ورتھم پاس مہم

میں نے چند سالوں میں پہاڑوں کے کچھ دل چسپ سفر کیے جن میں ٹریکنگ اور بائیکنگ دونوں شامل تھے۔

ان میں بائیک پر سارے شمالی علاقہ جات کی سیر اور پھر زیارت اور گوادر تک کا سفر بھی شامل ہے جب کہ کچھ مشہور ٹریک بھی کیے جن میں کنکوڑدیا قابل ذکر ہے۔ لیکن گذشتہ سال جو سفر ورتھم پاس عبور کرنے کے لیے طے کیا وہ میری زندگی کا سب سے مشکل اور خوف ناک سفر تھا۔ میں نے بہت سے مواقع پر موت کی سرسراہٹیں اپنے آس پاس محسوس کیں۔

ہر روز چند مقامات آہ و فغاں منتظر ہوتے تھے اور اللّہ تعالیٰ گواہ ہے کہ میں ہر روز اپنے اس شوق پر لعن طعن کرتا اور صدق دل سے توبہ تائب ہوتا تھا۔

ہوا یہ کہ عطاری صاحب نے ورتھم پاس مہم کا پروگرام بنا لیا تھا اور اپنے ساتھ لے جانے کے لیے کسی قابل اعتماد ٹریکر کی تلاش میں تھے۔

مجھ سے پوچھا (حالاں کہ میں کوئی قابل اعتماد ٹریکر بالکل نہیں تھا) تو میں نے بتایا کہ میں تو توبہ تائب ہو چکا ہوں اس شوق سے۔ بس پھر کیا تھا عطاری صاحب نے قسم ہی کھا لی کہ بس مجھے ہی لے کے جانا ہے اب تو۔

میرا تعلق ساہیوال سے ہے اور میرے بھائی راشد اسرار ہمارے آبائی گاؤں میں رہتے ہیں جو کہ ضلع فیصل آباد میں واقع ہے، جب کہ اکرم عطاری صاحب گوجرانوالہ کے رہنے والے ہیں۔ لہٰذا طے پایا کہ ہم دونوں بھائی ساہیوال سے پنڈی پہنچیں گے جب کہ عطاری صاحب وہاں سے ہمارے ساتھ شامل ہوجائیں گے۔

ہم پنڈی پہنچے جہاں عطاری صاحب بہت بے چینی سے منتظر تھے۔ وہاں سے مشابرم کمپنی کی بس پر سفر شروع ہوگیا۔ رات بس مانسہرہ رکی کھانا کھا کے دوبارہ چلی تو خوشی کی انتہا نا رہی کہ یہ بشام کی بجائے بابو سر کی طرف سے جائے گی۔

شام تک ہم پسو ہوٹل میں تھے، جہاں گائیڈ اور پورٹروں سے احسن طریقے سے معاملہ طے پا گیا۔ نصیرالدین ہمارے گائیڈ تھے اور رات سونے سے پہلے ہم نے ساری تیاری مکمل کرلی تاکہ صبح سویرے ٹریکنگ شروع کردی جائے کیوںکہ شنید تھی کہ پہلا دن نسبتاً گرم ہوگا۔

باقاعدہ ٹریک پسو گاؤں سے دو تین کلومیٹر دور شروع ہوتا ہے اس لیے فیصلہ ہوا کہ یہ سفر ہائی ایس پر طے کیا جائے لہٰذا اس کا بھی انتظام کرلیا گیا۔

پسو سے شاہراہ قراقرم پر تقریباً 2 کلو میٹر آگے جا کے ایک چھوٹی اور کچی سڑک پر بائیں مڑ گئے مزید ڈیڑھ دو کلو میٹر آگے پہنچے تو گاڑی والے نے نیچے اتار دیا کہ آگے میرے ’’پر‘‘ جلتے ہیں۔

ایک بات بتاتا چلوں کہ جب بھی کسی ٹوور کی پلاننگ کرتا ہوں ہمیشہ روانگی سے پہلے کے تین چار دن بہت پریشانی میں گزرتے ہیں۔ یہ بھی کرنا وہ بھی کرنا، لیکن جب بس میں سوار ہو جاتا ہوں تو آدھی پریشانیاں ختم ہو جاتی ہیں، اور جب ٹریک پر پہلا قدم اٹھاتا ہوں تو پیچھے کی ساری پریشانیاں ختم ہوجاتی ہیں۔

لیکن یہ آج کیا ہوا کہ میرے پہلے قدم کی خوشی کو ہی نظر لگ گئی۔ جب پورٹروں میں سامان تقسیم کر رہے تھے تو پتا چلا کہ ہمارا ٹینٹ غائب ہے۔ فوجی بندوقوں کے بغیر محاذ پر پہنچے ہوئے تھے۔ بہت سوچ بچار کی تو یاد آیا کہ میں نے ہی رات کو ٹینٹ بیڈ کے نیچے رکھ دیا تھا، لیکن ایک اور مسئلہ ہوگیا کہ ہائی ایس والا بھی چلا گیا تھا۔

اور اتنی صبح روڈ پر بھی کوئی گاڑ ی نہیں مل سکتی تھی۔ آخر کار طے یہ پایا کہ دو پورٹر واپس ہوٹل جا کے ٹینٹ لے کے آئیں گے اور باقی پورٹر وہیں ان کا انتظار کریں گے، جب کہ ٹیم گائیڈ نصیر الدین کے ساتھ ابھی روانہ ہوجائے گی۔ لہٰذا ہم بہت ہی ضروری قسم کا سامان لے کے بوجھل قدموں سے چل پڑے۔

دس منٹ ہی چلے ہوں گے کہ ذرا سی سیدھی چڑھائی سے ہی سانس پھولنے لگا۔ کیوںکہ ابھی ہمارے جسم میدانوں کے عادی تھے۔ تھوڑی دیر مزید چلے تو ایک شاہکار نگاہوں کے سامنے تھا۔ قطبین سے ہٹ کر دنیا کے چند بڑے گلیشیئروں میں سے ایک بتورا گلیشیئر ہمارے دائیں طرف نیچے تھا اور ہم ایک دیوار کی پگڈنڈی پر چلتے جا رہے تھے۔

ہم کو تقریباً 4 یا پانچ اسٹیجز کے ساتھ ساتھ چلنا تھا۔ اب ہم اپنے ٹریک کا ٹھیک طریقے سے لطف لے رہے تھے، لیکن یہ خوشی بھی جلد ہی کافور ہو گئی۔ ہم جس پگڈنڈی پر چل رہے تھے سلائڈ کی وجہ سے اس کا کچھ حصہ نیچے کھائی میں گر گیا تھا۔

اور اب دیوار کے ساتھ موجود رخنوں کے ساتھ چمٹ کر گزرا جا سکتا تھا۔ ایسی صورت حال ٹریکس میں پیش آتی رہتی ہے لیکن اتنی جلدی ایسا ہوجائے گا یہ اندازہ نہیں تھا۔ یہ راستہ عبور کرنے کے بعد جلد ہی پہلا اسٹیج ینز بن آگیا۔ یہاں پر سمر سیٹلمنٹ کا ایک کمرا بنا ہوا تھا۔ ہم اس میں تھوڑی دیر آرام کرنے کے لیے بیٹھ گئے۔ ایسے کمروں سے مجھے بے پناہ محبت ہے۔ میرا دل چاہتا ہے ایسے ہی کسی کمرے میں باقی ساری زندگی گزار دوں۔

سفر دوبارہ شروع ہوگیا۔ ینز بن سے نکلتے ہی بائیں طرف پہاڑ کے اوپر ینز پاس ہے۔ کچھ لوگ بورت لیک سے اپنے ٹریک کا آغاز کرتے ہیں۔ وہ ینز پاس کراس کر کے یہاں تک پہنچتے ہیں تو اس طرح اس ٹریک کا ایک ڈیڑھ دن زیادہ ہوجاتا ہے۔

پہلے اسٹیج تک خاصی چڑھائی تھی لیکن اب راستہ کافی ہموار تھا۔ چھوٹی چھوٹی کانٹے دار جھاڑیاں جن پر خوب صورت پھول تھے جو صرف ہم جیسے آوارہ گردوں کے مقدر میں ہوتے ہیں۔ سب لوگ اپنی موج مستی میں چل رہے تھے اور اب تک تو ڈیتھ ڈراپ سے گزرنے کا خوف بھی زائل ہوگیا تھا۔

صرف ایک گھنٹہ بعد ہم اگلے اسٹیج پر تھے جس کا نام تھا ملنگ ہل۔ یہاں سمر سیٹلمنٹ کے بہت سارے کمرے بنے ہوئے تھے۔ ہم یہاں چند منٹ ہی رکے۔ اور پھر چل پڑے۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا، لیکن پہاڑوں میں بہت زیادہ دیر تک سب کچھ ٹھیک نہیں چلتا۔

دس منٹ ہی چلے تھے کہ پانی کے ایک بڑے نالے پر پہنچ گئے، جو کہ ایک کافی بڑی آبشار سے نکل کر بتورا گلیشیئر میں جا رہا تھا۔ ہم پیاسے اونٹوں کی طرح اپنے معدے سیراب کر رہے تھے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ فوراً اتنا پانی نہیں پینا چاہیے۔

لیکن اتنا میٹھا اور ٹھنڈا پانی اب کون چھوڑتا۔ ہمارا حوصلہ پھر سے بلند ہوگیا، لیکن یہ خوشی بھی عارضی ثابت ہوئی کیوںکہ اب ہمیں بتورا کو کراس کر کے دوسری طرف یشپرت جانا تھا، جو کہ اندازاً 4 گھنٹے کا سفر تھا اور اب تک اپنی پیاس کے چکر میں ہمیں یہ بھی خیال نہیں آیا تھا کہ ہمارے پورٹر اب تک نہیں پہنچے تھے اور کیمپنگ کا سارا سامان ان کے پاس تھا۔ شام کا وقت تھا اور ہر طرف سے اندیشے گھیر رہے تھے۔

مجھے پہاڑوں میں گلیشیئرز کے علاوہ ہر چیز پسند ہے میری اس بات سے بہت سے لوگ اتفاق نہیں کریں گے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ مجھے گلیشئیر سے بہت ڈر لگتا ہے۔ دراڑوں کو عبور کرنے سے میری جان جاتی ہے۔ پچھلے سال بلتورو نے مجھے بالکل ہی بزدل کردیا تھا۔ بہرحال اب بتورا کو پار کر نے کے سوا کوئی چارہ نا تھا۔

یہ ایک سلیٹی رنگ کے پتھروں والا گلیشیئر تھا۔ پاؤں پتھروں پر الٹے سیدھے پڑ رہے تھے ہر لمحہ پاؤں میں موچ آنے کا ڈر رہتا ہے۔ اور برف اور پتھروں کے نیچے چھپی دراڑوں کا علیحدہ خوف۔ یہ ایک متحرک گلیشیئر ہے اور اس کا راستہ بھی تقریباً متروک ہوچکا۔

اس لیے راہ راست پر رہنا بھی دشوار ہو رہا تھا۔ نصیر بھائی اپنے تجربے کی بنیاد پر زگ زیگ انداز میں راستہ تلاش کر رہے تھے۔ عطاری صاحب کے پاؤں میں چھالے پڑ گئے تھے پھر بھی ہمت کر کے چل رہے تھے۔

تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی سخت بوریت کے بعد (جو مجھے ایسے گلیشیئرز پر ہوجاتی ہے) ہم دنگ رہ گئے جب ایک خوب صورت اور سفید گلیشیئر ہمارے سامنے آ گیا۔

آپ کو بتاتا چلوں جو پتھروں والا گلشیئر ہوتا ہے اسے بلیک یا میل گلیشیئر کہتے ہیں اور جو برف والا ہوتا اسے وائٹ یا فیمیل گلیشیئر کہتے ہیں۔ اس کی وجہ تسمیہ تو مجھے نہیں معلوم لیکن یہ پتا ہے کہ جب فیمیل گلیشیئر آتا ہے تو اسے دیکھ کہ اتنی ہی خوشی ہوتی ہے جتنی کسی فیمیل کو دیکھ کے ایک میل کو ہوسکتی ہے۔

اگلے ایک گھنٹے تک مزید چلنے کے بعد ہمارے کس بل پوری طرح نکل چکے تھے۔ تقریباً ساڑھے تین گھنٹے چلنے کے بعد ہم نے بتورا عبور کرلیا۔ چند منٹ رک کر سانس بحال کی، کھجور کھائی اور پانی پی کر پھر چل پڑے۔

یاد دلا دوں کہ یہ ابھی ٹریک کا پہلا دن ہی چل رہا تھا جب کہ 10 گھنٹے سے زیادہ وقت سفر میں گزر چکا تھا۔ گورا لوگ کہتا ٹریک کا پہلا دن 3 گھنٹے سے زیادہ نہیں چلنا چاہیے، جب کہ ہم ٹھہرے کالے لوگ ’’ساڈے اپنے رول۔ جتھے چاہواں گے گڈی موڑاں گے۔ سارے دے سارے سگنل توڑاں گے۔‘‘

تو اب ہم بتورا کی دوسری سائیڈ پر تھے۔ تھوڑی دیر بعد یاک سے واسطہ پڑ گیا۔ تھوڑا آگے گئے تو پھر ایک سیدھی چڑھائی چڑھنی پڑ گئی۔ بس ٹریک میں صبح صبح یا شام کو چڑھائی نہ چڑھنی پڑجائے۔ لیکن آج دونوں باتیں ہی ہوگئی تھیں۔ یشپرت کیمپ سائٹ جو آج ہماری منزل تھی قریب آئی تو نصیر بھائی آگے نکل گئے جب کہ راشد بھائی اور اکرم عطاری صاحب پیچھے رہ گئے۔

میں اب بڑے مزے سے اکیلا جا رہا تھا۔ یہاں عجیب و غریب ساخت کے درختوں کی وجہ سے ماحول کافی گمبھیر تھا۔ ہمیں پتا چلا تھا کہ اب ادھر کوئی نہیں آتا۔ ہم نے صبح سے ایک دوسرے کے سوا کسی انسان کی شکل نہیں دیکھی تھی۔

پیٹ کا مسئلہ حل ہوا تو پریشانی لاحق ہوئی کہ ہمارے پورٹرز اور سامان کا کیا بنے گا۔ شکر تھا کہ سمر سیٹلمنٹس کے ان کمروں میں بستر اور کچھ ضروری چیزیں موجود تھیں اس لیے رات گزارنے کا اچھا بندوبست ہوگیا، جو کہ میری زندگی کی چند معصوم خواہشوں میں سے ایک تھی۔ لیکن رات سونے تک یہی خیال دل میں تھا کہ خدا نخواستہ پورٹرز نہ پہنچے تو مہم یہیں ختم ہوجائے گی۔

گذشتہ رات جب پورٹر گلیشیئر پار کر رہے تھے تو انھیں ایک پرانا سا آئس ایکس ملا جس میں لکڑی کا دستہ لگا ہوا تھا اور یہ زنگ آلود بھی تھا، لیکن اس کے پیچھے ایک داستان تھی۔ ایسی داستانیں پہاڑوں کی ہر چوٹی کی برفوں میں دفن ہوتی ہیں۔

آئس ایکس کی ساخت اور حالت بتا رہی تھی کہ یہ بہت پہلے کے دور کا ہے کیوںکہ اب تو جدید قسم کے آئس ایکس استعمال ہو رہے ہیں۔ ہمارے گائیڈ نصیر الدین نے بتایا کہ 1959 میں ایک جرمن ایکسپیڈیشن یہاں آیا تھا یہ ضرور اس کا ہے۔

میں نے کہا کہ ضروری تو نہیں یہ اس کا ہو کسی اور ٹیم کا بھی ہو سکتا ہے۔ تو انہوں نے بتایا کہ وہ بتورا پیک کی فتح کا خواب لے کے آئے تھے اور یہ بتورا کی بیک سائیڈ ہے۔ بتورا ہمیشہ دوسری سائیڈ سے کلائمب ہوتی ہے۔

انہوں نے اس کی مشکل ترین سائیڈ سے کوشش کی اور تمام چھے کوہ پیما ہلاک ہو گئے۔ اس کے بعد آج تک کسی ٹیم نے ادھر سے کوشش نہیں کی۔ اب گلیشیئر کی حرکت کے ساتھ ان کا سامان آہستہ آہستہ نیچے آ رہا ہے اور ہر بار کوئی نا کوئی چیز ہمیں مل جاتی ہے۔

آج ہم نے صبح دن چڑھے ٹریکنگ شروع کی تا کہ سب لوگ ذرا تازہ دم ہوجائیں۔ نو بجے کے قریب ہم اگلی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔

یشپرت سے آگے کا سفر آسان بھی تھا اور زیادہ خوب صورت بھی۔ کوئی 10 منٹ کے سفر کے بعد ہی ایک چھوٹی سی جھیل آ گئی۔ اگر لمبے سفر کے بعد گرمی میں یہ جھیل آتی تو ہم اس پر زیادہ ٹائم گزارتے اور اس کی مدح سرائی کرتے، لیکن انسانی فطرت ہے کہ بغیر مشقت کے جو چیز ملے اس کی قدر نہیں ہوتی۔ اس لیے ہم اسے نظرانداز کرتے آگے نکل گئے۔

تقریباً سوا دو گھنٹے بعد ہم فاطمہ ہل کیمپ سائٹ پر پہنچ گئے۔ یہاں سے اچانک ہی منظر بے حد خوب صورت ہوگیا کیوںکہ یہاں پر ایک شوریدہ نالہ بتورا کے اندر داخل ہو رہا تھا اور یہاں سے گلابی پھولوں کا ایک خوب صورت سلسلہ بھی ہمارا ہم سفر ہو گیا۔

کک ہل آج ہمارا دوسرا اسٹیج تھا۔ یہاں ہم نے تھوڑی دیر آرام کیا۔ پورٹرز روایتی نمکین چائے بنانے لگے تو انھیں یاد آیا کہ اپنا پتی والا شاپر یشپرت ہی میں بھول آئے تھے۔

ان کے لیے یہ اتنا ہی بڑا صدمہ تھا جتنا ہمیں ٹینٹ بھول جانے کا ہوا تھا۔ ٹریکر لوگ جانتے ہیں کہ پورٹرز کے لیے پھٹی (مخصوص روٹی) کے ساتھ نمکین چائے کی کتنی ضرورت ہوتی ہے۔ اور شومئی قسمت کہ زندگی کا پہلا ٹریک تھا جس میں ہم چائے کی پتی ساتھ نہیں لے کے گئے تھے، کیوںکہ میرے ساتھ موجود ’’بڑوں‘‘ نے فرمایا تھا کہ چائے کی عیاشی کی کیا ضرورت ہے اس لیے ہم چائے بنانے کا سامان ہی نہیں لائے تھے لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔

صرف پونے دو گھنٹے بعد ہی ہم اگلی کیمپ سائٹ شیلمین پہنچ چکے تھے۔ یہ بھی ایک وسیع و عریض میدان تھا۔ ہم ابھی اور بھی چل سکتے تھے لیکن نصیر بھائی نے کہا کہ آج رات یہیں سکون سے قیام کرلو کیوںکہ اس اسٹیج سے آگے آپ لوگوں کا چین لٹنے والا ہے۔

نصیر بھائی گائیڈ کے ساتھ باورچی کی خدمات مفت میں فراہم کر رہے تھے۔ ہمارے دو پورٹر کہیں گھومنے چلے گئے واپس آئے تو بہت خوش تھے، پوچھا تو پتا چلا کہ تھوڑا آگے موجود سمر سیٹلمنٹ سے چائے کی پتی برآمد کر لائے تھے۔

شیلمن وہ پوائنٹ ہے جہاں سے ہماری اور بتورا کی رفاقت کا اختتام ہوگیا۔ اب ہمارا سفر ورتھم نالے کے ساتھ ساتھ ورتھم پاس کی طرف شروع ہوگیا۔ کل والے پوائنٹ پر پہنچے تو نالے کے اوپر پہاڑ کے ساتھ یاکوں کے قدموں کے نشان تھے اور ان پر چلنا تھا۔

میرا ایک پاؤں نیچے معلق تھا اور میں جیسے ہی اوپر اٹھنے کی کوشش کرتا میرے دوسرے پاؤں کے نیچے جو دو انچ بھربھری مٹی تھی وہ بھی سرکنے لگتی تھی اور نیچے دو سو فٹ کی دوری پر شوریدہ نالہ مجھے اپنی طرف بلاتا تھا۔ پسینہ میرے سر سے بہہ کے پاؤں تک جاتا تھا۔

میرے بالکل پیچھے کھڑے عطاری صاحب مجھے اس مشکل سے نکالنے کے لیے ہدایات دے رہے تھے لیکن وہ بھی اس پوزیشن میں نہ تھے کہ میری کوئی مدد کرسکتے، کیوںکہ وہ بھی شاید ایک پاؤں پر کھڑے تھے۔

میں نے ایک مزید کوشش کی اوپر اٹھنے کی لیکن بے سود۔ عطاری صاحب نے مجھے مشورہ دیا کہ ابھی رک جاؤ اور ہاتھ پاؤں جمانے کی کوشش کرو۔ میں رک گیا لیکن کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس مصیبت سے کیسے نکلوں۔

یہ لمحات میری زندگی کے مشکل ترین لمحات تھے۔ مجھے اس وقت اچانک اپنے بچوں کی یاد آنے لگی لیکن یہ کیا مجھے تو اپنے بچوں کی شکلیں بھی یاد نہیں آ رہی تھیں، اور یہ شاید میری مایوسی کی انتہا تھی۔ اس وقت مجھے زندگی بہت قیمتی محسوس ہو رہی تھی اور مجھے اس ٹوور پر آنے کی حماقت پر افسوس ہو رہا تھا۔ میں نے اس وقت اللّہ تعالیٰ سے بہت خلوص سے زندگی کی بھیک مانگی۔

اور اس لمحے مجھے اپنی دو سالہ بیٹی ارفع کی شکل اچانک یاد آ گئی اور مجھے زندہ رہنے کی امید نظر آنے لگی۔ اب میں نے ایک اور زاویے سے کوشش شروع کردی۔

میں نے اپنے سامنے موجود مٹی کی دیوار سے انگلیوں سے مٹی نکالنی شروع کردی تا کہ میرے ہاتھ کوئی پتھر وغیرہ لگ جائے اور میں اپنا ہاتھ جما کے اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکوں۔ اور پھر جلد ہی میرے ہاتھ میں ایک پتھر آ گیا، لیکن جیسے ہی اس کے سہارے میں نے اوپر اٹھنے کی کوشش کی وہ پتھر مٹی سے نکل کر میرے ہاتھ میں آنے لگا۔ ایک بار پھر نا امیدی چھا گئی۔

ہمارا گائیڈ نصیر الدین راشد بھائی سے آگے کھڑا تھا اور اسے راشد کو کراس کر کے پیچھے آنے میں دقت ہو رہی تھی اور اب میری تمام کوششوں کو ناکام ہوتے دیکھ کے وہ راشد کو کراس کر کے میرے سر پر پہنچ گیااور اپنا ہاتھ میری طرف بڑھایا۔ لیکن میری سمجھ میں یہ نہیں آرہا تھا کہ کیسے اس کا ہاتھ پکڑوں کیوںکہ مجھے خطرہ تھا کہ میں نصیر کو بھی لے کے نیچے جاؤں گا۔ میری ہچکچاہٹ دیکھ کے نصیر نے حکم دیتے ہوئے کہا کہ جلدی اپنا ہاتھ مجھے پکڑاؤ۔ میں نے اپنا ہاتھ اسے پکڑا دیا کیوںکہ اب میرے پاس کوئی اور چارہ بھی تو نہ تھا۔

نصیر کا ہاتھ پکڑا تو مجھے لگا کوئی فولادی ہاتھ پکڑ لیا ہے۔ اس ہاتھ پر اعتماد کیا جا سکتا تھا اور نصیر نے مجھے کسی بچے کی طرح کھینچ کے اوپر اٹھا لیا۔ کہنے کو تو یہ 3 یا 4 منٹ تھے لیکن مجھے لگا جیسے زندگی کا بڑا حصہ یہیں لٹکتے ہوئے گزرا ہو۔

شیلمن کے بعد تقریباً ایک گھنٹہ اس دیوار گریہ پ گزرا۔ دیوار گریہ کا تصور تو شاید کچھ اور ہے لیکن میرے نزدیک تو یہی تھا، کیوںکہ اتنے وقت میں ایک پل بھی سکھ کا سانس نصیب نہیں ہو سکا۔ ایسی سلائڈز عموماً ٹریکس میں آ جاتی ہیں لیکن چند منٹ میں عبور کرلی جاتی ہیں، یہ عموماً پچاس سے سو میٹر تک ہوتی ہیں، لیکن یہ کیا کہ بندہ چل چل کے ’’رہ‘‘ جائے پھر بھی تا حد نگاہ یہی راستہ ہو۔ ہر لمحہ ہی موت کی گھاٹی سے گزرنا پڑے۔ یہ ایک اعصاب شکن سفر تھا۔

پورٹر آج ٹیم سے کافی آگے چل رہے تھے۔ کافی آگے جاتے ہوئے ایک پورٹر عاقب کا بھی میری طرح پاؤں پھسلا اور نیچے گر کر میرے انداز میں ہی پگڈنڈی سے چمٹ گیا۔ فرق یہ تھا کہ میرا ایک پاؤں نیچے لٹکا ہوا تھا اس کے دونوں پاؤں لٹکے ہوئے تھے اور اس کی کمر پے بوجھ بھی 30 کلو کے قریب ہوگا۔

دوسرا پورٹر اس کے پیچھے کھڑا تھا لیکن اس کی کوئی مدد نہیں کر سکتا تھا کیوںکہ اتنی جگہ ہی نہ تھی کہ وہ اپنا بوجھ رکھ سکتا۔ عاقب اوپر اٹھنے کی کوشش کرتا تو بھربھری مٹی اپنی جگہ چھوڑنے لگتی۔ وہ ہم سے کافی دور تھے۔

ہم بس اب تماشائی بنے ہوئے تھے۔ تب دوسرے لڑکے نے اپنا ڈنڈا جو وہ بطور اسٹک استعمال کر رہا تھا اس کی طرف بڑھایا۔ حالاںکہ یہ بہت بڑا رسک تھا کیوںکہ ڈنڈا پکڑانے والا بھی بمشکل کھڑا تھا، لیکن عاقب نے اسٹک پکڑی اور تھوڑی سی جدوجہد سے سیدھا کھڑا ہوگیا۔ ایسے معاملات میں اللّہ تعالیٰ کی مدد شامل ہوتی ہے نہیں تو کئی بار عقل بھی تسلیم نہیں کرتی کہ کوئی کیسے بچ گئے۔

تقریباً تین گھنٹے کی خواری کے بعد ہم اگلی کیمپ سائٹ شیریں میدان کے قریب پہنچ گئے۔ یہ کیمپ سائٹ نالے کے دوسری طرف تھی اور کافی بڑی میڈو تھی، اگر رات گزارنی ہو تب تو وہاں جایا جاتا بصورت دیگر اسے بائی پاس کرنا ہی بہتر تھا، کیوںکہ وہاں تک آنے جانے میں ایک گھنٹہ لگ سکتا تھا۔

نصیر نے بتایا کہ یہاں سے دو راستے نکلتے ہیں ایک تو یہی جس پر ہم چل رہے ہیں، اس پر آگے جا کے کافی چڑھائی چڑھنی پڑے گی جب کہ دوسرا راستہ نالے کی دوسری طرف تھا اور ویسا ہی تھا جیسا صبح ہم نے طے کیا تھا۔ چناںچہ ہم نے چڑھائی چڑھنی منظور کرلی۔ اس سے آگے کا سفر بھی آسان نہیں تھا۔

اب ہمیں ورتھم بیس کیمپ جانے کے لیے نالا عبور کرنا تھا۔ دوپہر کے بعد تو نالے ویسے ہی بہت تیز ہوجاتے ہیں۔ پہلے ہمارے دو پورٹروں نے اسے پار کیا، لیکن کافی دقت سے۔ عطاری صاحب نے ایک جگہ ڈھونڈی، جہاں سے جمپ لگا کے گزرا جا سکتا تھا۔ آسان تو نہیں تھا پھر بھی گزر ہی گئے۔ ایسی جگہ پر تھوڑی سی غلطی بھی بڑی مصیبت میں ڈال سکتی۔

ورتھم پاس بیس کیمپ ایک خوب صورت میدان اور آئیڈیل کیمپنگ سائٹ ہے۔ کیمپنگ کے سارے لوازمات موجود ہیں۔ ورتھم نالا بلکل پاس سے گزرتا ہے لیکن ایک قابل قبول فاصلے سے۔ ہم دوپہر کے بعد ہی ادھر پہنچ گئے تھے، اس لیے خوب آرام کیا اور سب تازہ دم ہوگئے۔

رات ٹیم ممبرز تو جلدی سونے لگے لیکن گائیڈ اور پورٹرز کافی دیر تک جاگتے رہے اور گپیں لگاتے رہے۔ میں نے تھوڑا غور کیا تو اندازہ ہوا نصیر بھائی لڑکوں کو پریوں اور جنات کی کہانیاں سنا رہے تھے۔ کچھ لوگوں کو اندازہ ہوگا کہ ٹریک پر عموماً پورٹروں کا یہ پسندیدہ موضوع ہوتا۔

صبح آرام سے کیمپ کلوز کر کے رخت سفر باندھا گیا۔ اب ہماری منزل ورتھم پاس ہائی کیمپ تھی۔ آج راستہ زیادہ خطرناک نہیں تھا لیکن چڑھائی بہت زیادہ تھی۔ اتنی زیادہ کہ چند قدم بعد ہی ’’بس‘‘ ہوجاتی تھی۔ آج عطاری صاحب اور پورٹر پوری فارم میں تھے۔ تھوڑی دیر میں ہی کافی دور نکل گئے۔ نصیر الدین میرے اور راشد بھائی کے ساتھ تھے۔

ہم تینوں کافی آہستہ چل رہے تھے کیوںکہ سانس بری طرح پھول رہا تھا۔ نصیر بھائی نے دیکھا کہ عطاری صاحب اور پورٹر غلط راستے پر جا رہے ہیں۔ ہمیں دائیں طرف مڑنا تھا لیکن وہ سیدھے چلے جا رہے تھے۔ نصیر نے انھیں کافی آوازیں دیں لیکن وہ ہماری آواز کی دسترس سے کافی آگے نکل چکے تھے۔

نصیر ہمیں دائیں مڑنے کا بتاکر تیزی سے ان کے پیچھے جا رہا تھا۔ وہ تو آگے ایک گلیشیئر آ گیا جس کی سخت برف پر وہ بری طرح گرنے لگے تب انہوں نے مڑ کے دیکھا تو نصیر نے انہیں اشاروں سے سمجھایا کہ واپس آ جاؤ۔ واپس آ کے ہمارے ساتھ ملنے میں انھیں آدھے گھنٹے سے زیادہ وقت لگ گیا۔

اب فیصلہ ہوا کہ سب اکٹھے رہیں گے۔ یہاں سے جو چڑھائی شروع ہوئی تو بس خدا کی پناہ۔ ایسی چڑھائی سے زندگی بھر پالا نہیں پڑا تھا، بلکہ یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ اس پر ہم چڑھ جائیں گے۔ ہم بالکل سیدھے نہیں جا رہے تھے بلکہ زگ زیگ جا رہے تھے۔

بظاہر تو ورتھم بیس کیمپ سے ہائی کیمپ کا فاصلہ زیادہ نہیں لیکن اونچائی تقریباً 400 میٹر تھی ہر چند قدم پر سانس دھونکنی کی طرح چلنے لگتا۔

ہم کوئی تین گھنٹے کے دندان شکن معرکے کے بعد ادھر پہنچ گئے، لیکن ایسا لگتا تھا جیسے تین اسٹیج طے کرلیے ہوں۔ پاس سامنے نظر آ رہا تھا لیکن اس کی چڑھائی بھی عمودی تھی۔ چناںچہ یہیں قیام کرنے کا فیصلہ ہوگیا۔

تھکاوٹ ضرور ہوئی لیکن ہر بندہ پُرجوش تھا۔ چناںچہ نصیر اور پورٹرز نے اپنے علاقائی میوزک پر بہت اچھا ڈانس کیا۔ ہم ٹیم ممبرز میں سے کوئی بھی موسیقی کا رسیا نہیں تھا لیکن اس ماحول میں یہ موسیقی بے خود کر رہی تھی۔ اس کا صحیح اندازہ وہی کر سکتا ہے جس نے مادی خواہشات کو تیاگ کر پہاڑوں کا کشت کاٹا ہو۔ یہ آوارہ گردوں کا رومی ڈانس تھا۔

یہ کیمپ سائٹ بہت زیادہ خوب صورت تھی۔ مشرق میں پسو پیک 7478 میٹر بلند تھی اس کے ساتھ بتورا سیریز کی چوٹیاں تھیں جن میں بتورا سر 7795 میٹر بلند تھی اور اس خطے کی سب سے اونچی چوٹی تھی۔ مغرب میں ورتھم پیک تھی اور جنوب میں ورتھم پاس 5147 میٹر اونچا تھا۔ یہاں پر ایسا لگتا تھا جیسے ہم جہاز میں بیٹھ کر ارد گرد کے منظر دیکھ رہے ہیں۔

ٹیم کا حوصلہ کافی بلند تھا، کیوںکہ منزل سامنے نظر آ رہی تھی۔ موسم تھوڑا خراب ہو کر کافی سہانا لگ رہا تھا لیکن خطرات بھی بڑھ رہے تھے کہ اگر برف باری ہوگئی تو بہت بری طرح پھنس جائیں گے۔ یہاں اگر کچھ ایسا ویسا ہوجاتا تو ریسکیو ہونے کا امکان نہیں تھا، کیوںکہ پہلے دن سے موبائل سگنلز کی رینج سے باہر تھے۔

صبح سردی تھی کیوںکہ ہماری قیام گاہ برف کی قربت میں تھی۔ جلدی اٹھ کر ناشتہ کیا۔ ناشتے میں روزانہ نصیر بھائی کے ہاتھ کی بنی ہوئی خشک روٹیاں ہوتی تھیں جو ہم چکن اسپریڈ کے ساتھ کھا لیتے تھے۔ اس مہم میں ہمارے لیڈر عطاری صاحب نے ہمیں کھانے پینے کی کسی بھی بڑی عیاشی سے محروم رکھا ہوا تھا، شاید وہ سمجھتے تھے کہ ’’بھوکے شیر زیادہ اچھا لڑتے ہیں۔‘‘

خیر ایک ڈیڑھ گھنٹے تک ہم روانگی کے لیے کمر بستہ تھے۔ اب آنکھوں کے سامنے ورتھم پاس تھا اور ہم بے خودی کے عالَم میں چلتے جا رہے تھے۔ آج بھی پورٹر اور عطاری صاحب ’’اڑن چھو‘‘ ہوگئے۔

آج کم از کم کسی کے راستہ بھولنے کا امکان نہ تھا، لیکن چلنے میں کافی دشواری ہو رہی تھی کیوںکہ چڑھائی بھی تھی اور برف بھی بار بار دھنسا رہی تھی۔ بہت جلدی سانس پھولنے لگ جاتی اور بار بار سانس درست کرنے کے لیے رکنا پڑتا تھا۔

یہاں پر چاروں طرف برف پوش چوٹیاں بہت شان دار منظر پیش کر رہی تھیں۔ میں زندگی میں پہلی بار اپنے آپ کو دنیا کی چھت پر بیٹھا محسوس کر رہا تھا۔ میں اپنے وہاں پہنچنے کے احساسات کبھی بھی قلم بند نہیں کرپاؤں گا۔ بس سمجھ لیں الفاظ ہی نہیں مل پائے اس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے۔

نصیر بھائی نے کمال مہارت سے دوسری طرف اترنے کے انتظامات شروع کردیے۔ تب میں نے تھوڑا آگے ہو کے پاس کی دوسری طرف جھانکا اور جو کچھ دیکھا وہ خوف ناک تھا۔ بس ایسے لگ رہا تھا جیسے ’’برج العرب‘‘ کی آخری منزل کی کھڑکی سے نیچے جھانک لیا ہو۔

میں سمجھنے سے قاصر تھا کہ نیچے کیسے جایا جا سکتا ہے؟ تھوڑی دیر بعد دو لڑکوں کی طبیعت بھی خراب ہونے لگی کیوںکہ ہم 5000 میٹر سے زیادہ بلندی پر تھے اور پہاڑوں کی سب سے بڑی بیماری height  لگنے کے امکانات کافی زیادہ تھے۔

نصیر رسی کو جلدی جلدی دوسری طرف لٹکا رہا تھا اور ساتھ ہی اس کو محفوظ بنانے کے لیے مخصوص گرہیں لگا رہا تھا۔ آج ہمیں پہلی بار نصیر کی پیشہ ورانہ مہارت کا درست اندازہ ہورہا تھا۔

آدھے گھنٹے میں اسٹیج تیار تھا۔ اب ایک بندے کو رسی سے باندھا جاتا اور پاس کی منڈیر سے دوسری طرف اتار دیا جاتا جہاں پر ایک چھوٹا سے پلیٹ فارم تھا، جہاں بمشکل کھڑا ہوا جا سکتا تھا۔ ایک ممبر وہاں لینڈ کرتا اور رسی کھول دیتا۔ نصیر رسی اوپر کھینچ کے اگلے بندے کو باندھ کے نیچے بھیج دیتا۔ سب سے عجیب طریقے سے میں نے لینڈ کیا۔

نصیر بھائی کی ہدایت تھی کہ آرام آرام سے نیچے اترنا ہے میں آہستہ آہستہ خود ہی رسی چھوڑوں گا، لیکن میں یہاں بھی پھسل گیا اور سلائیڈ لیتا نیچے پہنچ گیا۔ تقریباً تیس پینتیس منٹ میں سب دوسری طرف پہنچ گئے اور اب اصل امتحان شروع ہوا۔۔۔ توازن قائم رکھ کے نیچے اترنے کا۔ ہر قدم پر ہم منہ کے بل گرنے لگتے تھے۔

پاؤں کے نیچے برف اور گارہ تھا۔ رکتے تھے تو دھنستے تھے چلتے تھے تو گرتے تھے۔ تا حد نگاہ اترائی ہی اترائی تھی۔ 11 بجے کا وقت ہوگا، سورج کی گرمی سے برف پگھل کے نرم ہو رہی تھی۔ ہم سے دور کافی جگہوں سے برفانی تودے نیچے گررہے تھے۔

ٹریکر کلائمبر بہ خوبی جانتے ہیں کہ یہ برفانی تودے کتنی بڑی مصیبت کا باعث بن سکتے ہیں۔ اب سب کی پھرتیاں ختم ہوگئی تھیں اور ہر کوئی احتیاط سے نیچے اتر رہا تھا۔ عطاری صاحب جیسا کہنہ مشق ٹریکر سب سے پیچھے تھا، جب کہ میں اپنی نالائقیوں کی وجہ سے کافی آگے تھا۔ بعض اوقات اناڑی ہونا بھی نعمت ہوتا ہے۔

پھر ہمارے بالکل اوپر سے ایک برفانی تودہ ہماری طرف دوڑ پڑا۔ شور مچ گیا کہ ایک طرف ہٹ جاؤ۔ سب جلدی جلدی ایک طرف ہوگئے اور وہ ہمارے پاس سے گزرتا ہوا نیچے چلا گیا۔ یہ کوئی کمی کمین سا برفانی تودہ تھا لیکن اس کے ساتھ بھی چھوٹے چھوٹے پتھر بڑی رفتار کے ساتھ نیچے آئے۔ اگر ہم اس کی زد میں آ جاتے تو یہ بھی کام تمام کرنے کے لیے کافی ثابت ہوتا۔ اب نصیر بھائی ہدایات دے رہے تھے کہ جلدی جلدی نکلو یہاں سے کیوںکہ اب برف کافی پگھل رہی ہے اور تودے گرنے کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔

ہمارا تو اپنا دل چاہتا تھا کہ یہاں سے بھاگ جائیں لیکن بھاگ سکتے تو بھاگتے! تھوڑی سی رفتار تیز کرتے تو لگتا تھا کہ بس گئے کہ گئے۔ تقریباً ایک گھنٹے کی منہ کے بل گرتی اترائی کے بعد تھوڑا ہم وار راستہ آ گیا۔ کم از کم برفانی تودوں کی زد سے دور نکل آئے۔ ادھر بیٹھ کے تھوڑی دیر آرام کیا کھجور کھائی اور ’’لوہے کے چنے‘‘ چبائے۔

سب خیریت سے دوسری طرف پہنچ گئے۔ نالے کی دوسری طرف کی دیوار بہت عمودی تھی اور اس پر کیچڑ اور پتھروں کی سلائیڈ تھی۔ ہر قدم پر پاؤں کے نیچے سے زمین کھسکنے لگتی۔ سب جلدی جلدی یہاں سے نکلنا چاہتے تھے لیکن ایک منظر نے مجھے جکڑ لیا۔ نالے کے دوسری طرف جہاں راستہ اچانک ختم ہوگیا تھا وہاں سے ایک خوب صورت آبشار نکل رہی تھی۔ ہم بس دور سے ہی اسے دیکھ سکتے تھے۔

یہاں سے تھوڑا آگے چلے تو ایک شدید اترائی آ گئی۔ پہلے گیئر میں بریکیں کھینچ کے نیچے جانا پڑ رہا تھا تب نصیر بھائی نے نیچے جانے کا ایک طریقہ سکھایا۔ انہوں نے کہا کہ اترائی میں ہمیشہ اپنے جسم کا وزن پیچھے کی طرف رکھو اور اسٹک بھی پچھلی طرف گاڑو، جس ہاتھ پر وزن دے کے اسٹک کو گاڑو اس کے مخالف پاؤں سے نیچے اترو۔ اب چوںکہ اس پاؤں پر وزن بلکل نہیں ہوگا تو نیچے گرنے کا خطرہ نہیں رہے گا۔ یہ تیکنیک بعد میں بہت کام آئی۔

اس اترائی سے اترنے کے بعد ہم لوگ اپنے اپنے فہم کے حساب سے دو پارٹیوں میں تقسیم ہوگئے۔ کچھ لوگ نالے کے اسی طرف رہ کے سیدھے چلے گئے لیکن میں اور راشد ایک گلیشیئر کے اوپر سے نالا عبور کرگئے۔

یہ گلیشیئر کافی خطرناک تھا۔ بار بار پاؤں پھسلتے اور دھنستے تھے اور ڈر لگتا تھا کہ برف ٹوٹ کے نالے میں ہی نہ گرجائیں۔ اسے کافی ڈرتے ڈرتے عبور کیا اور نالے کی دوسری طرف چلنے لگے۔ جب آگے گئے تو یہ دیکھ کے کافی شرمندہ ہوئے کہ دوسری پارٹی نے نالا بہت آرام سے عبور کیا اور ہمارے ساتھ مل گئی۔

تھوڑا آگے پہنچے تو شکار گاہ کیمپ سائٹ آ گئی۔ یہ قیام کرنے کے لیے مناسب سی جگہ تھی۔ تھوڑی دیر رک کے آرام کیا۔ ایک مختصر میٹنگ ہوئی جس میں طے ہوا کہ ہم آج رات اگلی کیمپ سائٹ حراکیش پر قیام کریں گے۔ تھکاوٹ ضرور ہوئی تھی لیکن سب لوگ مزید پیش قدمی کے لیے پُرجوش تھے۔

شکار گاہ سے نکلنے کی دیر تھی کہ حالات پھر سے خراب ہونے لگے۔ آگے لینڈ سلائیڈ والا ایریا تھا اور تاحد نگاہ پتھر بکھرے ہوئے تھے۔

یہ ویسے ہی پتھر تھے جہاں ہر قدم پر موچ آنے کا ڈر رہتا۔ یہ کسی بھی ٹریک میں میری ناپسندیدہ صورت حال ہوتی ہے۔ آدھا گھنٹہ ہی ان پتھروں پر ناقابل برداشت تھا۔ اب سب ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہے تھے۔ آگے ایک کیمپ سائٹ آگئی۔ حیران تھے کہ اتنی جلدی اور اتنی اچھی کیمپ سائٹ۔

15 منٹ چلے ہوں گے کہ نالے کے ساتھ دونوں طرف راستہ مسدود ہوگیا۔ سب بہت بددل ہوئے کی اب یہ کیا نئی مصیبت آگئی۔ تب کسی نے مشورہ دیا کہ رات ادھر ہی قیام کرلیتے ہیں، کیوںکہ ابھی نالے کا پانی منہ زور ہے۔ صبح کے ٹائم پر کم ہوگا تو شاید نالے کے ساتھ ہی راستہ مل جائے۔ سب کو تجویز بھلی لگی۔ تب میں نے کہا اگر رکنا ہی تو پیچھے کیمپ سائٹ پر چلتے۔ وہ کافی خوب صورت جگہ ہے۔ یہ تجویز بھی سب کو بھاگئی۔

اس ٹریک میں پہلی بار پسپائی اختیار کرتے ہوئے ہم واپس ممکنہ کیمپ سائٹ پر پہنچ گئے۔ خیمہ میٹھے پانی کے ایک چشمے کے قریب لگایا گیا۔ آگے ساتھ ہی بڑے بڑے پتھر تھے۔ جن کے پیچھے حوائج ضروریہ سے فراغت کا بھی بہترین انتظام تھا۔ اتنا قریب پینے کا پانی اور ’’اٹیچڈ واش روم‘‘ اس ٹریک میں پہلی بار ملا تھا تو یہ کسی نعمت سے کم نہ تھا۔

رات خیریت سے گزری۔ صبح ناشتہ کر کے روانگی ہوئی۔ پہلی آزمائش میں سرخ رو ٹھہرے، لیکن اس کے بعد ٹام اینڈ جیری کا کھیل شروع ہوگیا۔

کبھی نالے کے اِدھر کبھی اُدھر۔ کبھی یہاں ڈوبے وہاں نکلے کبھی وہاں ڈوبے یہاں نکلے، جیسے حالات تھے۔ کئی ڈیتھ ڈراپ آئے کئی ڈیتھ اسٹریٹس آئیں۔ حتٰی کہ وہ مقام آیا جہاں ایک اور بند گلی تھی۔ گائیڈ آگے پریشان کھڑا اور ہم سب پیچھے ’’ٹکٹ کٹا کے لین بنا کے‘‘ کھڑے تھے اور ایک بار پھر بلو کے گھر کا راستہ گم ہوچکا تھا۔ کافی سوچ بچار ہوئی لیکن پلے کچھ نہی پڑا۔

پھر گائیڈ بُک کھولی گئی، اس میں لکھا تھا نالا ایک بڑی چٹان سے پار کرکے بائیں طرف جانا ہے۔ بڑی چٹان ڈھونڈی گئی۔ وہاں منہ کے بل گرتے ہوئے پہنچے۔ چٹان عبور کرکے دوسری طرف پہنچے تو راستہ اتنا خوف ناک تھا کہ میں نے دوبارہ نصیر بھائی کا ہاتھ پکڑ لیا حالاںکہ میں پچھلے دو دن سے ’’ٹارزن‘‘ بنا پھر رہا تھا۔

اس مشکل مقام سے گزرے تو آگے صنوبر کے درختوں کا جُھنڈ آ گیا۔اس ویرانے میں یہ کافی بھلا لگ رہا تھا لیکن اس کے بعد شدید ترین اترائیوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔ ایک سے بڑھ کر ایک خطرناک اترائی تھی اور پھر نالے پر ایک پُل آیا۔

یہ انسانی ہاتھوں کی پہلی نشانی تھی ہم نے کئی دن کے بعد دیکھی۔ اس کے بعد پانی کی پائپ لائن کے ساتھ صنوبر کے ایک بڑے ذخیرے تک پہنچ گئے۔ گائیڈ بک میں لکھا تھا یہ زیارت کے بعد پاکستان میں صنوبر کے درختوں کا دوسرا بڑا ذخیرہ ہے۔ یہ سلسلہ حراکیش کیمپ سائٹ تک جاری رہا۔

جی دوستو! ہمارے ٹریک کا چھٹا روز تھا اور ہم حراکیش کیمپ سائٹ پہنچ گئے تھے۔ یہ بھی بڑی افسانوی قسم کی جگہ تھی۔ ایک شان دار چراگاہ اور یہاں آئیڈیل کیمپ سائٹ کی ساری خوبیاں موجود تھیں۔

وسیع و عریض سرسبز میدان اور پانی کی چھوٹی چھوٹی نالیاں ہر طرف رواں دواں تھیں۔ ارد گرد کے پہاڑ اپنی بھرپور رعنائیاں بکھیر رہے تھے۔ یہاں بھی کچھ پہاڑamerican red canyons  سے مشابہت رکھتے تھے۔ یہاں پر بھی کچھ سمر سیٹلمنٹس موجود تھیں۔ سب بہت خوش تھے، کیوںکہ پتا تھا کہ اب صرف ایک اسٹیج باقی ہے۔

یہ دو قدم پہ آسماں۔۔۔بڑھے چلو بڑھے چلو

تقریباً ایک گھنٹا آرام کرکے آخری اسٹیج یعنی رامنج کی طرف کوچ ہوا۔ حراکیش کے میدان سے نکلتے ہی ایک خطرناک قسم کی اترائی سے پالا پڑگیا، جو کہ ہمارے لیے غیرمتوقع چیز تھی۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ اب ڈانس کرتے کرتے رامنج پہنچ جائیں گے، لیکن اب جشن فتح کا رنگ تھوڑا پھیکا پڑگیا۔ تھوڑا اور آگے چلے تو ایک ڈیتھ اسٹریٹ آ گئی۔

اس بار تو چہرے کا رنگ بھی خاصا پھیکا پڑگیا۔ اگلے آدھے گھنٹے میں جب مختلف قسم کی ایسی ’’ذلالتوں‘‘ سے دو چار ہوئے تو جشن فتح کا نشہ ہرن ہو گیا اور ہم پھر سے بھیگی بلی بن گئے۔

تھوڑی دیر تک تو میں نے بغیر کسی کی مدد کے مشکل مقامات کو عبور کیا لیکن پھر اپنی جعلی بہادری کو بالائے طاق رکھ کے نصیر بھائی کا مضبوط ہاتھ تھام لیا۔

میں ایک بات بتاتا چلوں کہ ہمارے ٹریک کے آخری 4 دن میں کوئی 15 منٹ ایسے نہیں گزرے جن میں کوئی مشکل مقام نہ آیا ہو۔ یہ حسرت ہی رہی کہ کبھی آدھا گھنٹہ ہی سکون سے ٹریک کر سکیں۔ ہمارے ٹریک میں بوریت کی حد تک یکسانیت تھی۔

ابھی جس مشکل سے گزرے ہیں چند منٹ بعد پھر ویسی ہی مشکل سامنے کھڑی ہوتی اور بیس منٹ بعد پھر ویسی ہی مصیبت۔ سچی بات ہے میں ہر طرح سے اس کو ایک ٹریک ماننے سے انکاری ہوں، کیوںکہ ٹریک کا مطلب تو باقاعدہ راستہ ہوتا ہے۔

کچھ دیر بعد راستے میں ایک خوب صورت ندی آئی جس کا پانی ٹھنڈا اور شیریں تھا۔ وہاں سے سیر ہو کے پانی پیا۔ خدا کا شکر ادا کیا کیوںکہ یہی چند لمحات ہوتے تھے جب ہم ’’غم دوراں‘‘ کی تلخی بھول جاتے تھے۔ تھوڑی دیر بعد پھر اپنی اوقات میں ہوتے تھے، اللّہ توبہ کرتے اور ہمیشہ صراط مستقیم پر چلنے کا عہد کرتے ہوئے۔ کاش انسان ہمیشہ اپنی اوقات میں ہی رہے۔

اب ہم کافی دیر سے ایک بلند پہاڑی پگڈنڈی پر چل رہے تھے اور نیچے وحشی نالا چنگھاڑتا ہوا ہمیں اپنے پاس بلاتا تھا۔ یہ پگڈنڈی ہر سو میٹر پر سلائیڈ کی وجہ سے گری ہوئی تھی، جیسے کسی نے باقاعدہ hurdle race کا ٹریک بنایا ہو اور پھر پتھروں کی سلائیڈ پر ہر قدم نیچے کی طرف کھسکتا تھا اور ہم تیزی سے آگے بڑھ جاتے تھے۔

ہر جگہ ہی ایسی ہوتی کہ غلطی کا چانس نہ ہونے کے برابر ہوتا۔ پھر ایک ایسی جگہ آ گئی جہاں سے کافی بڑا موڑ بھی تھا اور تقریباً چالیس فٹ پگڈنڈی سلائیڈ کی نظر ہو چکی تھی۔ یہاں پر نصیر بھائی نے ہر قدم آئس ایکس کی مدد سے کھود کے بنایا۔ پھر بھی کچھ جگہ سے مٹی ٹکتی ہی نی تھی۔ یہاں سے گزرنے میں بھی کافی خجل خواری ہوئی۔

مزید ایک گھنٹے کی ذلت و رسوائی کے بعد ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں سے پانی کی ایک پائپ لائن نکل کر رامنج گاؤں تک جا رہی تھی۔

تھوڑا اطمینان نصیب ہوا کہ اب انسانی آبادی کے کافی قریب پہنچ گئے ہیں لیکن اس پائپ لائن کے ساتھ بھی ہر سو قدم پر ایک عدد سلائیڈ ’’فرض عین‘‘ سمجھ کے ہمارے استقبال کے لیے موجود ہوتی۔ اب ہمیں گاؤں نظر آنا شروع ہوگیا۔ منزل سامنے تھی لیکن پھر بھی عذاب ختم ہونے کا نام نہ لیتا تھا۔ اب ایک خوف شدت سے ستا رہا تھا کہ اتنا قریب آکے کوئی حادثہ نہ پیش آجائے۔ ایک شعر بار بار ذہن میں گھوم رہا تھا۔

آخری آدھا گھنٹہ میرے لیے سارے ٹریک پر بھاری گزرا۔ مجھے تو یہ گاؤں بعض اوقات سراب یا دھوکا لگنے لگتا تھا، لیکن ہر بات پر بھاری ایک ہی بات۔۔۔ جینوں اللّہ رکھے اونہوں کون چکھے۔

ہم رامنج میں داخل ہوچکے تھے۔ یہ ایک خوب صورت پہاڑی گاؤں تھا، لیکن اس کی وجہِ شہرت کچھ اور ہے۔ ماؤنٹ ایورسٹ کو سب سے پہلے سر کرنے والے پاکستانی نذیر صابر اسی گاؤں کے سپوت ہیں۔ میں سمجھتا ہوں ایسے ٹریک کا اختتام ایسی ہی یادگار جگہ پر ہونا چاہیے تھا۔

میں زندگی میں پہلی بار خود کو معتبر ٹریکر سمجھ رہا تھا۔ اس کے بعد رامنج سے ساہیوال کا سفر دو اور دو چار کے کلیے کے مطابق طے ہوا، لہٰذا اس کی کوئی تفصیل لکھنا ضروری نہیں۔

 

The post ورتھم پاس مہم appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/5QvO1PE
Previous Post Next Post

Contact Form