درپیش معاشی چیلنجز اور نگران حکومت

نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ ’’ امن وامان اور سرحدی صورتحال کے باوجود الیکشن التوا کا امکان دکھائی نہیں دے رہا۔‘‘ امریکی نشریاتی ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں انھوں نے مزید کہا کہ افغانستان کے ساتھ پاکستان کی تجارت باقاعدگی سے جاری ہے۔

البتہ غیرقانونی ٹرانزٹ ٹریڈ اور اسمگلنگ کے خلاف کارروائی ضروری ہے۔ افغانستان کے راستے وسط ایشیائی ممالک تک تجارت میں بہتری آرہی ہے۔ پاکستان سفارتی تنہائی کا شکار نہیں، ہر فورم پرکشمیر کا مقدمہ لڑیں گے۔

نگران وزیراعظم نے دوران انٹرویو صائب خیالات کا اظہار کیا ہے، نگران حکومت کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) کے نو ماہ کے عرصے پر محیط تین ارب ڈالر کے معاہدے کو برقرار رکھنا ہوگا۔

ویسے تو نگران وزیراعظم منصفانہ شفاف الیکشن کروانے کے لیے آتے ہیں لیکن اس بار ان کے کاندھے پر اور بڑی ذمے داریاں بھی ڈال دی گئی ہیں کہ قوم کو درپیش معاشی چیلنجز کا وہ کتنی باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں اور حل تلاش کرتے ہیں۔

آئی ایم ایف ڈیل کے بعد ڈیفالٹ سے بال بال بچنے والے ملک پاکستان کے لیے معاشی استحکام سب سے بڑا چیلنج ہے۔ معاشی اصلاحات سے پہلے ہی تاریخی مہنگائی اور شرح سود میں اضافہ ہوچکا ہے، ڈالر پاکستانی تاریخ میں پہلی بار 300 کے ہندسے کے قریب پہنچ گیا ہے۔

ڈالر کی قیمت میں یہ اضافہ غیر متوقع نہیں تھا اور نگران حکومت کے آنے سے پہلے اس امر کی پیشن گوئی کر دی گئی تھی کہ نئی حکومت کو درپیش چیلنجز میں سے سب سے بڑا چیلنج معاشی صورتحال کا ہوگا۔ ابھی ڈالر کی قیمتوں کا شور تھما نہیں تھا کہ پٹرولیم کی قیمتوں میں بھی اضافہ کر دیا گیا۔ پٹرول کی اس قیمت میں اضافے کی ٹائمنگ بہت اہمیت رکھتی ہے۔

ان دونوں اضافوں کی وجہ سے اب ملک میں مہنگائی دو آتشہ ہو جائے گی۔ ماہرین کے مطابق مہنگائی کا گراف بہت تیزی سے اوپر جائے گا۔ نگران حکومت کو چونکہ عوام کی عدالت میں نہیں جانا ہوتا، اس لیے آنے والے دنوں میں سخت فیصلے متوقع ہیں جن سے مہنگائی مزید بڑھے گی اور اس کا نزلہ نگرانوں پر ہی گرتا رہے گا۔

نگران حکومت نے 30 دن میں پٹرول 58 اور ڈیزل 56 روپے مہنگا کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں پاکستانی عوام کی مشکلات میں اضافہ حد سے بڑھ گیا ہ اور قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں۔

عوام دہائی دے رہے ہیں کہ ملکی تاریخ میں کبھی 30 دن میں پٹرول اور ڈیزل اتنا مہنگا نہیں ہوا، عوام نے اضافہ یکسر مسترد کر دیا ہے، ماہرین معیشت کہتے ہیں کہ اسٹیٹ بینک نے مانیٹری پالیسی میں مہنگائی بہ تدریج کم ہونے کا دعویٰ کیا تھا، لیکن اب پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی اور زیادہ بڑھ جائے گی۔

نگران حکومت نے عوام پر ایک اور اضافی بوجھ بھی ڈال دیا ہے، پٹرول کے فی لیٹر پر مارجن 88 پیسے بڑھا دیا ہے، پٹرول پر آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے مارجن میں فی لیٹر 47 پیسے اضافہ کیا گیا ہے جس سے آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کا پٹرول پر مارجن 6 روپے 47 پیسے ہو گیا۔

پٹرول پر ڈیلرز کے مارجن میں بھی فی لیٹر 41 پیسے کا اضافہ کیا گیا ہے، جس سے ڈیلرز کا پٹرول پر مارجن 7 روپے 41 پیسے ہو گیا ہے۔

ادھر نگران وزیر توانائی محمد علی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ بجلی بھی آہستہ آہستہ مزید مہنگی ہوگی، کے الیکٹرک کا ٹیرف ایک سال سے ایڈجسٹ نہیں ہوا ہے، جو اب ایک ساتھ ہوگا تو عوام پر بوجھ پڑے گا، بجلی سیکٹر کا نقصان 2500 ارب روپے ہے، ہر سال ہزار ارب روپے کا سود دینا پڑ رہا ہے، اس مسئلے کو حل کرنے میں مہینے نہیں، کئی سال لگیں گے۔

جون میں بحال ہونے والے امدادی پیکیج کے بعد آئی ایم ایف کے تین جائزوں میں سے کم از کم ایک جائزہ نگران حکومت کے دور میں ہوگا ،آئی ایم ایف پہلے ہی پالیسی کی سمت پر تمام سیاسی جماعتوں سے اتفاق رائے حاصل کرچکا ہے۔

350 ارب ڈالر کی ملکی معیشت آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ کے بعد بحالی کی راہ پرگامزن ہے لیکن معاشی اصلاحات نے پہلے ہی تاریخی افراط زر اور شرح سود کو بڑھاوا دیا ہے۔ نگران وفاقی وزیر خزانہ چند روز قبل کہہ چکی ہیں کہ حکومتی اخراجات کو کنٹرول، ریونیو بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں، اسمگلنگ کی روک تھام سے روپے کی قدر میں بہتری ہوئی۔

مہنگائی 38 سے 27 فیصد پر آگئی، کچھ مسائل ہیں لیکن ہم گھبرا نہیں رہے، مائیکرو اکنامکس انڈی کیٹرز معاشی بحالی کو ظاہر کر رہے ہیں، اقتصادی مشکلات ختم ہو رہی ہیں، زرمبادلہ کے ذخائر بھی بہتر ہو رہے ہیں۔

ٹیکس نیٹ کو نہیں بڑھایا گیا، جو لوگ ٹیکس نہیں دیتے انھیں ٹیکس نیٹ میں لائیں گے، آئی ایم ایف کے ساتھ جو ٹارگٹ طے پایا ہے اسے پورا کریں گے، ٹیکس ریونیو کے ٹارگٹ کو پاکستان کی خاطر پورا کرنا ہے، ٹیکس وصولی کے نظام کو بہتر اور آسان بنانے پر کام جاری ہے، مقامی انڈسٹری کو چلانے کے لیے درآمدات بھی بہت اہم ہیں۔

ملک کی معیشت جن حالات سے گزر رہی ہے اس میں نگران حکومت کو مضبوط اقدامات لینا پڑیں گے۔ نگران حکومت کو منصوبوں کے تسلسل اور دیگر ممالک کے ساتھ معاہدوں کا اختیار پہلے ہی مل چکا ہے اور ان ڈیلز کو حتمی شکل دینی پڑے گی۔ اگلے سال مارچ میں ملکی معیشت کو ایک اور چیلنج کا سامنا کرنا ہوگا کہ کس طرح آئی ایم ایف کے مطالبات پورے کریں۔

آئی ایم ایف کا معاہدہ پہلے ہی طے کر لیا گیا ہے لیکن اگر قیمتیں اس طرح بڑھتی رہیں تو اس کے لیے حکومت پر ہی الزام لگایا جائے گا۔ سب سمجھتے ہیں کہ عارضی حکومت اس سب کی ذمے دار نہیں کیونکہ سب پہلے ہی طے ہو چکا ہے۔

بلاشبہ معاشی عدم استحکام پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے اور آرمی چیف کی کوششیں مسائل سے دوچار معیشت کو بحال کرنے کے لیے ممد و معاون ثابت ہوں گی۔

قابلِ تعریف بات یہ ہے کہ آرمی چیف نے ملک کے تاجروں کو اکٹھا کیا اور اپنا کردار ادا کرنے پر آمادہ کیا۔ وہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) اور دیگر بین الاقوامی عطیہ دہندگان سے مالی صورتحال میں سہولت اور تعاون کے لیے بھی بات کر سکتے ہیں۔

یہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایف آئیز) پاکستان کو بعض شرائط پر قرضے اور امداد فراہم کرتے رہے ہیں جیسے کہ مالیاتی اصلاحات، ٹیکس وصولی اور شفافیت کی شرائط قابلِ ذکر ہیں۔ سابق حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کو ٹریک پر رکھنے کے لیے تمام اہم فیصلے کیے ہیں اور نگران حکومت کو بس پلان پر قائم رہنے کی ضرورت ہے۔ معیشت کو کوئی خطرہ نہیں کیونکہ نگران حکومت کو پاپولسٹ کے طور پر آنے اور آئی ایم ایف پروگرام کو پٹڑی سے اتارنے میں کوئی سیاسی دلچسپی نہیں۔

سیاسی استحکام اور انتخابات کا انعقاد نگران حکومت کے لیے چیلنجز ہیں حالانکہ اس میں زیادہ کردار الیکشن کمیشن کا ہے لیکن اس سب میں نگران سیٹ اپ کو مائنس نہیں کر سکتے۔ چونکہ انتخابات کا کام الیکشن کمیشن کا ہوتا ہے۔

اس لیے انھیں بڑا فیصلہ کرنے کی اجازت ہوتی ہے اور نہ ضرورت ہوتی ہے۔ الیکشن کمیشن کے کندھوں پر ایک بہت بڑی ذمے داری ہے کہ وہ وقت پر انتخابات کو یقینی بنائے، انتخابات میں تاخیر نہ ہونے کو یقینی بنانا ان کا کام ہے۔

خارجہ پالیسی کے تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کی خارجہ پالیسی اور طویل مدتی اتحادیوں کی تشکیل بہت اہم ہو چکی ہے۔ پاکستان کو ایسی خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے جس میں دشمن کم سے کم ہوں اور دوست سارے ہوں۔اس حکمت عملی کے تحت بھارت کے ساتھ بھی ورکنگ ریلیشنز قائم کرنے کے لیے کوششیں کی جانی چاہئیں۔

مقبوضہ کشمیر اور دیگر مسائل کو حل کرنا جنوبی ایشیا کی ترقی کے لیے انتہائی اہم ہے۔ افغانستان کے معاملات پر بھی گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ چین پاکستان کا اسٹرٹیجک پارٹنر اور معاشی خیر خواہ ہے لہٰذا ہمیں امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات تو قائم کرنے ہی ہیں لیکن چین کے ساتھ اپنے تعلقات مزید بہتر کرنے ہوں گے ۔

موجودہ صورتحال میں تمام ریاستی ادارے پاکستان کو درپیش چیلنجز کے حل میں مددگار ہونے کے لیے ہم آہنگی اور تعاون کرسکتے ہیں، انھیں سویلین حکومت اور معاشرے کے ذمے دار اور تعمیری شراکت دار کے طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ آج کی دنیا اقتصادیات اور کاروباری کی دنیا ہے‘امریکا اور چین کے درمیان مخاصمت بھی ہے لیکن اس کے باوجودان کے درمیان تجارت کا حجم مسلسل بڑھ رہا ہے۔

The post درپیش معاشی چیلنجز اور نگران حکومت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/MyreWUf
Previous Post Next Post

Contact Form