قائد اعظم کی علالت اور رحلت ایک تحقیقی اور واقعاتی جائزہ

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے انتقال کو  نصف صدی سے زیادہ گزر جانے کے بعد آج بھی نہ صرف عوام بلکہ بعض تعلیم یافتہ طبقوں میں بھی عموماً ایسے خدشات کا اظہار کیا جاتا ہے جن کی بنا پر یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح کی علالت اور بحالی صحت کی جانب ریاستی سطح پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی، جس کی بنا پر ان کی صحت گرتی چلی گئی اور بالآخر 11ستمبر 1948ء کو وہ انتقال کرگئے۔

یہ خدشات جہاں بظاہر افواہ طرازیوں کی پیداوار ہیں وہاں اس حقیقت کا بھی بین ثبوت ہیں کہ پاکستان کے عوام کو اپنے قائد سے شدید انسیت اور محبت ہے۔

اس کے علاوہ ایک اور وجہ یہ ہے کہ قائداعظم نے اپنی علالت اور صحت کی صورت حال کو نہ صرف ہمیشہ مخفی رکھا بلکہ اپنی عوامی اور قومی مصروفیت کو علالت کی بنا پر معطل نہیں ہونے دیا۔ ایک اور قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ہمارے ملک کے عوام میں تاریخی شعور اوّل تو ہے نہیں اور اگر ہے تو وہ مکتوبی نہیں ہے۔

یعنی اُن کی رسائی کبھی اُن تاریخی حقائق تک ہوئی ہی نہیں جو قائداعظم کی علالت کے حوالے سے کتابوں اور دستاویزات میں روپوش ہیں۔

ایسی صورت میں ضرورت اس بات کی ہے کہ مذکورہ حقائق کو سامنے لایا جائے تاکہ افواہ طرازیوں اور خدشات کا سلسلہ بند ہوسکے۔ میں نے اپنے پیشِ نظر مضمون میں انہی معروضی حقائق کا سرسری جائزہ لینے کی ایک کوشش کی ہے۔

قائد اعظم نے 72سال کی عمر پائی اور 11ستمبر1948 کو انتقال کرگئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ تقریباً ایک سال 72 دن حیات رہے۔ قائداعظم کے سوانح نگاروں کا خیال ہے کہ قائد اعظم 1934 سے وقفہ وقفہ کے ساتھ علیل رہنے لگے تھے۔

اس وقت ان کی عمر تقریباً 58 سال تھی گویا 58 سال سے لے کر 72 سال تک یعنی چودہ سال ان پر مختلف عوارض کے طویل اور مختصر حملے ہوتے رہے، لیکن انہوں نے ہمیشہ اس منزل تک پہنچنے کیلیے خود کو مستعد رکھا جو 14اگست 1948 کو پاکستان کی صورت میں سامنے آنے والی تھی۔

قائداعظم 25مئی1948ء کو آرام کی غرض سے کوئٹہ روانہ ہوئے، لیکن وہاں پر بھی آپ کی سرکاری اور غیرسرکاری مصروفیات جاری رہیں۔

امریکا میں متعین پاکستان کے سفیر اور تحریک پاکستان کے راہ نما مرزا ابوالحسن اصفہانی کے ایک خط کا جواب دیتے ہوئے آپ نے لکھا، ’’ آپ میری طرف سے متردنہ ہوں۔

مجھے کچھ معمول سے زیادہ کام کرنا پڑا اور اُس کا تاوان دینا پڑا، لیکن میں آپ کو اطمینان دلاتا ہوں کہ مجھے کوئی شکایت نہیں ہے۔ کوئٹہ میں کسی قدر آرام کرنے سے مجھے فائدہ ہوا ہے۔‘‘ یکم جولائی 1948 کو قائد اعظم اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کرنے کے لیے کراچی تشریف لائے۔

اس موقع پر وہ بہت دبلے اور بیمار نظر آرہے تھے، بلکہ ایک مرحلہ پر وہ لڑکھڑا بھی گئے، لیکن انہوں نے ایک باہمت شخص کی طرح خود پر قابو پالیا۔ اگرچہ اُن کی صحت مسلسل بگڑتی چلی جارہی تھی مگر وہ برابر اپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔ 7جولائی 1948ء کو آپ دوبارہ کوئٹہ روانہ ہوگئے اور کوئٹہ سے آپ کو زیارت منتقل کردیا گیا جو کوئٹہ کے مقابلے میں نسبتاً سرد اور پُرفضا وادی تھی۔

زیارت ریزیڈنسی بلوچستان کے کنٹرولر (آڈٹ آفیسر) عبدالحمید کا بیان ہے کہ جب آخری مرتبہ قائداعظم زیارت سے کوئٹہ روانہ ہورہے تھے تو انہیں اسٹریچر پر نیچے لایا گیا۔

روانگی کے وقت انہوں نے حکم دیا کہ اسٹریچر پر لے جاتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا جائے کہ کوئی مجھے اس حالت میں نہ دیکھے۔ جب قائداعظم کو کار میں بٹھایا جانے لگا تو فرمایا،’’مجھے کار میں اس طرح بٹھاؤ کہ میں اپنے عوام کو دیکھ سکوں۔‘‘ آپ زیارت سے جب بذریعہ کار روانہ ہوئے تو اپنا داہنا ہاتھ ہلاکر سڑکوں پر دونوں جانب موجود عوام کو خدا حافظ کہہ رہے تھے۔

زیارت میں قیام کے دوران قائداعظم کا بلڈ پریشر خاصا گرگیا تھا اور پیروں پر ورم آگیا تھا۔ ان کے معالج کرنل ڈاکٹر الٰہی بخش نے 9ستمبر کو معائنے کے بعد محترمہ فاطمہ جناح سے قائداعظم کی زندگی کے بارے میں مایوسی کا اظہار کیا۔

یکم ستمبر کو ڈاکٹروں کے مشورے پر محترمہ فاطمہ جناح نے قائداعظم کو کراچی لے جانے پر آمادگی ظاہر کردی۔ 11ستمبر کو آپ کا طیارہ سوا چار بجے ماری پور کے ہوائی اڈہ پر اُترا۔ قائداعظم کو ایک اسٹریچر پر لٹاکر بذریعہ ایمبولینس گورنر جنرل ہاؤس پہنچایا گیا۔

رات تقریباً نو بجے آپ کی طبیعت اچانک پھر بگڑ گئی۔ جب ڈاکٹرز گورنر جنرل ہاؤس پہنچے تو قائداعظم پر بے ہوشی طاری تھی۔

نبض کی رفتار بھی غیرمسلسل تھی۔ ڈاکٹروں نے معائنہ کے بعد انجکش لگایا مگر رات دس بج کر 25 مٹ پر قائداعظم کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔

قائد اعظم نے اپنی زندگی کا آخری خط ایک صحافی اور Verdict of Indiaنامی کتاب کے مصنف بیورلے نکلس کو 3ستمبر 1948 کو لکھا جس میں آپ نے فرمایا، ’’آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ میرے ساتھ کوئی تشویش ناک معاملہ نہیں ہے‘‘۔ بیورلے نکولس کا بیان ہے اس خط میں قائداعظم کے دستخط حسب سابق جمے ہوئے نہیں تھے البتہ واضح تھے۔

یہاں ایک بات کہنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ 11ستمبر 1948کو قائداعظم کی کوئٹہ سے کراچی آمد کو خفیہ رکھا گیا، جس کی بنا پر کسی کو علم ہی نہیں تھا کہ ماری پور کے ایئرپورٹ پر ایمبولینس کس کے لیے منگوائی جارہی ہے۔ ایسی صورت میں قائداعظم کے لیے کسی قسم کے خصوصی انتظامات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

ماری پور ایئرپورٹ سے گورنر جنرل ہاؤس تک روانگی کے سفر میں ایمبولینس کی خرابی کے واقعے پر مختلف سوانح نگاروں نے اظہارِرائے کیا ہے، لیکن اِس کے باوجود ایک مخصوص طبقہ، اس خرابی کو کسی ریاستی غیر ذمہ داری کا شاخسانہ تصور کرتا ہے۔

بلاشبہ اِس خرابی کی بنا پر آخری وقت میں قائداعظم کو ایک ناقابل بیان اذیت سے دوچار ہونا پڑا جیسا کہ ہیکٹر بولائتھو نے اپنی کتاب کے آخری باب میں درج کیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہیکٹر بولائتھو کے بیان میں کچھ افسانویت بھی موجود ہے، جس کی بنا پر اصل حقائق شک و شبہ کی زد پر آگئے ہیں۔

محترمہ فاطمہ جناح جو اِس واقعے کی چشم دید گواہ ہیں انہوں نے بھی اپنی کتاب ’’مائی برادر‘‘ میں اس واقعے کی تفصیلات پر سیر حاصل گفتگو نہیں کی۔ انہوں نے ایسا کیوں کیا یہ ایک الگ بحث ہے جو سوالات کی صورت میں اکثر مضمون نگار اٹھاتے رہے ہیں، لیکن کوئی واضح ثبوت ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے۔

متحدہ پاکستان کے حامی بنگالی راہ نما محمود علی نے 18ستمبر 2004کو اپنے ایک مضمون مطبوعہ روزنامہ ڈان کراچی میں اِس واقعے کی تفصیلات درج کی ہیں، مگر انہوں نے بھی واقعے پر جذبات انگیز گفتگو زیادہ کی ہے اور واقعے کی اصل نوعیت پر اظہار خیال کم کیا ہے، جس سے اِس شبہ کو مزید تقویت پہنچی ہے کہ قائداعظم کے لیے ماری پور ایئرپورٹ پر ایک ناکارہ ایمبولینس کسی سازش کے تحت بھیجی گئی تھی۔

بدقسمتی سے اِس المیے کی تمام تر ذمہ داری پاکستان کے پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کی حکومت کے سرمنڈھ دی گئی ہے، جب کہ حقائق کچھ اور ہی کہتے ہیں۔

قیام پاکستان کے بعد کراچی کے پہلے ڈپٹی کمشنر، معروف اسکالر اور قائد اعظم کے رفیق کار سید ہاشم رضا نے جو اُس وقت انتظامی امور کے نگراں تھے، ایک ملاقات میں راقم الحروف کو بتایا تھا کہ جو لوگ نوابزادہ لیاقت علی خان پر اِس ضمن میں الزام عائد کرتے ہیں وہ ایسا لیاقت دشمنی میں کرتے ہیں۔

سید ہاشم رضا کا کہنا تھا،’’اگرچہ اِس بات کا قطعی علم نہیں تھا کہ ایئرپورٹ پر کون آرہا ہے، اِس کے باوجود ہدایات کی اہمیت کے پیش نظر جناح اسپتال کراچی میں موجود ایک بہتر ایمبولینس ایئرپورٹ روانہ کی گئی تھی۔ اِس ضمن میں جو کچھ کہا جاتا رہا ہے اُس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔‘‘ کرنل سعید احمد جو اُس وقت جناح اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ تھے، کے ایک مراسلے سے بھی سید ہاشم رضا کے بیان کی تصدیق ہوتی ہے۔

کرنل سعید کا یہ مراسلہ 21مئی 1979ء کو روزنامہ ڈان کراچی میں شائع ہوا تھا، جس میں انہوں نے لکھا،’’میں اُس وقت جناح اسپتال کا میڈیکل سپرنٹنڈنٹ تھا اور قائد اعظم محمد علی جناح کے کراچی آنے سے پہلے یا بعد میں قائداعظم کی طبیعت کی ناسازی کی سنگینی کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں تھی۔

اسپتال کو گورنر جنرل کے ملٹری سیکریٹری کرنل جیوفرے ناؤلیس (Col. Geoffrey Knowles) کی جانب سے ایک اطلاع موصول ہوئی، جس میں کہا گیا تھا کہ اُن کی رہائش گاہ پر ایک اہم شخصیت کے لیے جو آج سہ پہر کراچی پہنچ رہی ہے.

ایک ایمبولینس بھجوادی جائے۔ اُس وقت اسپتال کے پاس دو ایمبولینس موجود تھیں جن میں سے ایک جو بہتر حالت میں تھی مناسب دیکھ بھال کے بعد حسب ہدایت بھجوادی گئی۔ بدقسمتی سے ایئرپورٹ سے واپسی پر اُس میں میکینیکل خرابی پیدا ہوگئی جس کے نتیجے میں شدید مایوس کن صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔‘‘

گورنر جنرل کے ملٹری اے ڈی سی بریگیڈیئر نور احمد حسین نے جو کوئٹہ اور زیارت میں اُس وقت ڈیوٹی پر تھے 11؍ستمبر 1981ء کو اپنے ایک مضمون مطبوعہ ’’دی مسلم‘‘ میں قائداعظم کے حوالے سے اپنی یادداشتوں کو مجتمع کرتے ہوئے اِس واقعے کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’1948ء کے کراچی میں ممکنہ طور پر بہتر حالت میں موجود ایمبولینس قائداعظم کے ذاتی طبیب اور ملٹری سیکریٹری کی نگرانی میں ایئرپورٹ روانہ کی گئی تھی۔

جہاں تک قائداعظم کی کراچی آمد پر کسی پروٹوکول کی عدم موجودگی کا سوال ہے تو قائداعظم کی کوئٹہ سے روانگی سے قبل محترمہ فاطمہ جناح نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں گورنر جنرل کے ملٹری سیکریٹری کو فوری طور پر مطلع کردوں کہ وہ گورنر جنرل کی کراچی آمد کو قطعی خفیہ رکھیں اور گورنر کے ذاتی عملہ کے سوا سرکاری افسران ایئرپورٹ پر استقبال کے لیے نہیں آئیں۔

لہٰذا محترمہ فاطمہ جناح کے احکامات فوری طور پر ملٹری سیکریٹری کو پہنچادیے گئے۔‘‘ اس صورت حال کا تذکرہ قائد اعظم کے سوانح نگار اسٹینلے والپرٹ نے بھی اپنی کتاب “Jinnah of Pakistan”میں کیا ہے مگر وہ بھی کوئی وضاحت نہیں پیش کرسکے ہیں۔

راقم الحروف اپنے مطالعے اور پیش نظر مضمون میں درج تفصیلات کی روشنی میں اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ قائداعظم کی کراچی آمد کو خفیہ رکھنے کا فیصلہ خود قائد اعظم کا اپنا تھا جسے محترمہ فاطمہ جناح نے دیگر متعلقہ افراد کو منتقل کیا۔

قائداعظم جہاں اپنی طویل بیماری سے نڈھال اور جسمانی طور پر بہت کم زور ہوچکے تھے وہاں اُن کو یہ بھی احساس تھا کہ اُن کی ذات کے حوالے سے کوئی ایسی صورت حال قوم کے سامنے نہ آئے کہ اُس کے حوصلے پست ہوجائیں۔

وہ جانتے تھے کہ اُن کی قوم جسے انہوں نے پاکستانی قوم ہونے کا تشخص دیا تھا اُن سے انتہائی درجہ کی محبت کرتی ہے، لہٰذا وہ اپنی قوم کو کسی شدید افسردگی سے بھی بچانا چاہتے تھے۔

انہوں نے اپنی طویل ترین جدوجہد سے برصغیر کے مسلمانوں کو جو ایک منتشر ہجوم کی صورت میں تھے، ایک قوم بنایا تھا لہٰذا وہ کبھی یہ پسند ہی نہیں کرسکتے تھے کہ اُن کی قوم اُن کو اسٹریچر پر دیکھے۔ وہ قوم کی نظر میں اپنی آخری تصویر ایک باہمت آدمی ہی کی رکھنا چاہتے تھے۔ ایک ایسے باہمت آدمی کی تصویر جس نے اپنی قوم اور اپنے ملک سے گہری وابستگی کی راہ میں اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کردی ہو۔

The post قائد اعظم کی علالت اور رحلت ایک تحقیقی اور واقعاتی جائزہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/G3N9f2q
Previous Post Next Post

Contact Form