نئی حکومت کے لیے سرگرمیاں شروع

عام انتخابات کے نتائج تقریباً مکمل ہو چکے ہیں۔ میڈیا میں جو غیرحتمی نتائج سامنے آئے ہیں‘ ان کے مطابق مسلم لیگ ن73نشستیں حاصل کر کے قومی اسمبلی میں سنگل لارجسٹ جماعت بن کر سامنے آئی ہے۔ پیپلز پارٹی دوسری پوزیشن پر ہے۔اس کی نشستوں کی تعداد 54ہے۔

قومی اسمبلی میں آزاد امیدواروں کی تعداد 100ہے۔ اس میں اکثریت پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ہیں۔موجودہ الیکشن میں سب سے نمایاں چیز یہی سامنے آئی ہے کہ اس بار آزاد امیدوار سب سے زیادہ کامیاب ہوئے ہیں۔پاکستان میں جتنے بھی عام انتخابات ہوئے ہیں‘اتنی بڑی تعداد میں آزاد امیدوار کامیاب نہیں ہوئے۔

موجودہ انتخابات میں ایم کیو ایم پاکستان نے بھی اپنی پوزیشن بہتر کی ہے۔ ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کی 17نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے ‘یوں عددی اعتبار سے ایم کیو ایم قومی اسمبلی میں تیسری سب سے بڑی پارٹی ہے۔

مسلم لیگ ن کے قائد نے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ جس جماعت کی اکثریت ہو گی‘ وہ حکومت بنا لے گی۔ پیپلز پارٹی نے بھی نتائج کو تسلیم کیا ہے‘ ایم کیو ایم نے بھی نتائج تسلیم کیے ہیں اور باقی جماعتوں نے بھی الیکشن نتائج کو تسلیم کر لیا ہے۔ البتہ پی ٹی آئی بطور جماعت نتائج پر اپنے تحفظات کا اظہار کر رہی ہے جب کہ تاحال آزاد جیتنے والے امیدواروں کے کسی گروپ نے متحد ہو کر انتخابی نتائج کو متنازعہ قرار نہیں دیا ہے۔

صوبائی الیکشن کے نتائج کی بات کی جائے تو وہ بھی تقریباً مکمل ہو چکے ہیں‘ میڈیا کی رپورٹ کے مطابق پنجاب میں مسلم لیگ ن 137نشستیں حاصل کر کے پنجاب اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت بن گئی ہے۔ پنجاب میں بھی آزاد امیدوار بھاری تعداد میں کامیاب ہوئے ہیں اور ان کا فگر بھی 137ہی ہے۔ آزاد امیدواروں میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ارکان بھی شامل ہیں۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی نے 10صوبائی سیٹیں حاصل کی ہیں۔

سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کو واضح اکثریت حاصل ہوئی ہے اور اس کی نشستوں کی تعداد 83ہے۔ ایم کیو ایم سندھ اسمبلی میں دوسری سب سے بڑی جماعت ہے جس کے ارکان کی تعداد 28ہے جب کہ 10آزاد امیدوار بھی کامیاب ہو کر اسمبلی میں پہنچے ہیں۔ بلوچستان اسمبلی کے انتخابی نتائج کے مطابق کوئی ایک جماعت بھاری اکثریت حاصل نہیں کر سکی‘ یہاں ملا جلارزلٹ دیکھنے میں آیا ہے۔ب

لوچستان میں پیپلز پارٹی نے 11نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے‘مسلم لیگ ن نے9نشستیں جیتیں ہیں۔یہاں 6آزاد امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔خیبرپختونخوا اسمبلی میںآزاد ارکان کی تعداد 90ہے۔مسلم لیگ ن کی پانچ نشستیں ہیں جب کہ جے یو آئی فضل الرحمن گروپ کی 7 نشستیں ہیں۔

حکومت سازی کے لیے سیاسی سرگرمیاں شروع ہو چکی ہیں‘ مسلم لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف نے حکومت سازی کے لیے دیگر سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کی دعوت دے دی ہے۔الیکشن نتائج آنے کے بعدانھوں نے لاہور میں خطاب کیا، انھوں نے میاں شہباز شریف کو پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کے ساتھ حکومت سازی کے لیے مذاکرات کی ذمے داری سونپ دی ہے اور ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔

امید یہی کی جانی چاہیے تھی کہ وفاق اور صوبوں میں حکومت سازی کا عمل جلد مکمل ہو جائے گا،نئی اسمبلی کے سامنے بہت سے کام موجود ہیں‘ سب سے پہلے قومی اسمبلی کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے لیے الیکشن ہو گا۔ اس مرحلے کے بعد وزیراعظم منتخب کیا جائے گا ‘ نئے صدر کا انتخاب بھی پارلیمنٹ نے کرنا ہے کیونکہ موجودہ صدر کی مدت صدارت 9ستمبر کو ختم ہو چکی ہے۔ اس وقت وہ علامتی صدر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

چیئرمین سینٹ،ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اورسینیٹرزکے انتخاب کامرحلہ بھی آئے گا۔حالات کا تقاضا یہ ہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس فوری ہونا چاہیے تاکہ حکومت سازی کا عمل جلد مکمل ہو جائے تاکہ اہم فیصلے کیے جا سکیں ‘آزاد ارکان کو بھی چاہیے کہ وہ پارلیمانی جمہوری روایات کے مطابق اپنا مثبت کردار ادا کریں اور آئینی حدود و قیود کے اندر رہ کر کام کرے۔ جمہوری عمل کو کسی بھی صورت میں متنازعہ بنانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔

جو بھی سیاسی جماعت جمہوریت پر یقین رکھتی ہے ‘ وہ کبھی غیر جمہوری طرز عمل اختیار نہیں کرتی۔ الیکشن میں کہیں کوئی خرابی ہوئی ہے تو اس کے لیے قانون کے راستے موجود ہیں‘ اعتراضات کی صورت میں الیکشن ٹربیونل اور ملکی عدالتی کام کر رہی ہیں‘ جمہوریت کا تقاضا یہی ہے کہ جن امیدواروں یا جس جماعت کو الیکشن کے نتائج پر تحفظات ہیں وہ اپنے تحفظات قانون کے مطابق متعلقہ فورم کے سامنے پیش کرے۔ میڈیا کے سامنے بلاوجہ کی گفتگو کرنا درست طرز عمل نہیں ہے۔

نئی پارلیمنٹ اور حکومت کے لیے حالات خاصے کٹھن ہیں۔معاشی معاملات کی سنگینی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ دہشت گردی کے خطرات کا مقابلہ بھی کرنا ہے۔ پاکستان کے اندر سرگرم عمل ایسا طبقہ جو کئی چہروں کے ساتھ کام کر رہا ہے‘ اس کی گرفت کرنا بھی بہت ضروری ہے۔

جمہوریت کا نقاب اوڑھے ہوئے غیر جمہوری اور فسطائیت کے پیروکاروں کو بھی قانون کی گرفت میں لانا ضروری ہے تاکہ ملک میں جمہوری عمل خوش اسلوبی سے آگے بڑھے۔ نئی حکومت کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے ملکی معیشت اور کاروبار کی بحالی کے لیے اقدامات اٹھائے ۔نئی حکومت کو مئی جون میں بجٹ پیش کرنا ہے جو نئی حکومت کے لیے پہلا چیلنج ہو گا۔

آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات بھی طے ہونے ہیں‘ حکومت کی معاشی حکمت عملی کا پہلا امتحان آئی ایم ایف کے ساتھمعاملات طے کرنا ہے۔ماضی میں آئی ایم ایف کے ساتھ الجھنے کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔معیشت کو اس کے اصولوں کے مطابق چلانا پڑے گا‘معاشی اور مالیاتی معاملات کو سیاست کی عینک سے دیکھ کر حل کرنے کی کوشش کی جائے گی توآئی ایم ایف کے ساتھ معاملات خراب ہونے کا خدشہ موجود ہے۔

نئی حکومت کو سیاسی مصلحتوں کا شکار ہوئے بغیر معیشت کے شعبے کی بحالی کے لیے سخت فیصلے کرنے ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں کے سہولت کاروں کی بیخ کنی کے لیے بھی سخت فیصلے کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اگر دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا محاسبہ نہ کیا جا سکا تو پاکستان کی معیشت کبھی ترقی کے راستے پر گامزن نہیں ہو سکتی۔

پاکستان کو افغانستان اور ایران کے ساتھ ٹریڈ کے حوالے سے سخت پالیسی اختیار کرنی ہوگی۔ اس حوالے سے فوری طور پرقانون سازی کی جانی چاہیے تاکہ سرحدوں کی نگرانی بھی سخت رہے اور یہ بھی پتہ چل سکے کہ ٹرانزٹ ٹریڈ میں کیا گھپلے ہو رہے ہیں۔

افغانستان اور ایران کے ساتھ ویزا رجیم میں بھی تبدیلیاں کرنے کی ضرورت ہے۔پیدل آمدورفت کچھ عرصے کے لیے مکمل طور پر بند کر دی جانی چاہیے۔اسی طرح روڈ ٹرانسپورٹ کے ذریعے پاکستان آنے والے لوگوں کی آمدورفت کو بھی محدود کیا جانا چاہیے۔اصولی طور پر تو صرف ٹریڈ کے لیے آنے اور جانے والی ٹرانسپورٹ کو سہولت ملنی چاہیے۔

افغانستان سے آنے والے غیر ہنرمند افراد کی آمد کو مکمل طور پر بند کرنا ہو گا کیونکہ پاکستان کا انفرااسٹرکچر بہت قیمتی ہے۔ اس انفرااسٹرکچر کی تعمیر پر پاکستان کے عوام کے ٹیکسوں سے جو رقم اکٹھی ہوئی ہے وہ خرچ ہوئی ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ دوسرے ملک کے شہری پاکستان کے انفرااسٹرکچر کو استعمال کریں‘ پاکستانی اسپتالوں میں علاج کرائیں‘ یہاں کاروبار کریں ‘اپنے بچوں کو اسکولوں کالجوں میں پڑھائیں لیکن اس کے بدلے کوئی ٹیکس نہ دیں‘ یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔

پاکستان کے عوام کے ٹیکسوں سے جو پیسہ حاصل ہو رہا ہے‘ اس کی بنیاد پر دوسرے ملکوں کے شہریوں کو سہولت دینا پاکستان کے عوام کے ساتھ سب سے زیادتی ہے۔

نئی وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کو کابینہ کا سائز مختصر رکھنا چاہیے۔مشیران اور معاونین کی تعداد بھی انتہائی کم ہونی چاہیے‘جہاں ناگزیر ہو وہاں ہی مشیر وغیرہ تعینات ہونا چاہیے۔ محض نوازشات کے طور پر عہدے تقسیم نہیں کیے جانے چاہئیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جتنے زیادہ عہدے بنتے جائیں گے‘ سرکاری خزانے پر اتنا ہی بوجھ بڑھتا جائے گا۔آئی ایم ایف بھی بار بار یہی کہتا آ رہا ہے کہ حکومت اپنے اخراجات کو کم کرے۔

ملک کے خوشحال طبقات سے ٹیکس وصول کرنے کے لیے نئے قوانین بنائے جانے چاہئیں۔نئی وفاقی حکومت ہو یا صوبائی حکومتیں ‘انھیں انتہائی ذہانت اورزیرکی کے ساتھ ملک کو چلانا ہو گا۔ پاکستان کے دشمن نہیں چاہتے کہ یہاں ایک روشن خیال اور معتدل جمہوری نظام ترقی کر سکے۔ پاکستان کے اندر موجود منفی سوچ رکھنے والا غیر جمہوری طبقہ تعداد میں انتہائی مختصر ہے۔ لیکن یہ طبقہ کئی چہروں کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ نئی حکومت کو یہ چہرے بھی بے نقاب کرنے ہوں گے۔

The post نئی حکومت کے لیے سرگرمیاں شروع appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/zFpVIyf
Previous Post Next Post

Contact Form