پاکستان میں ہر سال نمونیا، خسرہ، ٹائیفائیڈ اور دیگر بیماریوں میں مبتلا ہوکر سیکڑوں بچے جان سے چلے جاتے ہیں۔ ان دنوں بھی سندھ اور پنجاب میں ٹائیفائیڈ اور خسرہ کی وبا پھیلی ہوئی ہے اور اسپتال ان امراض سے متاثرہ بچوں سے بھرے ہوئے ہیں۔
ماہرین طب کہتے ہیں کہ بچوں کے حفاظتی ٹیکوں ( ویکسین) کا کورس مکمل کروالیا جائے تو بچوں کی شرح اموات اور ان امراض کے پھیلاؤمیں نمایاں کمی لائی جاسکتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگائے جانے ( ویکسی نیشن) کی شرح تسلی بخش نہیں۔ اس کی بنیادی وجہ والدین میں بچوں کے حفاظتی ٹیکوں کی افادیت اور ان کی اہمیت سے متعلق کما حقہ آگاہی کا نہ ہونا ہے۔
پاکستان میں بچوں میں ویکسی نیشن کی شرح بڑھانے اور انہیں بیماریوں سے بچانے کے لیے سرکاری سطح پر چاروں صوبوں میں توسیعی پروگرام برائے حفاظتی ٹیکہ جات ( ای پی آئی)کام کررہے ہیں جن کے تحت بچوں کو مفت حفاظتی ٹیکے لگائے جاتے ہیں۔ بچوں کو بیماریوں سے بچانے کے سلسلے میں حفاظتی ٹیکوں کی کیا اہمیت ہے، اور سندھ میں بچوں میں ویکسی نیشن کی شرح بڑھانے کے لیے ای پی آئی پروگرام کس طرح کام کررہا ہے، اس بارے میں جاننے کے لیے ہم نے پروجیکٹ ڈائریکٹر ای پی آئی سندھ، ڈاکٹر محمد نعیم راجپوت سے گفتگو کی جس کی تفصیلات قارئین کی نذر ہیں:
٭ ویکسین کیا ہوتی ہے؟ بچوں کے لیے اس کی کیا اہمیت ہے اور ای پی آئی پروگرام میں کتنی بیماریوں کی ویکسین شامل ہے؟
ڈاکٹر محمد نعیم راجپوت نے بتایا کہ حفاظتی ٹیکے یعنی ویکسین بچوں کے لیے ایک زبردست قسم کی حفاظتی شیلڈ ہوتی ہے جو انہیں بیماریوں سے محفوظ رکھنے میں ایک محافظ کا کردار ادا کرتی ہے۔ توسیعی پروگرام برائے حفاظتی ٹیکہ جات ( ای پی آئی) میں بارہ مہلک بیماریوں سے بچاؤ کے لیے ویکسین لگائی جاتی ہیں جن میں ٹی بی، پولیو، نمونیا، ہیپاٹائٹس (کالا یرقان)، خناق، کالی کھانسی، تشنج، خسرہ اور روبیلا، ٹائیفائیڈ (باری کا بخار)، گردن توڑ بخار اور اسہال شامل ہیں۔ پندرہ ماہ کی عمر میں بچوں کے حفاظتی ٹیکوں کا کورس مکمل ہوجاتا ہے۔
ڈاکٹر نعیم راجپوت نے بتایا کہ محکمہ سندھ کا ایک اور پروگرام بھی چل رہا ہے جس کے تحت اسپتالوں میں ہمارے ویکسی نیشن کے مراکز چوبیس گھنٹے کام کررہے ہیں، جہاں بچہ پیدا ہوتے ہی اسے ہیپاٹائٹس کا ٹیکہ لگادیا جاتا ہے اور پولیو کے قطرے پلا دیے جاتے ہیں، اور اگر دستیاب ہو تو ٹی بی سے بچاؤ کی ویکسین (بی سی جی) بھی لگا دی جاتی ہے ورنہ بچے کو رجسٹرڈ کرنے کے بعد اسے بی سی جی کے ٹیکے کے لیے بلالیا جاتا ہے۔
٭ کیا ویکسین بیماریوں سے بچوں کو سو فیصد تحفظ فراہم کرتی ہے؟
اس سوال کے جواب میں پروجیکٹ ڈائریکٹر ای پی آئی سندھ نے بتایا کہ اگر شیڈول کے مطابق بچوں کے ٹیکوں کا کورس مکمل کروا لیا جائے تو وہ تقریباً ان بارہ بیماریوں سے محفوظ ہوجاتا ہے اور اگر خدانخواستہ اسے ان میں سے کوئی مرض لاحق بھی ہوجائے تو اس کی شدت وہ نہیں ہوتی جتنی کہ ان بچوں میں ہوتی ہے جنہیں حفاظتی ٹیکے نہ لگے ہوں اور وہ جلد صحت یاب ہوجاتا ہے۔
٭ ویکسین کے حوالے سے بعض والدین میں شکوک و شبہات بھی پائے جاتے ہیں، اس حوالے سے کیا کہیں گے؟
اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر نعیم راجپوت کا کہنا تھا کہ حکومت تو عوام کو بہت سی چیزیں بلامعاوضہ فراہم کررہی ہے۔ بنیادی صحت کے مراکز (بیسک ہیلتھ یونٹ) سے لے کر سول اسپتالوں تک حکومت علاج معالجے کی خدمات بلامعاوضہ فراہم کررہی ہے۔ اسی طرح ٹی بی، ایچ آئی وی اور ہیپاٹائٹس کا علاج مفت کررہی ہے تو ویکسی نیشن بھی پرائمری ہیلتھ کیئر ہی کا حصہ ہے۔ ویکسی نیشن کے اسی پروگرام کی بدولت پولیو کے کیسز بہت کم ہوگئے ہیں، اسی طرح چکن پوکس، خناق اور دیگر کئی بیماریوں کے کیسز بھی برائے نام رہ گئے ہیں۔
٭ ویکسین پاکستان میں بنتی ہے یا بیرون ممالک سے لائی جاتی ہے؟
ڈاکٹر نعیم راجپوت نے بتایا کہ حکومت ویکسین اور کولڈ چین ایکوئپمنٹ بیرون ممالک سے یونیسیف کے ذریعے خریدتی ہے۔ بیرون ملک سے لے کر پاکستان پہنچنے اور پھر بچے کو لگائے جانے تک ویکسین کے درجہ حرارت کا خاص خیال رکھا جاتا ہے اور کولڈ چین ایکوئپمنٹ کی مدد سے اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ درجۂ حرارت دو سے آٹھ ڈگری کے درمیان برقرار رہے تاکہ ویکسین کی افادیت متاثر نہ ہو۔ اس مقصد کے لیے حفاظتی ٹیکہ جات کے مرکز پر خاص قسم کے ریفریجریٹر ہوتے ہیں جنہیں آئس لائنڈ ریفریجریٹر (آئی ایل آر) کہا جاتا ہے جو ویکسین کا درجہ حرارت برقرار رکھتے ہیں۔
٭ سندھ میں بچوں کی ویکسی نیشن کی شرح کتنی ہے؟
اس ضمن میں پروجیکٹ ڈائریکٹر ای پی آئی نے بتایا کہ 2022 ء میں تھرڈ پارٹی کا ایک سروے آیا تھا جس میں سندھ میں بچوں کی ویکسی نیشن کی شرح 69 فیصد تھی، اور اب ایس ای آئی آر کے ذریعے ہمارے پاس جو اعدادوشمار ہیں ان کے مطابق یہ شرح 80 فیصد سے بڑھ گئی ہے۔
٭ بچوں تک ویکسین کی رسائی ممکن بنانے کے لیے ای پی آئی کس طرح کام کرتا ہے؟
اس بارے میں ڈاکٹر نعیم راجپوت نے بتایا کہ ای پی آئی کا پروگرام تین طریقے سے کام کرتا ہے؛ فکسڈ سائٹ، آؤٹ ریچ سائٹ اور موبائل یونٹ کے ذریعے۔ پورے صوبے میں ویکسی نیشن کے تین سے ساڑھے تین ہزار مراکز (فکسڈ سائٹ) ہیں جہاں بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ویکسینیٹر مہینے میں کم از کم بیس دن آبادی میں جاکر ویکسی نیشن کرتے ہیں، اس کے لیے وہ کسی کلینک، کمیونٹی سینٹر یا کسی ایسے مقام کا انتخاب کرتے ہیں جہاں مائیں اپنے بچوں کو بآسانی ویکسی نیشن کے لیے لے کر آسکیں۔ موبائل یونٹ میں ویکسینیٹر کے علاوہ ڈاکٹر اور ایل ایچ وی بھی ہوتی ہیں۔ موبائل یونٹ کے ذریعے دورافتادہ علاقوں میں جاکر بچوں کی ویکسی نیشن کی جاتی ہے اور پرائمری ہیلتھ کیئر کی سہولت بھی فراہم کی جاتی ہے۔ ان کے علاوہ کراچی کے جزائر پر بچوں کی ویکسی نیشن کے لیے عملہ کشتیوں کے ذریعے جاتا ہے۔
٭سندھ میں ویکسینیٹرز کی تعداد کتنی ہے اور کیا انہیں تربیت فراہم کی جاتی ہے؟
ڈاکٹر نعیم راجپوت کے مطابق اس وقت صوبے میں ساڑھے تین ہزار کے قریب ویکسینیٹر کام کررہے ہیں، اور جلد ہی اس تعداد میں اضافہ کیا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ ویکسینیٹرز کی باقاعدہ تربیت کی جاتی ہے تاکہ وہ بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے کی انتہائی اہم ذمے داری احسن طریقے سے سرانجام دے سکیں۔
٭ ویکسینیٹرز کی نگرانی اور ان کی کارکردگی پر نظر رکھنے کا کیا نظام ہے؟
پروجیکٹ ڈائریکٹر ای پی آئی نے بتایا کہ پورے صوبے میں ویکسینیٹر ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسران کے ماتحت ہوتے ہیں۔ ڈی ایچ او کے نیچے ایڈیشنل ڈی ایچ او پریونٹیو، پھر ای پی آئی کے ڈسٹرکٹ فوکل پرسن، پھر ڈسٹرکٹ اور ٹاؤن سپرنٹنڈنٹ ویکسی نیشن (ڈی ایس وی اور ٹی ایس وی) ہوتے ہیں۔ ان کے علاوہ وزارت صحت اور ای پی آئی کے نگران (مانیٹر) ہوتے ہیں، پھر ضلع کی سطح پر عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور یونیسیف کے مانیٹر ہیں۔ یہ تمام افراد ویکسینیٹر کے کام پر نظر رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر نعیم راجپوت نے بتایا کہ ویکسینیٹر صبح سینٹر پر پہنچنے کے بعد ’زندگی محفوظ‘ ایپ کے ذریعے حاضری لگاتے ہیں۔ صبح آٹھ سے نو بجے کے درمیان ہمیں پورے صوبے کے ویکسینیٹرز کی حاضری مل جاتی ہے۔ اسی ایپ کے ذریعے ویکسینیٹر یہ بھی دیکھتا ہے کہ کون سے بچے وقت پر ویکسی نیشن کے لیے نہیں آسکے ہیں تو پھر وہ اسی مناسبت سے اپنے ٹور پلان کی منصوبہ بندی کرتا ہے۔
٭ ای پی آئی میں بچوں کا ریکارڈ کس طرح رکھا جاتا ہے؟
اس ضمن میں ڈاکٹر نعیم راجپوت نے بتایا کہ ہمارا اپنا ایک رجسٹریشن سسٹم ہے جو سندھ الیکٹرانک امیونائزیشن رجسٹری (ایس ای آئی آر) کہلاتا ہے۔ ویکسینیٹر بچے کو ویکسین لگا کر کیو آر کوڈ ایشو کرنے کے بعد اس کا ڈیٹا ’زندگی محفوظ‘ ایپ میں محفوظ کرتا ہے۔ اس کے بعد بچے کا ڈیٹا ایس ای آئی آر میں منتقل ہوجاتا ہے جس کے ذریعے ڈیٹا میں درج فون نمبر پر فوراً میسیج چلا جاتا ہے کہ بچے کو ویکسین لگائی جاچکی ہے۔ پھر اگلے ٹیکے کا وقت ہونے پر بھی والدین کے نمبر پر یاددہانی کے لیے میسیج چلاجاتا ہے۔ جس نمبر سے میسیج آتا ہے والدین کسی شکایت کی صورت میں اسی نمبر پر اپنی شکایت بھی درج کرواسکتے ہیں۔ اور پورے پاکستان کے لیے ہیلپ لائن 1166 ہے جس پر شکایت کے علاوہ والدین اپنے سوالوں کے جواب حاصل کرسکتے اور تجاویز بھی دے سکتے ہیں۔
ڈاکٹر نعیم راجپوت نے بتایا کہ سندھ پہلا صوبہ ہے جہاں یہ الیکٹرانک امیونائزیشن رجسٹری کا نظام نافذ کیا گیا ہے اور اب دوسرے صوبے اس کی نقل کررہے ہیں۔
٭ ای پی آئی کے تحت ویکسی نیشن کی مہم بھی چلائی جاتی ہے؟
اس سلسلے میں ٹائیفائیڈ کا تذکرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر نعیم راجپوت نے کہا کہ ای پی آئی کے تحت گذشتہ ماہ کراچی کے سات اضلاع اور حیدرآباد کے ایک ضلع میں ٹائیفائیڈ کی پندرہ روزہ مہم چلائی گئی تھی جس کے دوران چھے ماہ سے لے کر پندرہ سال تک کے بچوں کو ٹائیفائیڈ سے بچاؤ کے ٹیکے لگائے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ ٹائیفائیڈ کی یہ قسم اینٹی بایوٹکس کے خلاف مزاحم ہے، اس کی وجہ اینٹی بایوٹکس کا بے دریغ استعمال ہے۔ جیسے کہ کووڈ کے زمانے میں ایزومیکس کا استعمال کیا جارہا تھا۔ یہ دوا کووڈ کے لیے تو ٹھیک تھی مگر عام نزلہ زکام میں بھی اس کا بے جا استعمال دیکھنے میں آیا جس کی وجہ سے ٹائیفائیڈ کے بیکٹیریا میں اس کے خلاف مزاحمت پیدا ہوگئی، تو اینٹی بایوٹکس کا غیرضروری استعمال بھی ٹائیفائیڈ کو بڑھاوا دیتا ہے۔
کیا ای پی آئی میں مزید کسی بیماری سے بچائو کا ٹیکہ شامل کیا جائے گا؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر نعیم راجپوت نے بتایا کہ رواں سال ایچ پی وی ( ہیومن پیپی لوما وائرس) ویکسین حفاظتی ٹیکوں کے پروگرام میں شامل کی جارہی ہے۔ ایچ پی وی ویکسین خواتین کے لیے ہے اور انہیں سروائیکل کینسر سے تحفظ فراہم کرے گی۔ اس سے پہلے خواتین کے لیے ٹی ڈی کی ویکسین موجود ہے جو انہیں اور ان کے ہونے والے بچے کو تشنج اور خناق سے تحفظ دیتی ہے۔
پرائیویٹ اسپتالوں میں ویکسی نیشن بہتر ہوتی ہے یا سرکاری مراکز پر؟
ڈاکٹر نعیم راجپوت کا کہنا تھا کہ تمام نجی اسپتالوں میں جہاں ویکسی نیشن ہوتی ہے، انہیں بھی حکومت ہی ویکسین مہیا کرتی ہے، یعنی پرائیویٹ اور سرکاری مراکز میں ویکسین وہی ہوتی ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ پرائیویٹ اسپتالوں میں ویکسی نیشن کے مراکز یا کمرے سجے ہوئے ہوتے ہیں جودیدہ زیب معلوم ہوتے ہیں، اور یہ اسپتال اپنی خدمات کا معاوضہ (سروس چارجز) لیتے ہیں۔ ڈاکٹر نعیم راجپوت نے بتایا کہ اب ہم کوشش کررہے ہیں کہ ہمارے ویکسی نیشن سینٹر بھی خوب صورت ہوں تاکہ والدین وہاں بلاجھجک آئیں، اس ضمن میں ہم حفاظتی ٹیکہ جات کے ڈیڑھ سو سے زائد مراکز کی تزئین و آرائش کرچکے ہیں، اور ہم نے ویکسینیٹرز کو ویکسی نیشن کے دوران پہنننے کے لیے ڈریس کوڈ بھی فراہم کیے ہیں۔
پیناڈول ڈراپس کی منظوری
ڈاکٹر نعیم راجپوت نے بتایا کہ عام طور پر بچوں کو پینٹا لگنے کے بعد بخار آجاتا ہے۔ اس تناظر میں کچھ یونین کونسلوں میں آزمائشی طور پر پیناڈول ڈراپس دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔ اس اقدام کے بڑے اچھے نتائج برآمد ہوئے اور دیکھا گیا کہ اس کی وجہ سے والدین میں بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگوانے میں ہچکچاہٹ ختم ہورہی ہے۔ اس کے پیش نظر وزیرصحت نے پیناڈول ڈراپس خریدنے کی اجازت دے دی ہے جو پورے صوبے میں ویکسینیٹرز کو فراہم کیے جائیں گے۔ ویکسینیٹر ٹیکہ لگانے کے بعد یہ ڈراپس بچے کے ساتھ آنے والی ماں یا والد کے حوالے کردیں گے۔
٭ والدین کے لیے کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
پروجیکٹ ڈائریکٹر ای پی آئی نے والدین سے مخاطب ہوتے ہوئے کہاکہ بچوں کو حفاظتی ٹیکوں کا کورس مکمل کرائیں، تاکہ بچے ان بارہ مہلک بیماریوں سے محفوظ رہیں، بچے محفوظ رہیں گے تو ہمارا مستقبل محفوظ رہے گا، اور ہمارا معاشرہ صحت مند انداز میں پروان چڑھے گا۔
The post حفاظتی ٹیکے بچوں کے محافظ کا کردار ادا کرتے ہیں، پروجیکٹ ڈائریکٹر ای پی آئی appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/jaHNChi