہائی میں بنائی گئی تھی جہاں تاجِ برطانیہ کے بندوبست کے لیے آنے والے افسران بھی ٹھہرتے تھے۔ یہ عمارت کس نے بنائی؟ اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوسکا۔

قائداعظم کے انتقال کے بعد اسے قومی ورثہ قرار دیتے ہوئے ’’قائداعظم ریزیڈنسی‘‘ کا نام دے دیا گیا اور عجائب گھر میں تبدیل کرکے قائد اعظم کے زیراستعمال رہنے والی اشیاء کو نمائش کے لیے رکھ دیا گیا۔ یوں یہ عمارت بلوچستان کی پہچان بن گئی۔

پاکستان ٹیلیویژن سمیت دیگر چینلز پر مختلف پروگراموں میں یہی سبز عمارت بلوچستان کی نمائندگی کرتی دکھائی دیتی ہے۔ پاکستانی کرنسی میں سو روپے کے بینک نوٹ پر بھی یہی عمارت جلوہ افروز ہے۔

عمارت کا نقشہ بالکل سادہ ہے۔ مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی راہ داری کے دونوں طرف دو دو کمرے ہیں اور سامنے ایک زینہ۔ اوپر بھی اسی طرح کا نقشہ ہے۔ یوں اس عمارت میں کل چار کمروں سمیت اوپر نیچے دو برآمدے ہیں۔

عمارت کے بیرونی اطراف میں لکڑی کے ستون ہیں اور عمارت کے اندرونی حصے میں بھی لکڑی کا استعمال بہت ہی خوب صورتی سے کیا گیا ہے۔

نیچے دائیں ہاتھ پر کھانے کا کمرا اوردوسرا غالباً اسٹڈی روم ہے، جب کہ اوپر دائیں ہاتھ پہلا کمرا قائداعظم کا ہے۔ آرام دہ کرسی اور وال کلاک اصلی ہیں جب کہ بقیہ سامان کو آگ لگنے کے بعد دوبارہ اسی انداز میں بنوایا گیا ہے۔ اس کے ساتھ درمیان میں دروازہ ہے اور ساتھ متصل کمرا بانی پاکستان کے معالج کا ہے۔

دونوں کمرے نہایت نفاست سے سجے تھے۔ کمرے کے ساتھ گیلری اور پھر بائیں جانب مہمانوں اور محترمہ فاطمہ جناح کا کمرا ہے جس کے واش روم میں خوب صورت ٹب سمیت تانبے کی اصلی اور پرانی ٹونٹیاں لگی ہوئی ہیں۔

رہائش گاہ میں قائداعظم کے زیراستعمال کمروں میں ایسی کئی تصاویر آویزاں ہیں جو قائداعظم نے اپنی بیٹی، بہن، بلوچستان کے قبائلی عمائدین اور دیگر سرکردہ شخصیات کے ساتھ کھنچوائی تھیں۔

2008 کے زلزلے میں عمارت کو جزوی نقصان پہنچا جس کا ازالہ اسی وقت کردیا گیا لیکن 2013 کے مسلح حملے میں ملک دشمنوں نے اس عمارت کو بموں سے تباہ کردیا۔ میں ایسے لوگوں کو ملک سے بھی زیادہ انسانیت دشمن سمجھتا ہوں لیکن یہ بات بھی سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ریزیڈنسی کے قریب گورنر و وزیرِاعلیٰ ہاؤس سمیت اہم سرکاری دفاتر اور رہائش گاہیں واقع ہیں تو اتنی آسانی سے کیسے کوئی اتنے اہم ورثے کو تباہ کر سکتا ہے؟

اس رات سیکیورٹی والے کہاں تھے؟

ریزیڈنسی کو فوراً کیوں نہ بچایا گیا؟

یہ سوال بھی میرے عظیم قائد کی موت کی طرح ہنوز جواب طلب ہیں۔

اچھی بات یہ ہے کے حکومت پاکستان نے اس عمارت کی اہمیت کے پیش نظر اسے ریکارڈ وقت میں ہوبہو شکل میں بحال کیا اور 14 اگست 2014 کو افتتاح کے بعد دوبارہ عوام کے لیے کھول دیا۔

زیرو پوائنٹ؛خرواری بابا جاتے ہوئے راستے میں ایک پُرفضا مقام آتا ہے جسے زیرو پوائنٹ کہا جاتا ہے۔ زیروپوائنٹ سے آپ نہ صرف واددیٔ زیارت کا خوب صورت نظارہ کرسکتے ہیں بلکہ ٹھنڈی ہوا کا لطف بھی اٹھا سکتے ہیں۔ وادی کا سب سے اونچا پہاڑ ’’خلافت‘‘ بھی یہاں سے نظر آتا ہے۔ یہاں فیملیز پکنک کے لیے آتی ہیں۔ زیروپوائنٹ کی خاص بات وہ درخت ہے جس کو دیکھیں تو اللہ لکھا ہوا نظر آتا ہے۔

زیارت خرواری بابا؛زیارت نام کی وجہ تسمیہ اس مزار سے منسلک ہے جو ریزیڈنسی سے کچھ آگے اونچائی پر واقع ہے۔ یوں تو اس علاقے میں مزار ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے لیکن خرواری بابا کی کہانی الگ ہے۔ خرواری بابا کا اصل نام مُلا طاہر ہے جو نانا صاحب میاں عبدالحکیم کے شاگرد تھے۔

قصہ زبان زدِ عام ہے کہ ایک مرتبہ نانا صاحب غوسکی میں آپ کے ہاں مہمان ہوئے اور رات کو عبادت کے دوران مُلا طاہر سے پانی مانگا۔ مُلا پانی کا کٹورا لے کر استاد کے پاس آئے تو انہیں عبادت میں مشغول پاکر پانی دینا مناسب نہ سمجھا اور وہیں کھڑے رہے۔ جب نانا صاحب عبادت سے فارغ ہوئے تو مُلا طاہر سے پانی لیتے ہوئے دیکھا کہ سخت سردی سے ان کے ہاتھ کی چمڑی اتر رہی تھی۔ اس پر نانا صاحب نے آپ کو خرواری بولتے ہوئے نانا گنج کا خطاب دیا۔ یہ روایت کتنی سچی ہے اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

آپ کے مزار کی وجہ سے غوسکی کا نام زیارت رکھا گیا کہ پشتو زبان میں مزار کو زیارت کہا جاتا ہے۔

زیارت خرواری بابا یہاں کا ایک اہم مقام ہے جہاں کئی لوگ حاضری دینے آتے ہیں۔ مزار کے احاطے میں ہی آپ کے دادا مُلا خان محمد کی قبر بھی ہے جب کہ ایک طرف چبوترے پر خوب صورت مسجد بنائی گئی ہے۔ پہلے یہاں تک ایک کچا راستہ تھا لیکن اب پکی سڑک بن چکی ہے۔ اگرچہ مزار اور مسجد کو پکا کردیا گیا ہے لیکن مزار کے باہر بالکل سامنے گل محمد کی کچی اور سادہ سی دکان آج بھی زیارت کی پرانی کہانی بیان کر رہی ہے۔

صنوبر کے قدیم جنگلات؛زیارت کا علاقہ صنوبر کے وسیع و عریض جنگلات سے گھرا ہوا ہے جو پاکستان میں صنوبر کے جنگلات (جونیپرس سیراوشینکا) کا سب سے بڑا علاقہ ہے۔

اپریل 2016 میں محکمۂ آثارِقدیمہ پاکستان کی جانب سے یونیسکو کوجمع کروائی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق زیارت کے جنگلات لگ بھگ ایک لاکھ دس ہزار ہیکٹر پر محیط ہیں۔

ان جنگلات میں ہمیں قدیم ترین درخت ملتے ہیں جن میں سے کچھ 4000 سال پرانے ہیں۔ یوں انہیں ’’لِونگ فوسلز‘‘ یعنی زندہ رکاز کا نام دیا جاتا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ جنگل دنیا میں اپنی نوعیت کا دوسرا بڑا جنگل ہے جسے حکومت پاکستان نے 2013 میں ایک محفوظ علاقہ قرار دیا ہے۔ یہ کالے ریچھوں اور بھیڑیوں کے ساتھ ساتھ اڑیال اور سلیمان مارخور (جنگلی بکریوں کی ایک بڑی نسل) کا مسکن بھی ہے۔

الہجرہ ریزیڈنشل کالج؛زیارت سے واپسی پر اس شہر میں ہمارا آخری پڑاؤ الہجرہ کالج تھا۔

اس ادارے سے میرا پہلا تعارف ’’رضوان بگٹی‘‘ ہے جو ایک سیاح اور بائیکر ہونے کے ساتھ اس ادارے کا فارغ التحصیل بھی ہے اور آج کل ملتان میں اعلیٰ تعلیم کے لیے مقیم ہے۔

رضوان نے جب مجھ سے ادارے کے سہ ماہی مجلے ’’الخالدون‘‘ کے لیے بلوچستان کا سفرنامہ مانگا تو مجھے اس ادارے کے بارے میں جاننے کا تجسس ہوا اور جب وہ میگزین چھپ کے میرے ہاتھ میں آیا تو میں دنگ رہ گیا۔ انتہائی خوب صورت طباعت، کمپوزنگ اور اس میں بلوچ نوجوانوں کے زبردست مضامین۔

اس مجلے کا ایڈیٹر الیاس کاکڑ ہے جس سے رابطہ کیا تو ادارے کے بارے میں اور معلومات حاصل ہوئیں۔ پشین کے علاقے خانوزئی سے تعلق رکھنے والا الیاس، آج کے دور کا پڑھا لکھا اور باشعور نوجوان ہے جو بلوچ روایات کی مشعل تھامے وفاقی دارالحکومت میں اپنی خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ اس کو جب ادارے کے دورے کا بتایا تو بہت خوش ہوا۔

اب اس شان دار ادارے کا تعارف کروا دیتا ہوں۔

الہجرہ ریزیڈنشل اسکول اینڈ کالج، جناح کیمپس زیارت، صوبے کا وہ واحد غیرسرکاری ادارہ ہے جو کم وسائل والے گھرانوں کے بچوں کو دو دہائیوں سے ٹیلنٹ اسکالرشپ پر تعلیم کے زیور سے آراستہ کر رہا ہے۔

یہی نہیں قیام و طعام، کتب، اسٹیشنری، یونیفارم اور طبی امداد جیسی سہولیات بھی ادارہ مفت فراہم کرتا ہے جس کا خرچ مختلف مخیر حضرات کی جانب سے ڈونیشن کی مد میں دیا جاتا ہے۔

یقیناً یہ ادارہ بلوچستان کے طلباء کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ ہرسال یہاں نئے بیچ میں بلوچستان کے تمام اضلاع سے دو دو بچوں کو داخلہ دیا جاتا ہے یوں یہ پورے صوبے کا نمائندہ ادارہ بھی کہلانے کا حق دار ہے۔

ہوتی ہے یہاں تدبیرِ وطن

بنتی ہے یہاں تقدیرِ وطن

الہجرہ ہے دمسازِ وطن

اعزازِ وطن توقیرِ وطن

شان دارعمارت، وسیع برآمدے، سرسبز لان، لائبریری و ہاسٹل کی سہولت، خوش گوار ماحول اور اردگرد پہاڑ۔۔۔۔۔ بھائی اس جگہ کس کا پڑھنے کو دل نہ چاہے گا؟

کالج کے چار مختلف بلاکس کے نام قائداعظم محمد علی جناح، ڈاکٹر علامہ محمد اقبال، حکیم محمد سعید شہید اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ناموں پر رکھے گئے ہیں۔ ماننا پڑے گا، کیا کمال شخصیات چُنی ہیں۔

خوشی کی بات یہ ہے کہ گذشتہ سال الہجرہ نے پنجاب اور سندھ سے تعلق رکھنے والے متوسط گھرانوں کے طالب علموں کے لیے ڈیرہ غازی خان میں ایک نیا کیمپس کھولا ہے جہاں جنوبی اضلاع سے دو دو اور سندھ کے ہر ضلع سے ایک بچے کو داخلہ دیا جائے گا۔ یقیناً یہ اقدام قابل تحسین ہے۔

الہجرہ میں ہماری ملاقات فیض بھائی کے دوست مولا بخش عرف اجاگر ساجد سے ہوئی جو وہاں بطور معلم اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے ہمیں وہاں کے لائبریرین سے ملوایا جن کی معیت میں ہم نے یہ ادارہ دیکھا۔

ادارے کی لائبریری کو میں نے اپنی کتاب شاہنامہ تحفتہً پیش کی۔ اسی لائبریری میں الخالدون کے وہ شمارے بھی رکھے تھے جن میں میرا مُولا و جھل مگسی کا سفرنامہ چھپا تھا۔ لائبریرین سے وہ شمارے لے کر جب میں نے دوستوں کو دکھائے تو وہ حیران بھی ہوئے اور خوش بھی۔ یہ میرے لیے بھی ایک اعزاز تھا کہ دوردراز کے اس ادارے میں ناچیز کو بھی پڑھا جاتا ہوگا۔

الہجرہ کے طلباء سے میں نے ان کے مستقبل اور نظریات پر بھی بات کی۔ بیشتر ڈاکٹر، آفیسر اور آئی ٹی ایکسپرٹ بننا چاہتے تھے۔ کیچ، تربت اور آواران سے لے کر ژوب، بارکھان اور قلات سے تعلق رکھنے والے تمام لڑکوں کی آنکھوں میں اپنی دھرتی کے لیے کچھ کرنے کی تڑپ تھی۔ یہ سب بہت کچھ جاننا چاہتے تھے۔

اپنے ملک سے محبت اور بلوچستان کے معاشی حالات بدلنے کی جستجو ان کی باتوں سے جھلکتی تھی۔ ان سب سے بات کرکے میرا سیروں خون بڑھ گیا اور مجھے بلوچستان کی دھرتی پر فخر محسوس ہوا۔

ایک اور بات، یہ بچے دیگر صوبوں اور ممالک کے بارے میں جاننے کی شدید خواہش رکھتے تھے سو میں نے ان کو سیاحت کا مشورہ دیا اور اپنی کتاب کا بھی بتایا۔

الہجرہ سے نکلتے ہی ہم نے زیارت کو الوداع کہا اور کوئٹہ کی جانب رخ کرلیا۔ بوستان کے قریب میں نے ٹیکسی والے بابا جی کو راستہ سمجھایا اور ہم بوستان اسٹیشن جا پہنچے جو ماضی کا ایک گنجان جنکشن ہوا کرتا تھا۔

بوستان جنکشن؛ریل کا سفر بھی بڑا عجیب ہوتا ہے، انسان کو بہت کچھ سکھا دیتا ہے۔ ان ریلوں میں ایک الگ ہی دنیا آباد ہوتی ہے۔

قسم قسم کے لوگ، بھانت بھانت کی بولیاں، انجن کی سیٹیاں اور نت نئے چٹخارے۔ یقین مانیں اگر آپ اپنے سفر کو کھل کہ جینا چاہتے ہیں تو ریل سے سفر کیا کریں۔

جہاں پنجاب و سندھ کے زیادہ تر اسٹیشن پُرہجوم اور یکساں مناظر کے حامل ہیں وہیں بلوچستان کے اسٹیشن چھوٹے، خاموش اور قدرتی مناظر سے گھرے ہوئے ہیں۔ انہی میں سے ایک ’’بوستان‘‘ ہے جو میرا پسندیدہ اسٹیشن ہے۔

بوستان کا نام کاکڑ قبیلے کے ایک سردار اور افغان جنگِ آزادی کے ہیرو، بوستان کے نام سے موسوم ہے۔ بوستان کوئٹہ کو ژوب، ہرنائی اور چمن سے ملانے والی مختلف ریلوے لائنوں پر ایک دور میں اہم جنکشن ہوا کرتا تھا لیکن ریلوے کی تباہی کے ساتھ بوستان بھی اجڑتا گیا اور اب یہاں برف پوش پہاڑوں کے بیچ ریل کے چند ڈبے کھڑے نظر آتے ہیں۔

بوستان کو ڑوب سے ملانے والی تنگ پٹڑی ایک دور میں برصغیر کی سب سے لمبی تنگ پٹری تھی جس پر گیارہ اسٹیشن بنائے گئے تھے۔ انہی میں سے ایک ’’کان مہترزئی‘‘ کو پاکستان کے سب سے بلند ریلوے اسٹیشن کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

ایک دور میں خوب آباد رہنے والا بوستان اب ایک ویران اسٹیشن ہے (اگرچہ کوئٹہ سے چمن جانے والی چمن پیسنجر یہاں سے گزرتی ہے) جہاں لال پہاڑوں کے بیچ بوسیدہ لائنوں پر کھڑے ریل کے چند ڈبے اس انتظار میں ہیں کہ کسی مخلص وزیر کے ایک حکم پر کوئی انجن آئے گا اور انہیں کھینچ کے ملک کے طول و عرض میں لیتا جائے گا۔

مگر حیف اس چھوٹے سے شہر کی قسمت۔

اسٹیشن کی چھوٹی سی عمارت کے ایک طرف لڑکیوں کا اسکول ہے، سامنے بوستان کا ریلوے اسپتال جب کہ عقب میں خوب صورت کچے گھر ہیں۔

واپسی پر لنچ کم ڈنر ہم نے الدبئی ریسٹورنٹ سے کیا۔ شہر سے کچھ دور کچلاک کے پاس یہ روایتی ہوٹل اگرچہ کوئٹہ سے کچھ دور ہے لیکن ذائقہ اور سروس لاجواب ہے۔ دال، چاول، قیمہ سے لے کر روش، سجی اور بار بی کیو تک سب ملے گا۔ ان کا روش اور بار بی کیو لاجواب تھا۔ زیارت جانے والے دوست خصوصی طور پر جائیں کہ یہ راستے میں پڑتا ہے۔

کوئٹہ پہنچے تو انوار بھائی کی شدید خواہش پر ہم نے پھر سے سرینا کا رخ کیا اور فیض بھائی کے ہمراہ میٹھے سے لطف اندوز ہوئے۔ فیض بھائی کو کل کے وعدے پر الوداع کہا اور ہم پہنچے میزان چوک جہاں کوئٹہ کی تمام بڑی مارکیٹیں کا سنگم ہوتا ہے۔ یہاں آپ کو ہر قسم کا سامان مل جائے گا جیسے کوئٹہ کی خاص نوروزی چپل، دانے دار کھلی چائے، خوشبودار گرم مسالے، ہر قسم کا ڈرائی فروٹ، کمبلیں، رضائیاں، بیگ، جوتے، کورین ویلوٹ، ایرانی چاکلیٹس، چینی و ایرانی برتن اور وہ بھی نہایت مناسب داموں۔ اماں جی کی بنائی گئی لسٹ نکال کے میں نے کچھ شاپنگ اسی رات کرلی بقیہ کل پہ رکھ چھوڑی۔ ہوٹل کا رخ کیا اور تازہ دم ہو کے سوگئے۔

اگلا دن ہمارا کوئٹہ میں دوسرا اور آخری دن تھا کہ یہ ایک مختصر دورہ تھا سو اس دن کو بھرپور طریقے سے پلان کیا گیا۔

کوئٹہ کیفے سے دیسی ناشتے کی شروعات کی (جو کل کی نسبت بہت زیادہ لذیذ نا تھا) اور ہم دونوں بازاروں میں گھس گئے۔ کل کی کثر جو پوری کرنی تھی۔ اماں کی لسٹ کے مطابق خوشبودار گرم مسالا ڈھونڈا جو قدرے مناسب داموں مل گیا۔ پھر کپڑے اور میوے خرید کے میں ایک دوست سے ملاقات کرنے نکل کھڑا ہوا جب کہ انوار بھائی نے کمر سیدھی کرنے کے لیے ہوٹل کا رخ کیا۔ ملاقات کے بعد میں ہوٹل پہنچا اور ہم دونوں تازہ دم ہو کے جامعہ بلوچستان جا پہنچے جہاں فیض بھائی نے ہمارا استقبال کیا۔

جامعہ بلوچستان؛کوئٹہ کی سریاب روڈ پر واقع یونیورسٹی آف بلوچستان، صوبے کی سب سے بڑی سرکاری جامعہ ہے جس کا قیام اکتوبر 1970 میں ایک آرڈیننس کے ذریعے عمل میں لایا گیا تھا۔ یہ غالباً پاکستان کی ایسی واحد یونیورسٹی جس کے اندر سے ٹرین گزرتی ہے۔ سردیوں کے کچھ دنوں میں یہ جگہ برف کی چادر اوڑھ لیتی ہے۔

ایکڑوں پر پھیلی جامعہ بلوچستان، سائنس و آرٹس کے لگ بھگ چھپن شعبوں میں اعلیٰ تعلیم فراہم کر رہی ہے جن میں طبیعات، کیمسٹری، بیالوجی، حساب، شماریات، تاریخ، سائیکالوجی، اسلامیات، جنرلزم، علوم ارضیات، قانون، بائیوکیمسٹری، مینجمنٹ سائنسز، زبان و ادب، تاریخ، آثارقدیمہ، مطالعہ پاکستان، مطالعہ بلوچستان، معدنیات، بائیو ٹیکنالوجی، فارا سائنسز سمیت دیگرعلوم شامل ہیں۔ جامعہ کے سب کیمپس کوئٹہ سٹی، مستونگ، خاران، پشین اور قلعہ سیف اللہ میں قائم کیے گئے ہیں۔

مختلف معاشی بحرانوں میں گھری یہ یونیورسٹی، بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی طلبا تنظیموں کی سیاست کا گڑھ مانی جاتی ہے۔ یہاں کے لان میں ہر تنظیم کا ایک علیحدہ سرکل دیکھا جدھر طلبا اپنے مشوروں، بیٹھکوں اور احتجاج کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں۔

سب سے اہم بات کے بلوچستان بھر کے قبائلی سماج سے تعلق رکھنے والی بچیاں یہاں زیرتعلیم ہیں اور جو ایک خوش آئند بات ہے۔ اس یونیورسٹی کا ماحول بالکل بھی گھٹن زدہ نہیں محسوس ہوا۔ افسوس کی بات یہ کے اتنی بڑی جامعہ کے لیئے ایک بک شاپ اور چار کینٹینز جو بالکل ناکافی ہیں۔

جامعہ کا دورہ کر کے ہم نے کل والے بابا جی کو بلوایا اور حنہ جھیل کی طرف نکل کھڑے ہوئے۔

حنہ جھیل؛حنہ جھیل دیکھنے کی مجھے کوئی خاص ایکسائٹمنٹ نہیں تھی کہ بچپن میں یہ جھیل میں دو بار دیکھ چکا تھا۔ سُنا تھا کے اس کا پانی کم یا خشک ہوگیا ہے لیکن اس دن ماشاء اللہ، جھیل کا پانی اور عوام کا سمندر دونوں ہی ٹھاٹھیں مار رہے تھے۔ چھٹی کے باعث عوام کا جم غفیر تھا۔

کوئٹہ کے شمال میں پہاڑوں کے بیچ واقع حنہ جھیل انگریز سرکار نے 1894 میں پانی کی فراہمی، زیرزمین پانی کی سطح بلند رکھنے اور آس پاس کی اراضی کو سیراب کرنے کے لیے بنائی تھی۔ یہ جھیل ہجرتی پرندوں کی ایک بڑی آماج گاہ ہے۔

اس جھیل کی گہرائی لگ بھگ 43 فٹ ہے جہاں بارشوں اور برف باری کا پانی مختلف گزرگاہوں سے ہوتا ہوا اڑک روڈ پر واقع براستہ سرپل جھیل تک پہنچتا ہے۔

کافی عرصہ پہلے یہ جھیل مکمل خشک ہوگئی تھی جس سے یہاں کی سیاحت اور پرندوں کی آمد کافی متاثر ہوئی تھی۔ شدید بارشوں اور ہنگامی اقدامات کے باعث جھیل اب دوبارہ بھر چکی ہے۔

نیز فوج کی نگرانی میں ضروری حفاظتی انتظامات کے ساتھ یہاں آنے والوں کو کشتی کی سیر کروائی بھی جاتی ہے۔ جھیل کے قریب نصب لفٹ چیئر کو ایک حادثے کے بعد ہٹا دیا گیا تھا۔

یہاں ہم نے کئی پٹھان اور بلوچ نوجوانوں کی ٹولیاں دیکھیں جو مختلف گانوں پر مقامی رقص کر رہے تھے اور بہت سے لوگ ان کے گرد جمع تھے۔ یہ رقص واقعی بہت مشکل تھا جس میں ردھم کا بہت خیال رکھنا پڑتا ہے۔

شام کو حنہ جھیل سے واپسی کے بعد اڑک کا رخ کیا جہاں ایک خوب صورت ہوٹل کے ٹھنڈے لان میں چائے پی اور رات کو کوئٹہ واپسی ہوئی۔ یہاں سے ہم نے فیض بھائی کو الوداع کہا اور اپنے ہوٹل کی راہ لی۔

اگلے دن علی الصبح اٹھے، تیار ہو کر شالیمار ہوٹل سے ناشتہ کیا جس کی چائے پورے شہر میں مشہور ہے، اور سامان لے کر اسٹیشن پہنچ گئے۔ جعفر ایکسپریس جانے کے لیے تیار تھی۔ اپنے ڈبے میں سامان رکھا اور واپسی کا سفر شروع ہوا۔

اب بات ہوجائے کچھ حالات و واقعات کی۔ میرے بہت سے دوستوں اور پڑھنے والوں نے اس سفر کے حوالے سے مختلف سوالات کیے تھے جن کے چیدہ چیدہ جوابات میں یہاں دینا چاہوں گا۔

کیا بلوچستان محفوظ ہے؟؟؟

اگر حقیقت کی عینک لگا کے دیکھا جائے تو پاکستان کے بیشتر علاقے محفوظ نہیں ہیں۔ پنجاب اور سندھ میں بھی ڈکیتیاں ہوجاتی ہیں۔ بلوچستان کے بیشتر علاقے جیسے ژوب، کوئٹہ، زیارت، سبی، نصیر آباد، پشین، لورالائی، رکھنی، بارکھان وغیرہ محفوظ ہیں۔ آپ یہاں بسوں پر، ٹرین پر اور اپنی سواری پر بھی جا سکتے ہیں۔ ہمارے ہوٹل کے آس پاس سب کو پتا تھا کہ ہم سرائیکی اور پنجابی ہیں لیکن اس کے باوجود ہم آرام سے رہے۔ ہاں کچھ علاقے جیسے پنجگور، تربت، مکران، ہرنائی وغیرہ یہاں اکا دکا واقعات ہوتے رہتے ہیں لیکن یہاں کی عوام بہت پر امن اور مہمان نواز ہے۔ اگر ان علاقوں میں آْپ کا کوئی مقامی یار دوست ہے تو آپ بلاجھجک جا سکتے ہیں۔

لوگوں کے رویے اور عوام کی حالت زار کیسی ہے؟؟؟

بلوچ قوم بہت باشعور اور کھلے ذہن کی ہے۔ پڑھنے لکھنے، رقص، موسیقی، شاعری اور سیاحت کا شوق رکھتی ہے۔ کتب بینی کو پسند کرتی ہے۔ طلبا کا جھکاؤ بائیں بازو کی سیاست کی طرف ہے۔ ملنسار اور مہمان نواز لوگ ہیں۔ کوئٹہ میں رکشے والے سے لے کر ہوٹل والے تک سب نے پیسے لینے سے انکار کردیا لیکن ہم سیاح تھے، سو ہم نے پیار سے انہیں منع کردیا اور کرایہ ادا کیا۔ شاپنگ کے وقت بھی مجھے خصوصی رعایت دی گئی، اتنی تو پنجاب اور سندھ میں بھی نہیں ملتی۔ ٹیکسی والے پٹھان بابا جی بھی کمال تھے۔ پورا راستہ ہم دوست سیاست اور علیحدگی پسند بلوچ تنظیموں پر کھل کے بات کرتے آئے لیکن انہوں نے کہیں کوئی مداخلت نہیں کی نا ہی ناگواری ظاہر کی۔

عوام کی حالت زار بالکل ویسی ہے جیسے اندرون سندھ میں ہے۔ پنجاب کی عام تحصیل بھی بلوچستان کے ضلعی صدر مقام سے بڑی اور بہتر ہے۔ بلوچستان کے بیشتر شہر انفرااسٹرکچر میں بہت پیچھے ہیں۔ پس ماندگی جگہ جگہ نظر آتی ہے۔ زیارت جیسے شہر تو اپنی خوب صورتی اور باغات کے پیچھے چھپ جاتے ہیں لیکن سبی، بوستان، ڈیرہ اللہ یار اور ڈیرہ مراد جمالی کو دیکھ کے بس یہی خیال آتا ہے کہ اس صوبے کا بجٹ آخر جاتا کہاں ہے؟

سرکاری اسپتال کوئی خاص نہیں ہیں۔ کوئٹہ کا سب سے اچھا اسپتال (سی ایم ایچ) کینٹ میں واقع ہے جہاں ہرعام شخص کا داخلہ بند ہے۔ پرائیویٹ اسپتال بھی زیادہ نہیں ہیں۔ کینسر، گردوں اور ریڈیالوجی کے ماہر ڈاکٹرز کی کمی ہے۔ بڑے شہروں کے علاوہ کہیں صاف پانی دست یاب نہیں ہے۔

ثقافت و روایات۔۔۔خواتین کی موجودگی: یوں تو اس صوبے کے ہر علاقے کی الگ روایات ہیں لیکن میں وہی بیان کروں گا جو دیکھا ہے۔ پہناوؤں کی بات کریں تو بیشتر لوگ بل والی شلوار، قمیض اور نوروزی پہنے نظر آئیں گے۔ پینٹ شرٹ والے یا تو بچے ہوں گے یا پنجاب و سندھ سے کام کے لیے آنے والے کچھ لوگ۔ خواتین زیادہ تر پردے میں ملیں گی۔ بلوچی سمیت پشتو، سرائیکی، ہزارہ، پنجابی، سندھی اور براہوی سب زبانیں بولنے والے ملیں گے۔ انگریزی بولنے والے صرف سرینا تک محدود ہیں۔

روایت پسندی، بہادری اور مہمان نوازی روایات کی بنیاد میں شامل ہیں۔ کیا نوجوان اور کیا بوڑھے، سب ہی کام کاج کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ باقی علاقوں کی طرح یہاں موٹاپا کم دکھائی دیتا ہے یوں لگتا ہے جیسے ہر دوسرا شخص کثرت کرتا ہو۔ سنا تھا کے یہاں ہر دوسرا شخص اسلحہ رکھتا ہے لیکن میں نے ایسا نہیں دیکھا۔

سڑک سے گزرتے آپ کسی دکان دار سے کچھ پوچھیں گے تو وہ آْپ کو قہوہ ضرور پوچھے گا۔ بھاؤ تاؤ بھی نہایت تمیز اور پیار سے کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ سخت مزاج لوگ کہیں نہیں ہیں، وہ بھی اس معاشرے میں ڈھونڈنے سے مل جاتے ہیں۔ کوئٹہ شہر میں تو زیادہ پٹھان ملتے ہیں اس لیے شہر پر پختون ثقافت کا غلبہ ہے۔ شہر سے باہر کے لوگ کچے مگر مضبوط مکانات میں بستے ہیں۔ مٹی سے بنے ان گھروں کی سادہ بیٹھکیں آپ کو اپنی جانب مائل کرتی ہیں۔ فرشی نشستوں اور گاؤ تکیوں کا رواج زیادہ ہے۔ گاؤں میں اکثر لوگوں کو ایک جگہ گپ شپ کی محفلیں جمائے دیکھا۔ لڑکے کرکٹ کھیتے یا پڑھائی کرتے پائے گئے۔ روایتی رقص سے ان کو بہت محبت ہے۔ جہاں کسی جگہ چھے آٹھ نوجوان اکٹھے ہوئے، رقص شروع ہوگیا اور ہم جیسے سوچتے رہ گئے کہ ہمارے ہاں یہ کرنا کتنا مشکل ہے۔

معاشرے پر مرد غالب ہیں۔ خواتین خال خال ہی نظرآتی ہیں۔ ہرعوامی جگہ پہ آپ کو صرف ہزارہ خواتین نظر آئیں گی۔ ہزارہ کمیونٹی بہت پرامن ہے اور سیروتفریح کو پسند کرتی ہے۔ ان کی خواتین پڑھی لکھی اور باوقار ہیں۔ اب تو قبائلی بلوچ خواتین بھی یونیورسٹی لیول تک جا کے اپنے خواب پورے کر رہی ہیں۔ کوئٹہ میں بازار وہ واحد جگہ ہیں جہاں خواتین کی کثیر تعداد نظر آئے گی۔

کھانے اور مشروبات: کھانوں کے معاملے میں اس شہر نے بہت ترقی کی ہے۔ بچپن میں جب آتا تھا تو یہاں کابلی پلاؤ، روش، چپلی کباب اور تندوری نان کے علاوہ بازار میں شاذونادر ہی کچھ ملتا تھا۔ لیکن آج کا کوئٹہ بدل چکا ہے۔

یہاں جگہ جگہ اسٹریٹ فوڈ کی ریڑھیاں نظر آئیں گی۔ نت نئے قسم کے برگر، آئس کریم اور جوس اب عام ہیں۔

ناشتے کے لیے ہر دوسرا ہوٹل اچھی سروس دیتا ہے۔ انڈا، پراٹھا،دہی، چنے اور اب کہیں کہیں پائے بھی مل جاتے ہیں۔ کوئٹہ کیفے کی چائے اور ناشتہ مشہور ہے۔ عام ڈھابوں پر بھی زبردست چائے ملتی ہے۔

کوئٹہ کے روایتی کھانے بھی پشاور جیسے ہیں۔ یہاں مٹن کی نمکین سجی اور روش کا راج ہے۔ ہر دوسرا شخص مٹن کی محبت میں گرفتار ہے۔ اس کے علاوہ کابلی پلاؤ، باربی کیو، دال، کڑاہی اور چپلی کباب بھی شوق سے کھائے جاتے ہیں۔ البتہ ساتھ میں اب بھی بڑا والا تندوری نان دیا جاتا ہے جو پانچ منٹ بعد سخت ہوجاتا ہے۔ یہاں گندم کی روٹی کا رواج بالکل نہیں ہے۔ کھانے کے بعد قہوہ پیا جاتا ہے مگر نئی نسل اب کولڈ ڈرنکس کی طرف آ رہی ہے۔ ہر بڑے چھوٹے ہوٹل پر فرشی قالین بچھے نظر آئیں گے۔ کرسی میز کا رواج کم ہے۔

شاہ ولی ریسٹورنٹ، تکاتو نائٹس، الدبئی اور لہڑی ہوٹل کھانے کے لیے جب کہ اسٹیشن کے ساتھ واقع شالیمار ہوٹل چائے کے لیے مشہور ہے۔

کافی، سوپ اور پیسٹریز کے لیے آپ سرینا ہوٹل کا رخ کر سکتے ہیں لیکن کافی ایکسپرٹ انوار بھائی کے بقول ان کی کافی کسی کام کی نہیں ہاں البتہ سوپ اور چائنیز کھانا اچھا ہے۔ یہ کوئٹہ کا سب سے مہنگا ہوٹل و ریستوراں ہے۔

کوئٹہ کیسے آئیں اور کیا دیکھیں؟

کراچی، لاہور، ملتان، پشاور اور راولپنڈی سے آنے والے ٹرین اور بس دونوں سے کوئٹہ پہنچ سکتے ہیں۔ جعفر ایکسپریس پشاور جب کہ کوئٹہ ایکسپریس کراچی سے روزنہ کوئٹہ کے لیے نکلتی ہے۔

سڑک کے کئی راستے آپ کو بلوچستان تک لے جاتے ہیں۔ ڈیرہ غازی خان سے براستہ فورٹ منرو اور لورالائی، کراچی سے براستہ لسبیلہ، خضدار، قلات و مستونگ، سکھر لاڑکانہ سے براستہ جیکب آباد، سبی مچھ جب کہ پشاور و ڈیرہ اسمٰعیل خان سے براستہ ڑوب بھی کوئٹہ پہنچا جا سکتا ہے۔ یہ تمام راستے محفوظ ہیں۔ اندرون ملک پروازیں غالباً لاہور اور کراچی جاتی ہیں۔

کوئٹہ اور گردونواح کی مشہور جگہوں میں زیارت، چمن، کولپور، حنہ جھیل، اڑک، چلتن ہزارگنجی نیشنل پارک، جبلِ نورغار، معدنیاتی و ارضیاتی عجائب گھر اور مِری قلعہ شامل ہیں۔

پھر کب جا رہے ہیں آپ کوئٹہ؟؟؟

( ختم شد )

The post ٹرین ٹو کوئٹہ ۔۔۔۔ ایک مسافر کی داستان appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/HJ7K8G6
Previous Post Next Post

Contact Form