اکیسویں صدی کی پراکسی جنگیں

یہ نبی کریم ﷺ کے دور کی بات ہے۔تب نجد میں قبیلہ غطفان کے ذیلی قبائل وادی الرمہ میں آباد تھے۔

بنو عبس، بنوکلب، بنو عوف، بنو سلیم، بنو عدی وغیرہ اہم غفطانی ذیلی قبیلے تھے۔جب ہجرت نبویﷺ کے بعد قریش اور مسلمانان ِ مدینہ کا ٹکراؤ شروع ہوا تو قریش نے قبیلہ غفطان کو ابھارا کہ وہ مسلمانوں پہ حملے کرنے لگیں۔قریش عرب کا سب سے بڑا قبیلہ تھا ، اسی لیے غفطانی اس کے ساتھی بن گئے۔غفطانیوں نے پھر قریش کے دباؤ پہ مسلمانوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔اسی قسم کی جنگ کو دور جدید میں ’’پراکسی وار‘‘(Proxy war)یا ’’پرائی جنگ‘‘ کہا جاتا ہے۔

پہلی پراکسی جنگ

پراکسی جنگ میں چھوٹے ممالک یا گروہ بڑے ممالک کے اتحادی بن جاتے ہیں۔وہ پھر بڑی قوتوں کی ایما پہ ان کے دشمنوں سے جنگ کرتے ہیں۔تاریخ کی رو سے پہلی پراکسی لڑائی 415 تا 413 قبل مسیح میں اٹلی کے جزیرے، سسلی میں لڑی گئی۔تب یونان دس شہری ریاستوں میں تقسیم تھا۔ان میں ایتھنز، سپارٹا اور کورنیتھ سب سے بڑی تھیں۔یہ تینوں علاقے میں اپنا دائرہ اثر بڑھانے کے لیے ایک دوسرے سے نبرد آزما رہتی تھیں۔

یہی وجہ ہے ، جب سسلی میں دوچھوٹی شہری ریاستوں، سیگیسٹا اور سرقوسہ کے درمیان لڑائی شروع ہوئی تو ایتھنز سیگیسٹا اور سپارٹا اور کورنیتھ سرقوسہ کی حامی بن گئیں۔

ان قوتوں کی مالی و عسکری امداد نے دونوں سسلین ریاستوں کی لڑائی کو بڑھاوا دیا۔آخر ایتھنز کی مدد سے سیگیسٹا نے اپنے معاصر پہ دھاوا بول دیا۔سپارٹا اور کورنیتھ نے سرقوسہ کو دفاع کرنے کے لیے امداد فراہم کی۔یوں یہ جنگ پراکسی وار میں تبدیل ہو گئی۔اس جنگ میں سپارٹا اور کورنیتھ کے اتحاد کو فتح ملی۔ایتھنز سب سے بڑی طاقت ہونے کے باوجود یہ پراکسی جنگ ہار گیا۔

مغربی طاقتیں موجد ہیں

پراکسی جنگ گویا زمانہ قدیم سے انسانی معاشروں میں چلی آ رہی ہے۔ انیسویں صدی میں تو یہ عجوبہ خوب پھلا پھولا جب یورپی طاقتیں ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکا میں نوآبادیات قائم کرنے لگیں۔برطانیہ ، اسپین، ہالینڈ، امریکا، بلجیم پرتگال نے کئی علاقوں میں چھوٹے ممالک یا گروہوں کو ساتھ ملا کر پراکسی جنگیں لڑیں اور اپنے مفادات پورے کیے۔معنی یہ کہ پراکسی جنگ کا موجد یورپی طاقتوں کو قرار دینا چاہیے۔یہی وجہ ہے، مغربی طاقتیں آج بھی دنیا کے مختلف خطوں میں پراکسی جنگیں لڑ رہی ہیں تاکہ اپنے عموماً بد عزائم کی تکمیل کر سکیں۔

پاکستان کی بدقسمتی

پاکستان ہی کو لیجیے جو اپنے قیام کے زمانے سے پراکسی جنگوں کا شکار چلا آ رہا ہے۔پاکستان قائم ہوتے ہی بھارت اور افغانستان نے ’پختونستان‘ کا شوشہ چھوڑ دیا۔اس نعرے کی آڑ میں پختون گروہوں کو اشتعال دلا کر انھیں ریاست پاکستان سے لڑنے پہ آمادہ کیا گیا۔نیز انھیں ہر ممکن مالی و عسکری امداد دی گئی۔اسی طرح بلوچستان میں ’گریٹر بلوچستان‘ کا نعرہ بلند کیا گیا۔

سندھ میں بھی پاکستان دشمن قوتیں علیحدگی پسند تنظیموں کو وسائل مہیا کرتی رہیں۔ پاکستان کی سیکورٹی فورسز نے کمال مہارت سے ان پراکسی جنگوں کا مقابلہ کیا اور دشمنوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔البتہ پراکسی جنگوں کا شکار ہو کر پاکستان ویسی معاشی ترقی نہیں کر سکا جو اسے بھرپور وسائل رکھنے کے باعث کرنا چاہیے تھی۔اس نقصان کو شدید اور سنگین کہنا چاہیے کیونکہ اسی لیے پاکستان میں غربت ، مہنگائی، بیماری اور بے روزگاری جیسے عفریت پھل پھول گئے اور اب یہ عوام کو پریشان کر رہے ہیں۔

آج بھی افغانستان، ایران اور بھارت میں چھپے بیٹھے گروہ پاکستان دشمن کارروائیاں کر تے ہیں۔ماضی میں بھارتی اور افغان حکومتیں ان گروہوں کو مالی وعسکری وسائل دیتے رہے ہیں۔یوں انھوں نے پاکستان کے خلاف پراکسی جنگ چھیڑ دی۔اب افغانستان میں طالبان کی حکومت ہے جو پاکستان کے ساتھی تصوّر ہوتے ہیں۔

تاہم وہ اپنے دیس میں سرگرم پاکستان دشمن تنظیموں کے خلاف موثر کارروائی نہیں کر سکے جنھیں بھارت کی ہر ممکن مدد حاصل ہے۔اسی لیے وہ وقتاً فوقتاً ریاست پاکستان اور عوام کے خلاف دہشت گردانہ حملے کرتے رہتے ہیں۔ایرانی حکومت بھی اپنی سرزمین میں محو حرکت پاکستان دشمن گروہوں کے خلاف سخت کارروائی نہیں کرتی۔یہی وجہ ہے، کلبھوشن یادو اپنی پاکستان مخالفانہ سرگرمیوں میں منہمک رہا اور ایرانی خفیہ ایجنسیاں خواب غفلت کا شکار رہیں۔

پاکستانی ایٹمی منصوبہ

مغرب کی قوتوں کو پاکستان کا ایٹمی منصوبہ ایک آنکھ نہیں بھاتا۔پاکستان ایٹمی ہتھیار رکھنے والا واحد مسلمان ملک ہے۔اس لیے مغربی طاقتیں بھی کسی نہ کسی طرح پاکستان کے خلاف پراکسی جنگوں میں ملوث ہو سکتی ہیں۔ان کا بنیادی ہدف یہ ہے کہ پاکستان کسی طرح معاشی طور پہ مستحکم و طاقتور نہ ہونے پائے اور ان کے مالیاتی اداروں یعنی آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے قرضوں کا محتاج رہے۔اس طرح معاشی لحاظ سے کمزور پاکستان کبھی مغربی طاقتوں کو چیلنج نہیں کر سکتا جو دنیا میں اپنی معیشت ، معاشرت اور تہذیب وثقافت کا غلبہ چاہتی ہیں۔

اس غلبے کو روس اور چین چیلنج کر رہے ہیں۔اسی لیے مغربی قوتیں خصوصاً امریکا و برطانیہ ان کے خلاف ہو چکیں۔چونکہ دیگر مغربی قوتیں مثلاً جرمنی، فرانس، کینیڈا، آسٹریلیا وغیرہ ان سے قریبی معاشی و معاشرتی تعلقات رکھتی ہیں لہذا وہ بھی مجبوراً ان کی حمایت کرتی ہیں۔روس اور چین کی کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ ممالک کو اپنے گروپ میں لایا جائے۔

تاہم فی الوقت وسطی ایشیائی ممالک، ایران، شمالی کوریا اور شام ہی ان سے آن ملے ہیں۔بعض ممالک مثلاً ترکی اور پاکستان واضح طور پہ کسی فریق کے حمایتی نہیں۔اس بات پہ مغربی ملک خاصے خار کھاتے ہیں۔انھیں ترکی اور پاکستان کی آزادروی پسند نہیں۔اس باعث وہ دونوں ملکوں کے خلاف جاری پراکسی جنگوں میں کسی نہ کسی طور ملوث ہو سکتے ہیں۔

مادرپدر آزاد عالمی طاقتیں

دور جدید میں یہ کلیہ بن چکا کہ عالمی طاقتیں اپنے مقاصد اور مفادات پانے کے لیے چھوٹے ملکوں اور تنظیموں کا سہارا لیتی ہیں۔یہ عمل انجام دیتے ہوئے اکثر اخلاقیات، قانون و اصول اور اپنے نظریات بھی پس پشت رکھ دئیے جاتے ہیں۔چونکہ عالمی طاقتوں کی حکومتوں پہ مخصوص ٹولے یا اشرافیہ نے قبضہ کر لیا ہے، لہذا یہ ٹولے اپنا اقتدار، شان وشوکت اور آسائشیں بحال رکھنے کی خاطر کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ان کی ناجائز اور مادہ پرستانہ خواہشات اورتمناؤں نے کرہ ارض کو بارود، آگ اور خون کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔

اس دعوی کا ثبوت غزہ پر اسرائیل کا جاری حملہ ہے جہاں ہزارہا معصوم بچوں کو شہید کیا جا چکا ۔کہا جاتا ہے کہ اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ کو اسرائیلی علاقوں میں حماس کے حملے کی خبر مل چکی تھی۔مگر اس نے یہ حملہ انجام ہونے دیا۔وجہ یہ ہے کہ غزہ کے ساحل پہ تیل وگیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔امریکا، اسرائیل اور ان کے اتحادی ان ذخائر سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں۔مگر پہلے یہ ضروری تھا کہ غزہ پر اسرائیل کا قبضہ ہو جائے۔

اسی لیے اسرائیل نے غزہ میں امریکا و یورپی طاقتوں کے لیے پراکسی جنگ شروع کر دی۔اس کا مقصد غزہ پہ سو فیصد کنٹرول حاصل کرنا ہے۔پچاس سے زائد اسلامی ممالک کی حکومتیں زبانی کلامی اسرائیل کی مذمت کرنے کے علاوہ اس کے خلاف ایک بھی ٹھوس قدم نہیں اٹھا سکیں۔کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ غزہ میں اسرائیلی اکلوتی سپر پاور کی پراکسی جنگ لڑ رہے ہیں۔بعض ماہرین کا تو دعوی ہے کہ کچھ عرب ممالک بھی اس پراکسی جنگ کا حصہ ہیں۔

مغربی قوتوں کا خاص نشانہ اسلامی ممالک ہیں جہاں وہ مختلف حیلے بہانوں، سازشوں اور خفیہ طریقوں سے پراکسی جنگیں شروع کرتی اور لڑتی ہیں۔مقصد یہی ہے کہ عالم اسلام ماضی کی طرح عالمی قوت نہ بننے پائے۔وہ ہر معاملے میں مغرب کا محتاج رہے۔اسی لیے مغربی طاقتیں یہ ہر ممکن کوششیں کرتی ہیں کہ ہر اسلامی ملک میں ان کی حمایتی و مددگار ٹولے اقتدار میں آئیں، ایسے گروہ جو ان کے مفادات کو زک نہ پہنچائیں اور انھیں پورے کرتے رہیں۔یہ ٹولہ کرپشن سے چاہے ملک کو جتنا مرضی لوٹ لے اور نقصان پہنچا دے، اس سے کوئی بازپرس نہیں ہوتی کیونکہ وہ مغربی قوتوں کی تابعداری بلکہ غلامی بخوبی انجام دیتا ہے۔

The post اکیسویں صدی کی پراکسی جنگیں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/FvLql9Y
Previous Post Next Post

Contact Form