امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی کے 38 طلباء کے ایک گروپ نے گزشتہ روز جی ایچ کیو میں پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر سے ملاقات کی، آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف سے ملاقات کرنے والے طلباء کا تعلق نو مختلف ممالک سے ہے اور یہ امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔
تعارفی سیشن کے دوران آرمی چیف نے علاقائی سلامتی کے مسائل اور خطے میں امن و استحکام کو فروغ دینے کے لیے پاک فوج کے کردار پر بات کی۔آرمی چیف نے پاکستان کی بھرپور صلاحیتوں پر روشنی ڈالی اور شرکاء پر زور دیا کہ وہ پاکستان میں اپنے قیام کے دوران اپنے تجربات کی بنیاد پر پاکستان کو دیکھیں۔
آرمی چیف نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف مضبوط کردار ادا کر رہا ہے، عالمی برادری کو پاکستان کی جانب سے دی گئی بے پناہ قربانیوں کا ادراک کرنا چاہیے۔ آرمی چیف نے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے انسانی مظالم اور حقائق کو تبدیل کرنے کی کوششوں پر بھی روشنی ڈالی۔
ہارورڈ یونیورسٹی دنیا کی چوٹی کی درسگاہوں میں سے ایک ہے۔اس یونیورسٹی میں پڑھنا اور پڑھانا ایک اعزاز ہے،یہاں سے فارغ التحصیل افراد نے سائنس، سیاست اور اقتصادیات میں نمایاں کارہائے انجام دیے ہیں،اس لیے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ آرمی چیف سے ملاقات کرنے والے طلبہ کا معیار کیا ہے۔
آرمی چیف نے بالکل درست کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے جو قربانیاں دی ہیں، عالمی برادری ان کا ادراک کرے۔ پاکستان آج بھی دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے، اور بڑی کامیابی کے ساتھ لڑ رہا ہے۔
امریکا اور مغربی یورپ کے ممالک کی قیادت اور دانشور طبقات پاکستان کی قربانیوں سے انکار نہیں کرتے لیکن پوری طرح تسلیم بھی نہیں کرتے جس کی وجہ سے کئی مسائل جنم لیتے ہیں۔اسی ماحول میں ایک اچھی پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان ڈھائی سال کی سردمہری کے بعد اسٹرٹیجک تعلقات کے حوالے سے اہم پیش رفت ہوئی ہے، امریکا کے ساتھ انتہائی خصوصی اہمیت کا حامل اسٹرٹیجک تعلقات کا 15سالہ معاہدہ طے پا گیا ہے، 2005میں اسٹرٹیجک تعلقات کا معاہدہ 15سالہ مدت پوری ہونے پر اکتوبر 2020میں ختم ہو گیا تھا.
امریکا کے ساتھ اسٹرٹیجک معاہدے کی باضابطہ منظوری پی ڈی ایم حکومت نے دی تھی،معاہدے کے تحت پاکستان اورامریکا مشترکہ آپریشنز مشقیں اوربیسنگ کر سکیں گے،معاہدے کے بعد پاکستان امریکا سے سیکیورٹی اور دیگر دفاعی الات خرید سکے گا، معاہدے سے پاکستان کی دنیا بھرمیں نیٹوفورسز کے ساتھ کمیونیکیشن کی راہ بھی ہموار ہو گئی،اسٹرٹیجک معاہدہ کے تحت امریکا اپنے اتحادیوں کے ساتھ قریبی فوجی اور دفاعی تعلقات برقراررکھنا چاہتا ہے،دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ اسٹرٹیجک لحاظ سے یہ معاہدہ انتہائی وسعت اور اہمیت کا حامل ہے۔
پاکستان کے لیے یہ معاہدہ اس لیے بھی بڑا ضروری ہے کہ پاکستان کو دہشت گردوں کے خلاف لڑائی میں جدید ٹیکنالوجی کی انتہائی ضرورت ہے۔ پاکستان میں کارروائیاں کرنے والے دہشت گردوں کو افغانستان میں نقل و حرکت کی پوری آزادی حاصل ہے،ان کے پاس جدید ترین ہتھیار ہیں اور تریبت یافتہ افرادی قوت ہے۔امریکا کے ساتھ اسٹرٹیجک معاہدے کی وجہ پاکستان کے لیے جدید دفاعی آلات خریدنا آسان ہوجائے گا۔داعش نے عراق اور شام میں جو گل کھلائے ہیں، وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔
امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل مائیکل کوریلا نے شام کا دورہ کیا ہے۔ اس دورے میں وہ شام میں قائم داعش جنگجوؤں سے منسلک ہزاروں افراد کے دو کیمپوں میں بھی گئے ہیں۔ میڈیا کے مطابق الحول کیمپ میں 51 ہزار افراد ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں، یہ داعش انتہاپسندوں کی بیگمات، بیوائیں اور بچے ہیں۔ الحول کیمپ میں مقیم زیادہ تر افراد شام اور عراق کے شہری ہیں لیکن 8 ہزار خواتین اور بچے دنیا کے 60 دیگر ممالک سے بھی ہیں۔
جنرل مائیکل کوریلا نے کہا کہ ہم کیمپ کے رہائشی افراد کو ان کے ملکوں میں واپس بھیجنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دونوں کیمپوں میں موجود دو تہائی تعداد بچوں کی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان تنظیموں نے جہاں دوسروں کے گھر اجاڑے ہیں، وہاں ان تنظیموں کے عہدیداروں اور ہمدردوں کو بھی ناقابل بیان مصائب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ تو شام کے صرف دو کیمپوں کا احوال ہے، عراق اور شام جنگ کے دوران لاکھوں لوگ مارے گئے ہیں۔ اس کا حاصل حصول صرف اور صرف مصائب ہیں۔
افغانستان میں بھی تین دہائیوں سے جاری لڑائی لاکھوں خاندانوں کو زندہ درگور کر چکی ہے۔ افغانستان کے طالبان ہوں، سوویت فوج کے خلاف لڑنے والی مذہبی تنظیمیں ہوں، افغان سوشلسٹ ہوں یا افغانستان کے سابقہ لبرل ہونے کے دعویدار حکمران، یہ تمام دھڑے افغانستان کے افغان شہریوں کی تعمیر و ترقی کے لیے کوئی کارنامہ انجام نہیں دے سکے البتہ عام افغانوں کی لاشوں پر تمام افغان دھڑوں کو کرتادھرتاؤں نے اربوں ڈالر کمائے ہیں۔
ان افغانوں کی امریکا، یورپ، قطر، دیگر عرب ممالک، پاکستان، روس، سینٹرل ایشین اسٹیٹس اور بھارت میں جائیدادیں ہیں، ان کے بچے وہاں آرام کی زندگی گزار رہے ہیں جب کہ غریب افغان دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ افغانستان کے طالبان نے کسی کو شکست دی اور نہ ہی لبرل افغانوں نے کسی کو شکست دی۔ دونوں نے اگر شکست دی ہے تو اپنے ہی غریب افغانوں کو دی ہے۔ طالبان بھی ہزاروں مجاہد مروا کر امریکا کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لیے قطر میں بیٹھ گئے۔ قطر معاہدے کے تحت انھیں کابل کا اقتدار مل گیا۔
حامد کرزئی، عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی اور ان کے ساتھی بھی امریکا کے ساتھ سازباز کر کے کابل پر حکومت کرتے رہے اور امریکا سے ملنے والی امداد کی بندربانٹ کرتے رہے۔ اب بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ افغان طالبان کی عبوری حکومت کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہے۔ طالبان کی شوریٰ جو فیصلہ کر لے، وہی قانون ہے۔ نہ کوئی اپوزیشن، نہ کوئی سول سوسائٹی۔
پاکستان میں بھی تیس چالیس برس سے دائیں بازو کے ایسے طبقے نے طاقت پکڑی ہے، جس کی دولت افغان جنگ کا نتیجہ ہے۔ افغانستان کے جہادی گروپ اور پاکستان کا مخصوص انتہاپسند طبقہ مفادات کی ڈوری کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردوں کے سہولت کاروں، نظریہ سازوں اور پشت پناہوں کا ایک نیٹ ورک رہا ہے۔ سوویت یونین کے خلاف مجاہدین کی جنگ ہو یا دہشت گردی کے خلاف جنگ، اس انتہاپسند طبقے نے ڈالر کمائے ہیں۔
خیبرپختونخوا کی نگران حکومت نے انسداد دہشت گردی کی مد میں مرکز کی جانب سے خیبرپختونخوا حکومت کو ملنے والے415ارب روپے کے فنڈز کی تحقیقات کے لیے وفاقی حکومت کوخط ارسال کردیا ہے‘ اس خط میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ وزرات خزانہ آڈٹ کرانے کے لیے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو ٹیم بھجوانے کی درخواست کرے۔
خط کے مندرجات میں کہا گیا ہے کہ سابق وزیراعظم شہبازشریف نے خیبرپختونخوا کو ملنے والے 415ارب روپے کے فنڈزکا اسپیشل آڈٹ کرانے کا حکم دیا تھا، اس لیے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی ٹیم تحقیقات کرے کہ ساتویں این ایف سی ایوارڈ سے اب تک دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مد میں خیبرپختونخوا کی حکومتوں کو کتنا پیسہ ملا؟
ٹیم محکمہ داخلہ، پولیس کے اخراجات میں اضافے کا دیگرمحکموں سے موازنہ کرے، آڈٹ ٹیم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خیبرپختونخوا کے اخراجات معلوم کرے اوروصول شدہ رقم کے اخراجات کے اثرات کا بھی کھوج لگائے۔ خط میں کہاگیا ہے کہ آڈٹ ٹیم انسداد دہشت گردی کے منصوبوں اور خرچ ہونے والی رقم کا پتہ لگائے۔
وفاقی حکومت کو اس معاملے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔ خیبرپختونخوا کے شہری دہشت گردوں کا سب سے زیادہ نشانہ بنے ہیں۔ سیکیورٹی فورسز کے نوجوان آج بھی شہادتیں پیش کر رہے ہیں۔
خیبرپختونخوا کے صوبائی کنٹرول میں آنے والے اداروں کی کارکردگی زیادہ اچھی نہیں رہی ہے حالانکہ جتنی رقم وفاقی سے صوبائی حکومت کو ملی ہے، اس کا ایمانداری اور درست طریقے سے استعمال کیا جاتا تو خاصے معاملات سیدھے ہو سکتے تھے۔ ویسے بھی خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے قوم پرست ہونے کی دعویدار سیاسی قیادت اور ان کے خیالات سے متاثر قوم پرست دانشور ہر فورم پر اپنے صوبوں کو چھوٹا اور پسماندہ کہتے ہیں۔
ان کا مؤقف یہ ہوتا ہے کہ وفاق صوبوں کو ان کا حق نہیں دے رہا لیکن یہ بھی سامنے آنا چاہیے کہ چھوٹے صوبوں کی حکومت اور انتظامیہ کو جتنے فنڈز دیے جا رہے ہیں اور جتنی تنخواہیں اور مراعات دی جا رہی ہیں، کیا اس کے حجم کے مطابق ان حکومتوں نے ترقیاتی کام بھی کروائے ہیں اور صوبائی اداروں کے افسروں اور اہلکاروں نے اپنی تنخواہیں اور مراعات کے نتیجے میں ملنے والی ذمے داریاں بھی پوری کی ہیں یا نہیں؟
The post دہشت گردی اور حقائق appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/odBy02J