آج بھی لکھنے کا ارادہ نہیں تھا لیکن بقول غالب
دل پھر طواف کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم خانہ ویران کیے ہوئے
لہٰذا سوچا ، اس سے قبل کہ قلم کی سیاہی سوکھ جائے، اسے استعمال کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ کالم کا محرک ایک خبر بنی ، جس میں کسی کہنہ مشق اور پیشہ ور مخبر نے اپنی گہری تحقیق کے بعد انکشاف کیا ہے کہ افغانستان کی کرنسی جنوبی ایشیا کی مضبوط ترین کرنسی ہے۔’’مخبر‘‘ نے اس کرنسی کا نام ’’ افغانی‘‘ بتایا ہے اور لکھ کر دیا ہے کہ ستر افغانی کے بدلے میں ایک ڈالر مل جاتا ہے۔ سنا ہے کہ اطلاع دہندہ حساب کتاب کا ماہر ہے اور اس کی اطلاع اور حساب کبھی غلط نہیں ہوتے، اس لیے یقین کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ میں نے ڈھلمل حساب لگایا،جس کے مطابق ایک ’’افغانی‘‘ پاکستانی چار روپے میں ملنا چاہیے۔
میں کابل دیکھنے کا خواب طالب علمی کے زمانے سے دیکھتا چلا آ رہا ہوں۔ طالب علمی کے زمانے میں لاہور کے نگار خانوں کی چکا چوند نے دل موہ لیا تھا، لڑکپن میں ایک بار ان شبستانوں کا چکر لگایا، پھر چھٹتی نہیں ہے ، منہ سے یہ کافر لگی ہوئی والا معاملہ ہوگیا، لاہور میں ٹرانسپورٹ کمپنی کی سرخ رنگ والی بسیں چلا کرتی تھیں۔
طلباء و طالبات کو رعائتی ٹکٹ ملتا تھا، بھٹو دور تک طلبہ سرکاری بسوں میں مفت سفر کیا کرتے تھے لیکن ضیاء الحق کے دور میں طلبہ سے کرایہ لیا جانے لگا لیکن اس میں اسی فیصد تک رعایت تھی، میں اسلامیہ کالج ریلوے روڈ سے پیدل ریلوے اسٹیشن آتا اور وہاں سے اومنی بس پر سوار ہوکر شاہ نور اسٹوڈیو اسٹاپ پر اتر جاتا، یہ روز مرہ کا معمول بن گیا، کبھی شاہ نور اسٹوڈیوز، کبھی باری اور کبھی ایورنیو اسٹوڈیوز میں محفل یاراں برپا ہوتی تھی ، تقرییاً دو دہائیوں تک یہی معمول رہا، انھی محفلوں میں کابل شہر کی رنگینیوں کی داستانیں سنیں، یہ وہ زمانہ تھا، جب ہندوستانی فلموں کی نمائش پر پابندی تھی لیکن کابل میں انڈین فلمیں سینماؤں میں چلا کرتی تھیں، نئی فلم ممبی، کلکتہ ، دہلی اور کابل میں بیک وقت ریلیز ہوتی تھی۔
پاکستانی فلم انڈسٹری میں چربہ سازی ہندوستانی فلموں پر پابندی کے نتیجے میں شروع ہوئی، لاہور فلم انڈسڑی کے، پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز کہانی نویسوں کو ساتھ لے کر کابل جاتے ، وہاں بھارتی فلمیں دیکھتے اور پاکستان آکر چربہ فلم بنایا کرتے تھے ۔ محفل دوستاں میں کابل کا طلسم چھایا رہتا، ایک فلمی کہانی نویس نے تجسس کی آگ پر پیٹرول یوں چھڑکا،’’ اگر فارسی بولنے والی گوریاں دیکھنی ہوں تو کابل جاؤ‘‘۔ اس وقت سے کابل دیکھنے کو دل مچل رہا ہے ۔افغانستان میں جنگ وجدل کی وجہ سے میرا یہ خواب تعبیر کا روپ نہ دھار سکا۔ اﷲ بھلا کرے ، اس مخبر کا جس کے انکشاف نے دل ’’افغانی افغانی‘‘ کردیا اور کابل جانے کی مردہ خواہش میں زندگی کی رمق پیدا کردی ۔
میں نے اپنے ایک دوست کو یہ خوش خبری سنائی کہ افغانستان خاصا امیر ملک بن گیا ہے،اس کی کرنسی پاکستانی روپے سے زیادہ طاقتور ہوگئی ہے، ایک افغانی ہمارے چار روپے کے برابر ہے جب کہ ڈالر ستر افغانی کا ہے۔ جنوبی ایشیا کے کسی ملک میں ڈالر اتنا سستا نہیں ہے ۔ میرا یہ دوست بال کی کھال اتارنے کا ماہر ہے، میں اس کے ہونٹوں پر استہزئیہ مسکراہٹ دیکھ رہا تھا ، جسے دیکھ کر مجھے غصہ آگیا اور بولا، یار تم اسے مذاق سمجھ رہے ہو؟ یہ مصدقہ اطلاع ہے اور سکہ بند مخبر نے دی ہے۔ اس سے پہلے کہ میں مزید کچھ کہتا، میرا دوست بولا، جناب ! افغانستان کی معیشت اتنی مضبوط ہے۔
اس کی کرنسی طاقتور ہے، وہاں امن و امان ہے، کاروبار پھل پھول رہے ہیں، تو پاکستان میں قیام پذیر افغانستان کے باشندے اپنے وطن واپس کیوں نہیں جاتے؟ افغان شہری اپنے ملک کی تعمیر وترقی میں حصہ لینے پر کیوں تیار نہیں ہیں؟ افغانستان کی عبوری حکومت اپنے شہریوں کو واپس آنے کی اپیل کیوں نہیں کرتی؟کرنسی مارکیٹ میں جاکر افغانی کے بدلے ڈالر خرید کر دکھاؤ؟ مشاہدہ کرو ، پاکستان کی کرنسی مارکیٹ میں افغانستان کی کرنسی کی خرید و فروخت ہو رہی ہے ؟ اگر ہو رہی ہے تو اس خرید وفرخت کا حجم کتنا ہے؟ افغانستان کے امپورٹرز ایل سی کھلوانے کے لیے ڈالر کہاں سے خریدتے ہیں؟ کون سے ملک افغان کرنسی کو اپنی کرنسی سے تبدیل کرتے ہیں؟ افغانستان سے اسمگل ہوکر جو مال پاکستان میں آتا ہے ، کیا پاکستانی اسمگلر افغانستان کی کرنسی میں ادائیگی کرتے ہیں؟
میرے دوست کی پے در پے سوالات نما باتوں نے مجھے چکرا کر رکھ دیا، میں ٹھہرا سادہ لوح پاکستانی، میری جانے بلا کہ افغانستان کے مہاجرین اپنے وطن واپس کیوں نہیں جاتے ؟ ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے وطن کی ترقی میں حصہ نہ لینا چاہتے ہوں یا ان کا افغانستان میں دل نہ لگتا ہو،کرنسیوں کی شرح تبادلہ ، امپورٹ ایکسپورٹ اور ایل سی کھولنا جیسی کاروباری اصطلاحیں اپنے پلے نہیں پڑتیں۔
افغانستان میں خوشحالی، معاشی استحکام اور امن و امان جیسی خوشنما اور دل پذیر باتیں چاہے سچ ہیں یا جھوٹ ہیں، مجھے ایسی باتیں سن کراور خبریں پڑھ کر دلی خوشی ہوتی ہے ، جب کوئی یہ بتاتا ہے کہ افغانستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کی تیاریاں جاری ہیں، چوری ، ڈکیتی، رہزنی، اغوا برائے تاوان، قتل اور جنسی زیادتی جیسے جرائم ختم ہوگئے ہیں، شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پینے آتے ہیں، تو ذہن کو سکون ملتا ہے۔
میں تو چاہتا ہوں ، افغان مہاجرین وطن واپس نہیں جانا چاہتے تو انھیں تنگ نہ کریں، وہ خوش رہیں، ہماری خیر ہے بلکہ ان کی جگہ پاکستان کے تعلیم یافتہ اور ہنر مند بے روزگاروںکو افغانستان بھیج دیں، اگر یہ بے روزگار پاکستانی وہاں نہ جانا چاہیں تو انھیں زبردستی افغانستان بھیج دیا جائے، بلکہ پڑھے لکھے اور سوشل میڈیا ایکسپرٹس کو تو رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات امارات اسلامیہ افغانستان کے سپرد کرنی چاہیے تاکہ وہ جدید افغانستان کی تعمیر نو میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکیں۔
ویسے بھی تو ہزاروں پاکستانی باشندے ایران،ترکی اور دیگر ملک کی جیلوں اور نجی اذیت گاہوں میں مر رہے ہیں، ایسی ذلت و رسوائی سے بہتر ہے کہ افغانستان میں جاکر کام کریں، اپنے مسلمان بھائیوں کی میزبانی کا لطف اٹھائیں اور لاکھوں افغانی کمائیں اور ان کے بدلے میں کروڑوں روپے پاکستان میں اپنے بہن بھائیوں کو بھیجیں تاکہ وہ خوشحال زندگی گزار سکیں۔
ویسے بھی پاکستان کسی چیز میں خودکفیل ہو نہ ہو لیکن ’’دانشوروں‘‘ میں خود کفیل ہے، ہر بالغ پاکستانی کا دماغ دانش و حکمت سے بھرا پڑا ہے، صحافی بھائیوں کی بات کرنا ’’ سورج کو چاند دکھانے جیسا ہے، ان کا تو اوڑھنا بچھونا ہی دانش اور بس دانش ہے، وہ کھاتے بھی دانش ہیں ، پیتے بھی دانش ہیں اور دانش کے بستر پر محواستراحت ہوتے ہیں، خبر نکالنا،خبر بنانا، خبر پھیلانا، خبر چلانا،کوئی ان سے سیکھے۔ایسے ہی خبریوں نے خبر دی ہے، افغانستان عنقریب دنیا کی واحد سپر پاور بننے والا ہے، بس تھوڑا صبر کیجیے۔
The post چلو افغانستان چلو appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/gLyGP2s