چھوٹے نہ ہوں تو کیسے بڑے، کس کا احترام !

گزشتہ دور میں دو طرح کے لوگ ہوا کرتے تھے ایک مجلسی اور دوسرے علمی، مگر ہمارا خیال تو یہ ہے کہ کسی نہ کسی طور یہ امر آج بھی باقی ہے، لیکن ایک نمایاں فرق یہ ہے کہ اْس دور کے مجلسی لوگ بھی اپنی اپنی معلومات میں خاصے توانا تھے۔

ان کے ہاں علم و ادب یا فن وغیرہ کے اصول اور قاعدے سے انحراف کا کوئی تصور نہیں تھا، اب ہم دیکھتے ہیں جو کچھ ہے اس میں زیادہ تر فیس بک کی ہوا ہے یا اس کا عکس ہے۔

’’ فلاں حضرت تو جگر مراد آبادی کو شاعر ہی نہیں گردانتے، کہتے ہیں کہ جگر کی ساری شہرت ان کی آواز ہی کی وجہ سے تھی۔ ‘‘

ہم نے جگر مراد آبادی کو دیکھا تو نہیں، مگر ایسے حضرات سے جو اْن کے قریب رہے ہیں یا انھوں نے جگر کو دیکھا ہی نہیں سنا بھی ہے، بہت ساری باتیں جگر کے تعلق سے سنی ہیں ان میں سے اکثر ایسی ہیں کہ جگر کے تئیں دل میں احترام کی کیفیت محسوس کی۔

یہ جو ابھی کہا گیا ہے کہ وہ حضرت تو جگر کو شاعر ہی نہیں گردانتے تو یاد آیا کہ علامہ اقبال کو ایک دْنیا شاعر ِمشرق کے سابقے کے ساتھ یاد کرتی ہے مگر ہمارے دورکے ممتاز ناقد باقر مہدی، اقبال کو شاعر ہی نہیں مانتے تھے۔ اسی طرح کچھ لوگ یہ کہتے ہوئے بھی سنے گئے کہ اقبال شاعر نہیں ہاں مفکر ضرور تھا۔

اورنگ آباد (دکن) کے مشہور شاعر و ادیب بشر نواز سے یہ سنا تھا۔ ’’آپ لوگ علامہ ( لکھنوی) کا بہت نام لیتے ہیں، اماں میاں! لکھنو اور لکھنوی مزاج کے لوگوں ہی میں ان کی بانسری بجتی ہے اور انھیں میں وہ علامہ سمجھے جاتے ہیں۔ منہ میں زبان تو سبھی کے پاس ہے جسے چاہے علامہ کہہ دیجیے جسے چاہے رئیس الشعرا یا رئیس المتغزلین سمجھ لیجیے۔ اس میں کیا جاتا ہے زبان ہلائو اور جو منہ میں آئے بلند آواز سے کہہ گزرو۔

میاں! حقیقت تو اْس وقت کھلتی ہے جب وقت کی آندھی چلتی ہے تو بادِ فاسد کی طرح علامہ، رئیس الشعرا اور رئیس المتغزلین کے لقب ہوا میں تحلیل ہو جاتے ہیں، پھر جوکچھ بچتا ہے وہی اصل، باقی سب بادام کے چھلکے جانیے کہ جب بادام کا مغز باہر آجاتا ہے تو پھر اس کے خول ( چھلکے) کی کوئی حیثیت نہیں رہتی وہ کوڑے دان کا مقدر بنتا ہے۔‘‘

اسی طرح انسانوں میں بھی بعض افراد و اشخاص اپنے وقت کے ساتھ تحلیل ہوجاتے ہیں۔ اس میں رہتا وہی ہے جو وزنی ہو ورنہ نانی اماں والی کہاوت سنیے’’ وہ تو چڑیا کی بیٹ ہے جو پانی کی سطح پر تَیر رہی ہے اصل تو سطح پر نہیں تہہ میں ہوگا، اگر تو نگاہ تیز رکھتا ہے تو تہہ میں اْتر اور پھر دیکھ ، جو نیچے ہے وہ کتنی وزنی ہے اور جو اوپر تَیر رہی ہے کتنی ہلکی ہے، پلٹ کے دیکھے گا تو شاید وہ اپنا وجود بھی کھو چکی ہو… اور تہہ میں جو ہے وہ تیرے ساتھ تا دیر رہے گا اسی کو زندگی سمجھ ، ورنہ تو سب ہَوا کے ساتھ اْڑان پر ہے، اور ہَوا… ہَوا ہی ہے ہَوا کا کیا…!

ہمارے بعض اہل ِادب یہ بھی کہتے سنے گئے کہ ’’میاں! کیا شور مچائے ہوئے ہو ذرا کاغذ پرکبھی آئو تو دیکھیں کہ آواز میں کوئی معنی ومطلب بھی ہے یا صرف آواز ہی آواز ہے۔‘‘

( تیکھے تبسم کے ساتھ) میاں! آواز تو بادِ فاسد میں بھی ہوتی ہے مگر اْس کا نتیجہ معلوم ! ‘‘

مگر سچ یہ بھی ہے کہ آواز بھی سب کے پاس نہیں ہوتی، اور کچھ ہی ہوتے ہیں جن کی اپنی آواز ہوتی ہے ورنہ کس کس کی آوازکو اپنی آواز سمجھ لیا جاتا ہے۔ یہ بھی تو ہوتا ہے مگر یہاں بھی ہَوا، اپنا کام کرتی ہے کب اسے تحلیل کر دے، اسے بھی پتہ نہیں چلتا کہ جس کی آواز نکلی تھی کب اس کی آواز ہوا اْڑا لے گئی اور کہاں چھوڑ آئی۔

ہاں بعض آوازیں اپنے معنی و مطلب کی ایسی تہیں رکھتی ہیں کہ جنھیں وقت کی اْنگلیاں فوری طور پر نہیں کھول پاتیں اور پھر جب وہ اپنے وقت پر کھلتی ہیں تو اِردگرد ہی نہیں ایک دْنیا کو معطر کر دیتی ہیں۔

یوں بھی ہے کہ کچھ خوشبوئیں تیز ہوتی ہیں فوراً متوجہ کر لیتی ہیں اور بعض خوشبوئیں دِھیرے دِھیرے مشامِ جاں تک پہنچتی ہیں اور تادیر قلب و جاں کو مہکاتی رہتی ہیں۔آسمان پر تو آفتاب و ماہتاب ہی نمایاں رہتے ہیں مگر جنھیں تارے کہتے ہیں ان کی بھی ایک اہمیت اور حیثیت ہوتی ہے۔ یہ چھوٹے چھوٹے تارے ہی تو ماہتاب کو ماہتاب ثابت کرتے ہیں۔ اس فلسفے کو حکیم انجم فوقی بد ایونی کیسے سمجھا گئے ہیں۔

چھوٹے نہ ہوں تو کیسے بڑے، کس کا احترام

کلیوں کے دَم سے لالہ و گْل کا شباب ہے

اگر ہم واقعی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس کائنات میں چھوٹی سے چھوٹی شے بھی اپنے آپ میں کوئی ایسی صلاحیت اور اہمیت کی حامل ہوتی ہے کہ وہ نہ ہو تو آپ کا کام ہی نہ چلے۔ ذرا سوچیے کہ توپ کے مقابل سوزن (سوئی) کی کیا اہمیت، مگر ہم یہاں غلطی پر ہیں کہ توپ کا مقابلہ سوئی سے کرنے جا رہے ہیں۔ بتائیے اس میں سوئی کا کیا قصور؟ توپ ، توپ ہے اور سوئی ، سوئی، نہ توپ کی جگہ سوئی استعمال کی جاسکتی ہے اور نہ ہی سوئی کی جگہ توپ۔ اب یہ ہماری صلاحیت پر ہے کہ ہم اپنے آپ کو سوئی بناتے ہیں یا توپ…!

کون نہیں جانتا کہ توپ جب چلتی ہے تو بربادی اور تباہی مچاتی ہے اور سوئی جب لگتی ہے آہ نکلتی ہے، توپ بربادی کی علامت ہے جب کہ سوئی دو کو جوڑ کر ایک کردیتی ہے اور توپ کا استعمال تو کبھی کبھار ہی ہوتا ہے اور یہ سب جانتے ہیں کہ سوئی زندگی میں اکثر اوقات اپنے استعمال کو لازمی بنا دیتی ہے۔

The post چھوٹے نہ ہوں تو کیسے بڑے، کس کا احترام ! appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/8hoqpuO
Previous Post Next Post

Contact Form