مودی کی بظاہر جیت دراصل ان کی سیاسی موت کے مترادف ہے کیونکہ ان کی پارٹی بی جے پی کو خلاف توقع دو تہائی اکثریت حاصل نہیں ہوئی جو بلا شرکت غیرے حکومت بنانے کے لیے لازمی ہے۔ اُن کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ ایسے کمزور شخص ہیں جنھیں محض چلنے کے لیے ہی نہیں بلکہ ٹانگوں پر کھڑا رہنے کے لیے بیساکھیوں کی ضرورت ہوگی۔
بھارت کے انتخابات کے انعقاد سے پہلے وہ اس خوش فہمی اور زعم میں مبتلا تھے کہ وہ نہ صرف تیس مار خاں بلکہ چالیس مار خاں بن کر برسر اقتدار آئیں گے اور ان کی تانا شاہی کا دورکبھی ختم نہیں ہوگا۔ دراصل اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ان کے خوشامدیوں نے انھیں یہ باور کرا دیا تھا کہ مہاراج، راج سنگھاسن پر آپ ہی براجمان رہیں گے اور کسی مائی کے لال کی مجال نہیں کہ آپ کا بال بھی بیکا کرسکے۔
جیسے کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں مودی کی سب سے بڑی کمزوری ان کی نفسیات ہے۔ اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے مودی نے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ انھوں نے الیکشن کمیشن کو اپنا غلام بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ اس کے علاوہ انھوں نے سرکاری اداروں میں اپنی پسند اور مرضی کے افراد بھرتی کر کے اپنا سیاسی مورچہ مضبوط کرنے کے لیے ہر ممکنہ کوشش کی جس کی وجہ سے انھیں پورا یقین تھا کہ ان کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہیں ہوسکتا اور کوئی پرندہ پر نہیں مار سکتا۔
انھوں نے سب سے بڑا وار میڈیا پرکیا جہاں 24 گھنٹے ان کی تعریفوں کے پل باندھے جاتے تھے۔ سرکاری میڈیا تو ان کے پوری طرح کنٹرول میں تھا ہی لیکن پرائیویٹ میڈیا بھی ان کی شان میں قصیدہ خوانی کرتا رہتا تھا۔ بڑے بڑے نامی گرامی تجزیہ نگار ان کے اشاروں پر ناچتے تھے اور ان کی حیثیت درباری بھانڈوں سے بھی بڑھ کر تھی۔
بڑے بڑے سرمایہ دار اور صنعت کار مثلاً امبانی اور اڈانی کی حیثیت کٹھ پتلیوں جیسی تھی جو ان کے آگے پانی بھرتے تھے۔ اس طرح تمام کارپوریٹ سیکٹر ان کے اشارہ ابرو پرکام کرتا تھا۔ اتنے فول پروف انتظامات کر کے مودی قطعی مطمئین تھے کہ ان کے اقتدار پرکوئی آنچ نہیں آسکتی۔ مودی کا سب سے بڑا ہتھیار ہندو دھرم کے نام پر بھارت کی جنتا کو ورغلا کر ہندوتوا کے نام پر اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کے لیے استعمال کرنا تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنی اس چال میں وہ حسبِ توقع کامیاب رہے جس کا نظارہ تمام لوگوں نے تاریخی بابری مسجد کو شہید کرکے اس کی جگہ پر رام مندرکی تعمیر کی صورت میں دیکھا۔معلوم نہیں کہ مودی کے پاس وہ کونسی گیدڑ سنگھی ہے جسے سنگھا کر انھوں نے متحدہ عرب امارات کے سربراہوں کو اس حد تک رام کرلیا کہ ابوظہبی میں ایک عالیشان مندر کی تعمیر ہوئی ہے۔
مودی نے پہلے تو اپنے آپ کو رام کا ایک پجاری اور سیوک بتلایا اور پھر اس کے بعد گرگٹ کی طرح اپنا رنگ تبدیل کرکے رام کا اوتار بن گیا اور نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ وہ خود کو ایسی مخلوق بتلا رہا ہے جسے دنیا میں کوئی ایسا انوکھا کام کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے جو کوئی نہ کرسکتا ہے۔ مودی نے اپنے پیشرو یعنی جرمنی کے ڈکٹیٹر ہٹلر سے یہی سیکھا ہے کہ اتنا جھوٹ بولو کہ لوگ سن سن کر اسے سچ ماننے لگیں۔ دنیا جانتی ہے کہ ہٹلر کا انجام کیا ہوا لیکن مودی تو ہٹلر سے بھی آگے کی چیز ہے۔
اقتدار، اقتدار اور بہر صورت اقتدار سے چمٹے رہنا، اس کی خصلت ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ غیرت اور حمیت نام کی کوئی چیز اسے چھو کر بھی نہیں گزری ہے، اگر ایسا ہوتا تو اس نے درپیش حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے فوراً استعفیٰ دے دیا ہوتا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی بد روح اس کے اندر سمائی ہوئی ہے جس نے اسے اپنے غلیظ پنجوں میں دبوچ رکھا ہے۔عوام کو الو بنانا اس کی سیاست کا گر ہے۔ اس اعتبار سے اگر اسے چانکیہ اور میکاولی کا چیلا کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ بھلا کون سا حربہ ہوگا جسے برسر اقتدار آنے اور اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے اس نے نہ چھوڑا ہو۔
دنیا میں بھارت کی جمہوریت کی جو ساکھ تھی مودی نے اسے خاک میں ملادیا اور یہ ساکھ راکھ میں تبدیل ہوگئی ہے۔
The post بھارتی انتخابات اور مضمرات (آخری حصہ) appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/4Gzx5nI