غیرقانونی سرگرمیوں کا خاتمہ اور معاشی استحکام

آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی زیر صدارت کور کمانڈرز کانفرنس کے اجلاس میں شرکا نے اس عزم کا اظہار کیا کہ معیشت اور سرمایہ کاری کو نقصان پہنچانے والی غیر قانونی سرگرمیوں کے خاتمے کے لیے حکومت کی مکمل مدد کی جائے گی۔

ریاست دہشت گردوں، سہولت کاروں اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے والوں سے مکمل طاقت سے نمٹے گی، کانفرنس کے شرکاء کو قومی سلامتی کو درپیش چیلنجز اور بڑھتے خطرات کے جواب میں حکمت عملی پر بریفنگ دی گئی۔

بلاشبہ مارکیٹ کو کنٹرول کرنے کے اقدامات پر عمل درآمد اور ذمے داروں کے خلاف کارروائیاں شروع کرنے کے بعد انٹر بینک مارکیٹ پرسکون ہوگئی ہے۔ امید ہے اس طرح ترسیلات زر بھی قانونی ذرایع سے آنا شروع ہو جائیں گی۔

اس وقت ملک کی 80 فیصد تجارت غیر قانونی طریقے سے ہو رہی ہے جس نے پاکستان کی معیشت کو مکمل طور پر برباد کر دیا ہے اور ٹیکس کلیکشن نہیں ہو رہی ہے اور ملکی خزانہ بالکل خالی ہوگیا ہے۔ معاشی ماہرین روز مطالبہ کررہے ہیں کہ ڈالر کی غیر قانونی ترسیل بندکی جائے بارڈرز سے جو ڈالر باہر جا رہا ہے اسے روکا جائے۔

اسی طرح ایک رپورٹ کے مطابق ڈالر کی قدر بڑھنے کی وجہ مصنوعی ہے، یعنی ڈالر خرید کر ذخیرہ کیا جا رہا ہے اور باہر بھیجا جا رہا ہے اور قلت پیدا کی جا رہی ہے تاکہ ڈالر مزید مہنگا ہو۔ اس وقت پاکستان کی مارکیٹ مکمل طور پر بلیک مارکیٹ میں تبدیل ہوچکی ہے۔

اس لیے ملکی معیشت ختم ہونے کے دہانے پر کھڑی ہے اور ہمیں ہر وقت قرضوں کا منہ دیکھنا پڑ رہا ہے، ریاست کنگال ہوگئی ہے اس بلیک مارکیٹ کی وجہ سے مزدور کو تنخواہ کم مل رہی ہے اور صنعتی و پیداواری یونٹس بند ہونے سے بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔

ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ کو روکنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے دباؤ کے بعد حکومت پاکستان نے تیل کی اسمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن کا حکم دیا کچھ اسمگلروں کا مبینہ طور پر عسکریت پسند گروپوں یا مجرمانہ نیٹ ورکس سے تعلق ہے جو تیل کی اسمگلنگ سے حاصل ہونے والے منافع کو اپنی سرگرمیوں کی مالی معاونت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

ایران اسمگل شدہ تیل کا بنیادی ذریعہ ہے، کیونکہ اس کے پاس تیل کے وافر ذخائر ہیں اور وہ اپنے گھریلو صارفین کو رعایتی قیمتوں کی پیشکش کرتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایران کو ہر سال تقریباً 4 بلین ڈالر کا نقصان اسمگلنگ سے ہوتا ہے، حکام نے مبینہ طور پر ایران کے ساتھ سرحد پر تیل کی اسمگلنگ پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں ۔

ایران سے پاکستان کے راستے اسمگل ہونے والے تیل کی ایک اور منزل افغانستان ہے۔ افغانستان میں توانائی کی بہت زیادہ مانگ ہے، خاص طور پر اس کے دیہی علاقوں میں جہاں بجلی یا گیس تک رسائی نہیں ہے۔ اسمگل شدہ تیل جنریٹرز، ہیٹرز اور گاڑیوں کے لیے ایندھن کا سستا اور آسان ذریعہ فراہم کرتا ہے۔ تاہم، یہ افغان طالبان حکومت کے لیے ایک چیلنج بھی ہے، جو ٹیکس کی آمدنی اور توانائی کے شعبے پر کنٹرول کھو دیتی ہے۔

مزید یہ کہ اسمگل شدہ تیل کا کچھ حصہ دیگر مسلح گروہوں کے ہاتھ میں جاتا ہے جو اسے اپنی کارروائیوں کو طاقت دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ پٹرول کی اسمگلنگ سے فائدہ اٹھانے والے چند عسکریت پسند گروہوں میں بلوچستان کے کچھ گروہ، کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر ایسے عسکریت پسند گروپ ہیں جن کی سرحدوں سے غیر قانونی آمد و رفت جاری ہیں۔

ان گروہوں کے مختلف ایجنڈے اور اہداف ہیں، لیکن ان کا مشترکہ ہدف پاکستانی ریاست ہے۔ ان کے علاقائی اور بین الاقوامی قوتوں کے ساتھ بھی روابط ہیں جو انھیں ہتھیار، تربیت اور فنڈز فراہم کرتے ہیں، وہ اسمگل شدہ تیل کے ہر لیٹر پر ٹیکس یا فیس (بھتہ) وصول کرتے ہیں جو ان کے زیر اثر علاقوں سے گزرتا ہے۔

وہ تیل کے تاجروں اور ٹرانسپورٹرز کے ساتھ ساتھ دیگر اسمگلروں سے بھی رقم وصول کرتے ہیں جو منشیات، ہتھیاروں یا انسانی اسمگلنگ کا کاروبار کرتے ہیں۔ مزید برآں، انھیں بیرونی ممالک سے مدد ملتی ہے جو علاقائی ممالک کو غیر مستحکم کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، یہ شبہ بھی ہے کہ ان کے بدنام زمانہ انٹیلی جنس ایجنسیوں سے روابط ہیں۔

یہ عسکریت پسند گروپوں کے لیے لائف لائن فراہم کرتا ہے جو پاکستان اور افغانستان دونوں کے ساتھ ساتھ ان کے علاقائی اور بین الاقوامی شراکت داروں کی اتھارٹی اور قانونی حیثیت کو چیلنج کرتے ہیں۔ اس طرح تیل کی اسمگلنگ ایک پیچیدہ اور کثیر جہتی مسئلہ ہے جو پاکستان اور افغانستان کے استحکام اور ترقی کے ساتھ ساتھ ان کے ایران کے ساتھ تعلقات کو بھی متاثر کرتا ہے۔

اس کے لیے ایک جامع اور مربوط جواب کی ضرورت ہے جو نہ صرف قانونی اور ضابطے کے پہلوؤں پر توجہ دے بلکہ سماجی، اقتصادی اور سیاسی جہتوں کا بھی جائزہ لے۔ پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں کو بارڈر مینجمنٹ، کسٹم کے نفاذ اور معلومات کے تبادلے پر اپنے تعاون کو بڑھانے کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

انھیں ایران کے ساتھ باہمی طور پر فائدہ مند حل تلاش کرنے کی بھی ضرورت ہے جو اس کی خود مختاری اور مفادات کا احترام کرے۔

اسمگلنگ کی وجہ سے بلوچستان میں سریا بنانے والی صنعت تباہ ہوگئی ہے جس کے سبب ہزاروں افراد بے روزگار ہوگئے۔ ہمارے ملک کی گندم اور یوریا افغانستان اسمگل ہوتی تھی، اب تقریباً پچھلے دو دہائیوں سے ڈالر سمیت ہر سامان اسمگل ہو رہا ہے۔

عالمی جریدے بلوم برگ کے مطابق پاکستان سے یومیہ 50 لاکھ ڈالر افغانستان اسمگل ہو رہا ہے اور افغانستان نے پاکستانی کرنسی پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اسمگل ہونے والی اشیاء میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، جیسے آٹا، چینی، چاول، گوشت، ادویات، ٹیکسٹائل گارمنٹس وغیرہ شامل ہیں۔ یعنی صرف خام مال ہی نہیں تیار مال بھی غیر قانونی طریقے سے بھیجا جا رہا ہے۔ مصالحہ جات کی بڑے پیمانے پر اسمگلنگ جاری ہے اور اسمگل شدہ مصالحہ جات کراچی سمیت ملک بھر کے بازاروں میں بلا خوف سپلائی کیے جارہے ہیں۔

میڈیا رپورٹس اور سرکاری ذرایع کے مطابق تیل کی اسمگلنگ سے پاکستان کے قومی خزانے کو ماہانہ تقریباً 10.2 ارب روپے ریونیو کا نقصان ہوتا ہے جس سے یہ ترقیاتی اور فلاحی منصوبوں کے لیے انتہائی ضروری ریونیو سے محروم ہو جاتا ہے۔

یہ قانونی تیل کی صنعت کو بھی نقصان پہنچاتا ہے، جسے اسمگل شدہ مصنوعات سے غیر منصفانہ مقابلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو مارکیٹ میں کم قیمتوں پر فروخت ہوتی ہیں۔ اسمگل شدہ مصنوعات کی وجہ سے سرکاری ڈیزل کی فروخت میں زبردست کمی واقع ہوئی ہے، تیل کی اسمگلنگ فضائی آلودگی اور صحت کے لیے خطرات کا باعث بنتی ہے، کیونکہ اسمگل شدہ تیل کے معیار اور حفاظت کے معیارات اکثر مشکوک ہوتے ہیں۔

اسی طرح بلوچستان میں فروخت ہونے والا 80 فیصد سریا ایران سے بذریعہ اسمگلنگ، مس ڈیکلیئریشن اور انڈر انوائسنگ آرہا ہے۔ سیکیورٹی کی کمزور نگرانی کی وجہ سے اسمگل شدہ سریا اب لاہور، کراچی اور دیگر شہروں تک پہنچ چکا ہے۔

ایران اور افغانستان سے تقریبا 5 لاکھ ٹن سریا اسمگل ہو کر پاکستان کے مختلف حصوں میں آتا ہے، جو مقامی مینوفیکچررز کے لیے شدید جھٹکا ہے۔ غیر قانونی طریقے سے آنے والا سریا پاکستان کی کل پیداوار کا 10 فیصد ہے، تاہم اس لعنت کی وجہ سے قومی خزانے کو 25 ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ منی لانڈرنگ جیسے مسائل کے حوالے سے کیونکہ پاکستان اور ایران کے پاس اس مقصد کے لیے کوئی باضابطہ بینکنگ چینل نہیں ہے۔

مقامی صنعت پہلے ہی کرنسی کی بے قدری اور بُلند مالیاتی اور خام مال کی لاگت کے سبب مشکلات سے دوچار ہے، سریے کی اسمگلنگ نے انڈسٹری کی بقا کے مسائل پیدا کر دیے ہیں۔

خام مال کی قلت کی وجہ سے پیداواری سرگرمیاں رک گئی ہیں اور متعدد یونٹس اپنی گنجائش سے بہت کم پر کام کررہی ہیں۔ایرانی ڈیزل اور پٹرول کی اسمگلنگ کے علاوہ ایرانی سرف، صابن‘ چپل‘ گریس اور ڈامر سمیت درجنوں اشیاء اور افغان طورخم و چمن بارڈر سے ٹائرز کی اسمگلنگ سے قومی خزانے کو کم از کم 600ارب سالانہ سے زیادہ کا نقصان ہورہا ہے۔

اس ساری خرابی کی وجہ کیا ہے ہمیں یہ سوچنا چاہیے۔ اس مسئلے کا واحد حل ہے کہ ہم نئی معاشی پالیسیاں بنائیں۔ جو تجارت ہم چھپ کر اپنے پڑوسیوں کے ساتھ کر رہے ہیں اس کو قانونی شکل دیں اور نئے معاہدے کریں تاکہ ہم اس مشکل دور سے نکل سکیں ۔

اگر ہماری حکومت ایران اور افغان بارڈر سے اسمگلنگ کی روک تھام میں کامیاب ہوجاتی ہے تو ہمیں کسی قرضے کی قطعی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ ہماری معیشت میں انقلابی بہتری آجائے گی، بصورت دیگر ہم عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے کشکول لیے پھرتے رہیں گے ، حکومت اسمگلنگ کے مکمل خاتمے کو ممکن بنائے تو ملکی خزانے کو انقلابی فائدہ پہنچے گا۔

The post غیرقانونی سرگرمیوں کا خاتمہ اور معاشی استحکام appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/CyYjBXR
Previous Post Next Post

Contact Form