زندہ آئین پاکستان

آئین کسی ریاست کا اعلیٰ ترین قانون ہوتا ہے‘ ایک ایسا قانون جو کسی مملکت کے اندر روبہ عمل تمام قوانین‘ قواعد و ضوابط اور نظم ریاست کی حدود کو طے کرتا ہے۔

خالق کائنات نے اپنی سب سے اعلیٰ تخلیق یعنی انسان کے بارے میں کہا ہے کہ جب میں اسے بے پناہ طاقت اور اختیار عطا کر دیتا ہوں تو اس میں استغنا پیدا ہو جاتا ہے۔

یہاں استغنا کے معنی اللہ کی رضا کے لیے لذاتِ دنیا سے کنارہ کشی نہیں بلکہ معاشرے میں آباد دوسرے لوگوں کی محتاجی سے مُبرا ہونا ہے۔ یہ ایک ایسی نفسیاتی کیفیت ہے جس میں انسان یہ تصور کرنے لگتا ہے کہ اسے اپنی زندگی گزارنے کے لیے کسی اور کی حاجت نہیں‘ یہ خود مختاری اور خود کفالت کا ایک ایسا تصور ہے جو دوسرے انسانوں کو حقیر اور بے وقعت سمجھنے کی حد تک لے جاتا ہے۔

انسان میں شُکر گزاری اور حلیمی باقی نہیں رہتی اور رویہ تکبر میں شرک کو چھونے لگتا ہے۔ انسان کو سو فی صد اس کی اپنی مرضی پر نہیں چھوڑا جا سکتا، کیونکہ اگر ایسا کیا جائے تو انسان میں شَر کی طرف مائل ہونے کا رجحان قدرتی طور پر موجود ہے۔

تخلیق انسان کے وقت فرشتوں کا رب تعالیٰ سے مکالمہ بھی اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ مخلوق زمین پر فساد برپا کرے گی۔ لیکن یہ اس لیے ضروری تھا کہ دنیا میں اچھائی اور برائی میں اپنی مرضی سے انتخاب کرنے کا امتحان ہی انسان کو درپیش ہے اور اسی کی بنیاد پر اس کی حیثیت کا فیصلہ کُن تعین ہوگا۔

اس کے باوصف یہ بھی ضروری ہے کہ معاشرے کی عمومی تنظیم اور نظم و ضبط کا اہتمام لازمی کیا جائے تاکہ سماجی ڈھانچہ برقرار رہے اور زندگی کے سفر میں رواں دواں خلقت کے باہمی ٹکراؤ کے خلاف عمل کرنے والی کوئی برترقوت موجود رہے۔ یہ برتر قوت قوانین قواعد اور ضوابط ہوتے ہیں جن پر ریاستی انتظامیہ اور نظام انصاف عملدرآمد کو یقینی بناتے ہیں۔

پاکستان اور اس جیسے بہت سے اور ممالک جہاں پر لوگ عموماً حقوق اور فرائض کے بارے میں ضروری معلومات سے ہی محروم ہیں وہاں پر لاکھوں لوگ محض اس لیے استحصال کا شکار ہیں کہ انھیں یہی نہیں معلوم کہ ریاست کی طرف سے انھیں کیا کچھ حاصل ہے اور اس کا تقاضا کس سے، اور کیسے کرنا ہے۔

ایسے معاشروں میں کروڑوں انسان لاعلمی کی سزا بھگت رہے ہیں اور ایک قلیل تعداد میں سرکاری اور غیرسرکاری کارندے‘ سیاست دان اور موقع پرست اس صورت حال سے مسلسل فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ہمارے ساتھ ایک اور بڑی زیادتی یہ ہوئی کہ قیام پاکستان کے بعد آئین سازی کو ’جسے سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہونی چاہیے تھی‘ نظرانداز کیا گیا۔

اس تساہل میں پاکستانی اشرافیہ کے ذاتی مفادات پنہاں تھے کہ کوئی ایسا قانونی ڈھانچہ ہونا ہی نہیں چاہیے جو ان کی من مانیوں کے سامنے حائل ہو۔ جب آئین بن گیا تو اس کے ساتھ ہی اس کی پامالی کا سلسلہ شروع ہو گیا اور لوگوں کے ذہنوں میں یہ تصور راسخ کر دیا گیا کہ آئین کوئی برتر دستاویز نہیں ہوتی، اسے کس بھی وقت اُٹھا کر ردی کی ٹوکری میں پھینکا جا سکتا ہے۔

ہماری اشرافیہ نے شعوری طور پر اس بات کو کوشش کی کہ پاکستان کے عوام دستوری اصولوں اور قواعد کے بجائے شخصیات اور عہدوں کے شہنشاہانہ رویوں کے غلام بن کر رہیں۔ ہم ایک ایسی بدقسمت قوم کے افراد ہیں جہاں دین کو اس کی کاملیت اور مکمل حالت میں پیروی کے قابل سمجھا گیا نہ ہی آئین کو۔ میں روزنامہ ایکسپریس میں طویل عرصے سے صحافت اور سیاسیات کے یونیورسٹی طلبا و طالبات کی انٹرنشپ پر مامور ہوں۔

ان سیکڑوں طلباء میں چند ایک ہی ایسے ہوں گے جنھیں آئینی اور عام قوانین میں فرق معلوم تھا، یہی وہ بات ہے جس سے ہمارے بالادست طبقات کو اطمینان رہتا ہے۔ جس قدر جہالت ہوگی اسی قدر وہ محفوظ رہیں گے، ان سے سوال کرنے کا کلچر ہی وجود میں نہیں آئے گا۔

ہمارے کارپردازان ریاست کے اس رویے کا ایک بڑا ثبوت ہمیں انٹرنیٹ پر آئین کی پیشکش کی صورت میں نظر آتا ہے۔ ہماری اسمبلیوں کی ویب سائٹس پر بدترین کتابت میں آئین کے صفحات کی تصویریں کھینچ کر اپ لوڈ کی ہوئی تھیں۔ یعنی آپ ویب سائٹ پر جائیں اور ایک ایک صفحہ پلٹتے جائیں یا فہرست میں اپنی ضرورت کا صفحہ نمبر دیکھیں پھر کس نہ کسی طرح وہاں پہنچیں اور اپنی ضرورت کی شق پڑھیں۔

یہ انتہائی تکلیف دہ صورت حال تھی۔ اس کا خیال بھی ہمارے سب سے پسماندہ صوبے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگوں کو آیا کہ  ہمارے معاشرے اور نظم ریاست میں تو آئین اپنی نیم مردہ شکل میں سانس لے رہا ہے، کم از کم ڈیجیٹل معلومات کی دنیا میں تو زندہ حالت میں نظر آئے۔ اس منصوبے میں جامعہ بلوچستان نے کلیدی کردار دا کیا۔

پروگرام منیجر ریڈیو پاکستان محمد عاطف نے اس ڈیجیٹل فارمیٹ کا بنیادی خیال پیش کیا تھا۔ انھوں نے ہی آئین کا اردو انگریزی متن ترتیب دیا۔ ڈائریکٹر آئی ٹی جامعہ بلوچستان محمد سلال کھوسہ نے ڈیٹا بیس پروگرامنگ کی۔ جامعہ بلوچستان کے سافٹ ویئر انجینئر محمد حسین خجک نے ڈیزائننگ کا کام انجام دیا اور نگرانی کے فرائض وائس چانسلر ڈاکٹر شفیق الرحمن کے انجام دیے۔ اسے اب باقاعدہ عوام الناس کی رہنمائی کے لانچ کر دیا گیا ہے۔

آپ http://cop.uob.edd.pk پر چلے جائیں تو آپ کو آئین پاکستان انگریزی اور اردو زبانوں میں ملے گا۔ یہ آئین زندہ صورت میں آپ سے مکالمہ کر سکتا ہے۔ آپ کئی طرح سے مطلوبہ معلومات تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔

شق نمبر معلوم ہے تو وہ لکھیں شق سامنے آ جائے گی۔ ایک موضوع پر تمام شقیں درکار ہیں تو موضوع لکھ دیں۔ ضمیمے درکار ہیں تو وہ الگ سے مل جائیں گے۔ترامیم سے آگاہی چاہیے تو وہ الگ سے مل جائیں گی۔

پھر یہ ہے کہ کوئی نئی ترمیم ہوتی ہے تو وہ اسی وقت اپ ڈیٹ ہو جائے گی۔ آئین کے طالب علموں‘ وکلائ‘ صحافیوں اور محققین کے لیے یہ بلوچستان یونیورسٹی کی بہت بڑی خدمت ہے۔ اس سے ایک اور بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ صرف حکومتوں پر انحصار کرنے والی قومیں بہت پیچھے رہ جاتی ہیں۔

The post زندہ آئین پاکستان appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/Agye5E9
Previous Post Next Post

Contact Form