شہر لاہور کی ادبی، ثقافتی اور صحافتی فضا اقبال راہیؔ کے نام کے بغیر ادھوری اور بے رنگ تصور کی جاتی ہیں۔
ادب و صحافت کے میدان میں انھوں نے اپنی صلاحیتوں کے کئی کمالات دکھائے ہیں، جن کا ادبی حلقوں میں برملا اعتراف کیا جاتا ہے۔ اقبال راہیؔ کا شمار ایسے قلم کاروں میں ہوتا ہے، جنھوں نے بنا کسی غرض اور لالچ کے بے لوث اپنی خدمات ادب و صحافت کے لیے صرف کی۔
اقبال راہیؔ ایک قادر الکلام شاعر، ادیب، صحافی اور بحیثیت ایک نقاد کی پہچان رکھتے ہیں۔وہ پانچ جنوری1945 کو بھارت کے شہر اتر پردیش ضلع سہارنپور کی ایک علمی و ادبی شخصیت اشفاق احمد کے ہاں پیدا ہوئے، دو سال کی کم عمری میں وہ اپنے خاندان کے ہمراہ ہجرت کرکے پاکستان کے شہر لاہور کے تاریخی بازار انار کلی میں کرائے کے مکان میں آباد ہوئے۔
انھوں نے ابتدائی تعلیم دمری ہائی اسکول پیسہ اخبار انار کلی سے حاصل کی جب کہ ایف اے گورنمنٹ ایم اے او کالج لاہو ر سے کیا جس کے بعد معاشی حالات سنگین ہونے کے باعث ایک سرکاری ادارے محکمہ فائر بریگیڈ میں ملازمت اختیار کی۔ اس دوران انھوں نے اپنے ادبی ذوق شوق میں کسی صورت کمی نہ آنے دی۔
چند برسوں تک ملازمت سے فراغت پاتے ہوئے شعبہ صحافت کو اپنا ذریعہ معاش بناتے ہوئے جریدہ قہقہہ، ’نیا پیام‘‘ فلمی میگزین کے ڈائریکٹرز کی مجلس ادارت سے منسلک رہے، شورش کاشمیری کے مقبول اخبار ’’چٹان‘‘ میں بھی بطور مدیر معاون کام کرتے رہے۔
روزنامہ ’’کوہستان‘‘ میں حالات حاضرہ سے متعلق ان کے قطعات شایع ہوتے رہے اور یہی سلسلہ کئی برسوں سے وہ ایک اخبار میں بھی باقاعدگی سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے یہ قطعات سیاسی اور غیر سیاسی تجزیات کی عکاسی کرتے ہوئے ہر دن کی تازہ خبر کی طرح قارئین کو تازہ دم رکھتے ہیں۔
انھوں نے شاعری کا باقاعدہ آغاز 1971 میں کیا اور شعر وادب کے تابندہ و تابناک مینار احسان دانش کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرتے ہوئے کئی برس تک ان کی زیر ِ نگرانی مشقِ سخن جاری رکھنے کا سفر طے کیا۔اس بات کا ثبوت ان کے گھرجائیں تو ہمیں ایک دیوار پر فلمی اداکاروں اور فنکاروں کی نایاب تصاویروں کے علاوہ دوسری دیوار پر ادبی شخصیات کے ساتھ ان کی یادگار تصویریں دیکھنے کو ملتی ہیں۔
جن میں احسان دانش، مہدی حسن، منیر نیازی، احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر وزیر آغا، پروین شاکر، شہزاد احمد، ڈاکٹر اجمل نیازی، ذوقی مظفر نگری اور بہت سی نامور شخصیات کی یادیں دیوار پر سجی ہوئی اُداس طبیعت کے سبب احمد فراز کے اس شعر کے مصداق سبھی تصویریں دیوار کے بجائے دل کو اچھی لگی ہیں۔
جس سے یہ طبیعت بڑی مشکل سے لگی تھی
دیکھا تو وہ تصویر ہر اک دل سے لگی تھی
اقبال راہیؔ ایک درویش طبع، صاف گو، خوش فکر، خوش مزاج، وفادار اور ادب دوست آدمی ہے، ان کی ادبی خدمات نصف صدی پر محیط ہے، ان کی تصانیف میں زندہ حروف، ہائی الرٹ پاکستان،شیل، پاکستان کا روزنامچہ اور ’’قطع بُرید‘‘ شامل ہیں۔ معروف شاعر رئیس امروہوی کے بعد قطعہ نگاری کی فہرست اقبال راہیؔ کے بنا نا مکمل ہے۔ موجودہ عہد میں قطعات پر مشتمل تین شعری مجموعوں کا ریکارڈ انھی کے پاس ہے۔
اقبال راہیؔ کا مطالعہ بے حد و سیع ہے وہ اپنی قادرالکلامی کی وجہ سے ادبی اور صحافتی حلقوں میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں، وہ شاعری کے ساتھ ساتھ بہت عمدہ نثر نگار کے طور پر بھی مانے جاتے ہیں ۔ انھیں قطعہ نگاری کے علاوہ حمد، نعت، منقبت، سلام،رباعی، غزل، نظم، افسانے اور کالم جیسی اصناف پر دسترس حاصل ہیں۔ ان کا کلام مختلف ادبی رسائل اور اخبارات میں آج بھی پڑھنے کو ملتا ہے۔ان کا ایک شعر مجھے بڑی شدت سے یاد آ رہا ہے کہ:
جب بھی بچھڑے ہوئے ساتھی مجھے یاد آتے ہیں
میری آنکھوں سے نکل پڑتے ہیں اکثر آنسو
اقبال راہیؔ موجودہ معاشرتی اور ہنگامی کیفیتوںمیں جکڑے ہوئے واقعات کو بڑی مہارت کے ساتھ اپنے اشعار کی صورت میں بیان کرتے ہیں، ان کی انفرادی شاعری حالات وواقعات کی عکاسی کرتی ہوئی نظر آتی ہے ۔ ان کی شاعری میں قطعہ نگاری نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔ ان کے ہاں سوچ و فکر کے نئے انداز کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں لطیف جذبوں سے مزین ہے جس میں محبت کی مٹھاس بھی ملتی ہے اور نارسائی کا کرب بھی۔
اقبال راہیؔ بہت سے مشاعروں کی صدارت کرتے ہوئے اسٹیج سیکریٹری کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں، وہ نظامت کے دوران ہر شاعر کو بلانے سے پہلے فل بدیہہ اُس کا منظوم تعارف کرواتے ہیں یوں اس طرح وہ نظامت کی دنیا میں اپنا منفرد حوالہ رکھتے ہیں۔ان کی ذاتی زندگی پر نظر ڈالیں تو وہ آج بھی کسمپرسی اور بیماریوں کے زیراثر ہیں۔ ان کو اپنی بیماریاں زیادہ تکلیف نہیں دیتیں جتنی انھیں اولاد کے دکھ اُٹھانے پڑے۔
ان کا جواں سال بیٹا اور بیٹی تھیلیسما کے موذی مرض کی وجہ سے موت کی نیند سو چکے ہیں ابھی اس درد سے پوری طرح نجات نہیں ملی تھی کہ ان کا ایک اور جوان سال بیٹا فرحان اقبال جو ایک اچھا صاحب کتاب شاعر تھا وہ ابھی اسی جان لیوا بیماری کی نظر ہوتے ہوئے مٹی کی چادر اوڑھے ابدی نیند سو گیا۔ جس کی برس ہر پندہ دسمبر کو آتی ہے اور درد بھرے یادوں کے پھول تازہ کر دیتی ہے۔
غموں کا مارا ہوا، اس جہان سے نکلا
اک اور فرد مرے خاندان سے نکلا
اقبال راہیؔ ایک سفید پوش آدمی ہے جن کی شخصیت اور فن میں کسی قسم کا کوئی تضاد نہیں، وہ اُن با ہمت لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے زیادہ تگ و دوکرنا پڑتی ہے۔ آج سے کئی برس پہلے میں نے ان کا ماہنامہ ’’سویرا‘‘ میں ایک انٹرویو پڑھا جس میں ان کا ایک جملہ مجھے بہت اچھا لگا کہ’’کتاب اور عورت جب ہاتھ سے نکل جائے تو بازار میں ہی ملتی ہے۔‘‘
اقبال راہیؔ جیسے لوگ دنیا میں بہت خال خال ملتے ہیں۔ ان کے خیال میں یہاں ادبی ایوارڈز سفارش اور ادبی مقام و مرتبے کے حوالے سے تقسیم کیے جاتے ہیں، راہیؔ صاحب کو ابوالکلام آزاد اور مولانا مودودی کی تحریریں بے حد پسند ہیں۔ وہ ماہنامہ تارکین وطن لاہور کے ادبی گوشے کے مدیر ایک طویل مدت تک رہے۔ ان کی شاعری کا فکری اور فنی جائزہ پہ مقالہ ہمایوں عامر مغل نے منہاج یونیورسٹی لاہور سے ڈاکٹر ناصر بلوچ کی زیر نگرانی مکمل کیا۔
اقبال راہیؔ کی سادہ دلی اور درد کی کیفیت کا اندازہ ان کے اس اشعار سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے :
حد احساس پر نفرت کی چادر تان آیا ہے
یہ کیسے موڑ پر اس دور کا انسان آیا ہے
مری پہچان اب ان کے حوالے سے نہیں ہوتی
مرے حصے میں یہ کتنا بڑا نقصان آیا ہے
اقبال راہیؔ آج بھی ایک طویل عرصے سے لاہور کی ادبی محافل میں سرگرمِ عمل ہے، اعتبار ساجدکے مطابق ’’وہ زودو گو شاعر ہے موقع اور محل کی مناسبت سے شعر کہتے ہیں، نہایت وضع دار اور مخلص انسان ہے اسی لیے لوگ ان سے پیار بھی کرتے ہیں اور ان کی عزت بھی۔‘‘
حضرت احسان دانش کے شاگردوں کی فہرست بہت طویل ہیں، لیکن علامہ ذوقی مظفر نگری کے بعد جو مقام اقبال راہی کو حاصل ہے وہ کسی اور شاگرد کے حصے میں کم آیااقبال راہیؔ کو میں نے ہمیشہ مخلص اور بے لوث پایا ہے دُعا گو ہوں کہ پروردگار انھیں صحتِ کاملہ اور زندگی کی تمام نعمتوں سے سرفراز رکھے۔
The post اقبال راہیؔ کی ادبی خدمات، نصف صدی کا قصہ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/YjpM9ZK