ریاستی استحکام کے چند فکری مغالطے

پاکستان میں حکمرانی کا نظام اپنے دامن میں چند بنیادی تضادات، مسائل اور ٹکراؤ کی کیفیت سمیٹے ہوئے ہے ۔

ہم عملی طور پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں لیکن اپنی عادات، طور طریقے اور جدیدیت کے بنیادی اصولوں کو اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تبدیلی کا عمل ایک جادوئی بٹن دبانے سے ممکن ہے یا ہم محض جذباتیت کی بنیاد پر کچھ بڑے نعروں کے ساتھ بہت کچھ فتح کرسکتے ہیں۔

سیاست اور جمہوریت کا عمل آگے بڑھنے کا راستہ ضرور دیتا ہے مگر اس سے وہی طبقات فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو واقعی غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں ۔

روائتی ، فرسودہ اور پرانے خیالات کے ساتھ ہم نئی پرامن ، ترقی اور خوشحالی کی دنیا آباد نہیں کرسکتے ۔ہم دنیا کے ان تجربات سے بھی فائدہ اٹھانے کے لیے تیار نہیں جن ملکوں نے خود کو مثبت طور پر بدلا اور لوگوں کی زندگی میں آسانیاں پیدا کیں ۔

یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں ریاست، حکومت اور اداروں کا عام آدمی سے رشتہ کمزور ہے اور اس رشتہ کی خلیج بدستور بڑھ رہی ہے ۔لیکن ہم اپنی حکمرانی میں موجود فکری تضادات سے باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں اور یہ ہی وہ سیاسی المیہ ہے جو ہمیں بطور ریاست پیچھے کی طرف دھکیل رہا ہے ۔

اگر ہم اپنے ریاستی نظام کا تجزیہ کریں تو اس میں کچھ اہم مسائل بدستور کئی دہائیوں سے موجود ہیں اوران مسائل کی شدت میں کمی آنے کی بجائے ان میں اضافہ ہورہا ہے۔

اول حکمرانی کا منصفانہ اور شفاف نظام یعنی ایسی گورننس جو عام آدمی سمیت کمزور یا محروم طبقات کے مفادات کی بھرپور عکاسی کرتی ہو۔دوئم، ہم خود مختار پاکستان بننا چاہتے ہیں مگر اپنے ہی ملک میں اداروں کی بالادستی یا آئین و قانون کی حکمرانی کے خلاف ہیں ۔

سوئم، ہر ادارہ آئین اور قانون کے تحت ملنے والے اختیارات اور دائرہ کار میں کام کرنے کی بجائے دیگر معاملات یا اداروں میں مداخلت کرتا ہے، یہ ہی وہ وجہ تنازعہ ہے جو ہمیں ریاستی محاذ پر کمزور کررہا ہے۔

چہارم، سیاسی نظام جمہوریت کی بنیاد پر چلتا ہے لیکن سیاسی نظام اور سیاسی جماعتوں سمیت ان کی قیادت یا داخلی جمہوریت کے مسائل کا حل ان کی ترجیحات کا حصہ نہیں ، جو جمہوری نظام کو کمزورکرنے اور اس میں خاندانی بادشاہت کو مضبوط بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے ۔پنجم، کوئی بھی نظام مضبوط جوابدہی اور احتساب یا نظام کی شفافیت کے بغیر نہیں چل سکتا ۔

لیکن ہم کرپشن ، بدعنوانی اور اقربا پروری کے خاتمہ اور سخت گیر احتساب کے نظام کوترقی کے عمل میں بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں اور ان معاملات کی سماجی قبولیت ہی آگے بڑھنے میں رکاوٹ ہے ۔ششم، ہم اپنی سیاست اور جمہوریت یا ریاستی نظام میں مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں اور اس کی وجہ سے ہم فلاحی ریاست سے بہت دور کھڑے ہیں ۔

یہ ہی وہ فکری تضادات ہیں جن کی وجہ سے ہم نہ تو سیاسی ، جمہوری ، اسلامی یا فلاحی ریاست میں تبدیل ہوسکے اور نہ ہی ہم نے ریاست و عوام کے اس باہمی تعلق کو مضبوط کیا جو آج جدید دنیا کا بنیادی نوعیت کا سوال ہے ۔ہم آج بھی علمی و فکری محاذ پر کئی سوالوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور سوالات کی موجودگی یا اس میں الجھن پیدا کرنا ہمارا قومی وطیرہ بن گیا ہے ۔

سوالات کا پیدا ہونا فطری امر ہے مگر اگر ہم سوالات کے جواب تلاش نہ کرسکیں اور کوئی ایسا حل نہ نکال سکیں جو ہمیں آگے بڑھنے کا راستہ دے تو پھر یہ سوالات مزید کئی نئے سوالات کے ساتھ ہماری سیاسی سطح کی الجھن سمیت کئی محاذ پر نئے انتشار کو بھی جنم دیتا ہے ۔

ہم پرانی اور موجودہ غلطیوں کی اصلاح کرنے کی بجائے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ ان ہی غلطیوں میں مزید شدت پیدا کرنے کے کھیل کا حصہ ہیں ۔ ہمارا سماجی ڈھانچہ اپنی افادیت کھورہا ہے اور جو معاشرے میں خوفناک انداز میں سیاسی ، سماجی ، مذہبی ، معاشرتی یا معاشی تقسیم بڑھ رہی ہے وہ مزید نئی الجھنوں کو پیدا کرنے کا سبب بھی بن رہی ہے ۔

مجموعی طور پر ہم مسائل کا حل تلاش کرنے کی بجائے قومی مسائل کو قائم رکھنے کے کھیل کا حصہ بن گئے ہیں ۔

اگلے دس یا پندرہ برسوں میں ہمارے پاس ہماری مجموعی ترقی کا کیا روڈ میپ ہے اور ایسے کیا خدوخال ہیں جن کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ریاستی یا حکمرانی کے نظام کی سمت درست انداز میں آگے بڑھ رہی ہے ۔ تو جواب نفی میں نظر آتا ہے ۔

محاذ آرائی ، ٹکراؤ ، تناؤ ، سیاسی دشمنی اور ایک دوسرے پر بالادستی کی جنگ یا سیاسی انتقام کے ماحول میں آگے بڑھنے کے امکانات بھی کمزور نظر آتے ہیں ۔نئی نسل کی اس نظام سے امیدیں بھی کمزور ہورہی ہیں کیونکہ ہمارے پاس ان کے لیے کوئی مناسب مواقع نہیں کہ وہ باعزت طریقے سے خودکو اپنے پاؤں پر کھڑا ہوتا دیکھ سکیں ۔

اداروں کی غیر فعالیت اور اوپر سے بیٹھ کر اداروں کو کنٹرول کرنے کی روش نے مجموعی طور پر ادارہ سازی کے عمل کو بھی بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ہمارا بحران محض سیاسی اور معاشی نوعیت کا نہیں بلکہ مجموعی طور پر یہ ایک ریاستی بحران ہے جہاں ایک مختلف فریقین کے درمیان ٹکراو اور تضاد یا اعتماد سازی کے فقدان کا ہے ۔

پاکستان کے ریاستی معاملات اب ایک ایسے مقام پر کھڑے ہیں جہاں ہمارے پاس بہت زیادہ روائتی حل نہیں بلکہ ہمیں غیر روائتی حل کی طرف پیش رفت کرنا ہوگی۔یہ جو ہم ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو ختم کرنے کے درپہ ہیں یہ مسائل کا حل نہیں ۔ ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو تسلیم کرکے ہی آگے بڑھاجاسکتا ہے یہ کہنا کہ کسی کی اس ریاستی نظام میں قبولیت ہوگی اور کسی کی مقبولیت کے باوجود قبولیت نہیں مسائل کو اور زیادہ گھمبیر بنادے گا۔

یہ جو ہم میں زعم ہے کہ ہم ہی بالادست ہیں اور طاقت کا مرکز بھی ہم ہی نے رہنا ہے اور باقی فریقین کو ہر صورت ہماری بالادستی کو قبول کرنا ہے ، مسائل کا حل نہیں ۔

آج کی دنیا باہمی مشاورت، ایک دوسرے فریق کے وجود کو تسلیم کرنے اور عوامی مفاد ات کو اہمیت دینے سمیت ایک بڑے منصفانہ اور شفافیت پر مبنی حکمرانی کے نظام سے جڑی ہوئی ہے ۔معاشرے مکالمہ سے اور ایک دوسرے کے لیے سپیس دینے سے بنتے ہیں ۔

لوگوں پر جبر اور خوف کا نظام قائم کرنا یا ان پر اپنی مرضی اور منشا کی چیزیں یا سوچ و فکر کو مسلط کرنے سے بھی معاشرے میں جنونیت ، انتہا پسندی اور بغاوت جیسے معاملات جنم لیتے ہیں ۔طاقت کی حکمرانی کا علاج ڈنڈے سے نہیں بلکہ لوگوں کے دلوں میں راج کرکے اور ان کے اہم بنیادی نوعیت کے مسائل اور حقوق کی بالادستی سے جڑا ہوا ہے ۔

The post ریاستی استحکام کے چند فکری مغالطے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/QmA9ZB5
Previous Post Next Post

Contact Form