بارشیں متوقع سیلاب اور سرکاری کوتاہیاں

پاکستان جغرافیائی طور پر ایسے خطے میں واقع ہے جہاں پر مون سون موسم معمول کی زندگی پر بہت زیادہ اثرانداز ہوتا ہے۔

بارشیں ہمارے لیے قدرت کا تحفہ ہیں تاہم زیادہ بارشوں کی وجہ سے ندی نالوں میں طغیانی آجاتی ہے اورکچے مکانات گرجاتے ہیں، اسی طرح سیلاب بھی قدرتی آفات میں سے ایک آفت ہے۔ اس آفت میں پانی کا ایک زور دار بہاؤ یا ریلا جو اپنے ساتھ سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے جہاں سے بھی سیلاب کا گزر ہوتا ہے وہاں تباہی یقینی ہوتی ہے۔

سیلاب کا ہمیں جب جب سامنا کرنا پڑا ہے تو ہزاروں کی تعداد میں لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ لاکھوں افراد بے گھر ہو جاتے ہیں اور مالی نقصان کا اندازہ فوری طور پر لگانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ سیلاب معاشی طور پر ملک کو بہت نقصان پہنچا کر پستی کی طرف لے جاتا ہے۔ اس کے علاوہ وسیع پیمانے پر متاثرین میں کئی وبائی بیماریاں بھی پھوٹ پڑتی ہیں، جس کے نتیجے میں بھاری تعداد میں اموات بھی ہوتی ہیں۔

پاکستان میں قدرتی آفات کی شدتوں اور تعداد میں ماضی کی نسبت بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے اور گزشتہ سالوں میں جو بنیادی تبدیلی سامنے آئی وہ موسمیاتی تبدیلی کے واضح اثرات ہی تھے، جس کے سبب تواتر کے سا تھ پاکستان میں گرمی کی لہریں اٹھیں، اس گرمی کے اثرات سے گلگت، بلتستان اور چترال وغیرہ کے علاقوں میں سیلاب اور شدید بارشیں ہوئیں۔

پاکستان کے ان علاقوں میں قطبین کے علاوہ د نیا کے سب سے بڑے گلیشیئر بھی موجود ہیں، جو دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے پگھل رہے ہیں۔

اس وقت ملک میں پری مون سون بارشوں کے سیزن کا آغاز ہوچکا ہے اور اس کے نتیجے میں روزانہ کی بنیاد پر جانی و مالی نقصانات کی خبریں رپورٹ ہو رہی ہیں، بارشیں ہیں کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ موسم کی تبدیلی ہے۔ آب و ہوا کی یہ تبدیلی موجودہ مون سون میں بدتر صورت اختیارکررہی ہے اور آنیوالے دنوں میں متوقع طور پر ایک بار پھر سیلاب آنے کے امکانات اور آثار نظر آرہے ہیں۔

بد قسمتی سے ہماری حکومتوں نے آج تک اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا، البتہ تھوک کے حساب سے بارشوں اور سیلاب سے بچاؤ کے محکمے موجود ہیں، جن کے افسران اور ملازمین تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہیں، لیکن ان کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے، جب سیلاب ہماری فصلوں اور املاک کو تباہ کرنا شروع کردیتا ہے تو پھر ہمارے حکمران ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر فضائی معائنے شروع کردیتے ہیں اور جو کام کرنے والا ہے اس پر ہم توجہ نہیں دیتے۔

دوسری جانب بھارت نے ایک لاکھ پچاسی ہزار کیوسک پانی دریائے راوی میں چھوڑ دیا ہے۔ اجھ بیراج سے چھوڑے گئے پانی کے باعث دریائے راوی میں پانی سطح بلند ہونے لگی ہے جس کے باعث دریا کے کنارے آباد خیمہ بستیوں اور دیگر آبادیوں کے مکینوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کا کام شروع کردیا گیا ہے اور سیلابی صورتحال سے نمٹنے کے لیے متعلقہ ادارے الرٹ ہیں، جب کہ نگراں وزیراعلیٰ پنجاب نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ بھارت نے معمول کے مطابق پانی چھوڑا، فی الحال سیلاب کا خطرہ نہیں۔

گزر ے برس بھی شدید بارشوں کے دوران بھارت نے دریاؤں میں پانی چھوڑ کر پاکستان میں سیلاب کی صورتحال پیدا کر دی تھی۔ بھارت نے پاکستانی دریاؤں پر ڈیم تعمیر کر کے اپنی معیشت مضبوط اور پاکستان کی تباہی کے منصوبے بنائے، ان ڈیمز کی وجہ سے پاکستان میں جہاں بجلی و پانی کی کمی کے بحران پیدا ہوئے اور معیشت کو سخت نقصان پہنچا وہاں شدید بارشوں کے موسم میں بھارت جب چاہتا ہے ڈیموں میں بھرا ہوا پانی چھوڑ کر سیلاب کی صورتحال پیدا کر دیتا ہے۔

محکمہ موسمیات کے مطابق اگست 2022 میں ملک بھر میں ہونے والی بارشیں اوسط درجے سے 243 فیصد زیادہ شدید تھیں جب کہ صوبہ سندھ میں ان کی شدت اوسط درجے سے 726 فیصد زیادہ تھی۔ دراصل سیلاب موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات کی کڑی یاد دہانی ہے۔ اس سے تباہی کے خدشے کو محدود رکھنے اور شدید موسمی واقعات سے نمٹنے کی تیاری، زمین کے استعمال کی بہتر منصوبہ بندی اور پائیدار ترقی کے ایسے طریقے اختیار کرنے کی ضرورت واضح ہوتی ہے جن میں ماحول اور لوگوں کی بہتری کو مقدم رکھا جائے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیوگوتیرس نے ’’ موسمیاتی تبدیلیوں کے مقابل مستحکم پاکستان‘‘ کے لیے بین الاقوامی کانفرنس کے موقع پر کہا تھا کہ ’’پاکستان کو نقصان اور تباہی کا سامنا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں آنے والی تباہی حقیقت ہے۔ اس کا نتیجہ سیلاب، خشک سالی، طوفانوں اور شدید بارشوں کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔ ہر مرتبہ وہی ممالک اس سے بری طرح متاثر ہوتے ہیں جن کا موسمیاتی تبدیلی میں کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔‘‘

ماضی میں پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب 2010میں آیا تھا جس کو تیرہ برس گزر چکے اور بیت برس کا سیلاب گزشتہ تمام ریکارڈ توڑ چکا ہے۔ گزشتہ سیلاب نے ہم پاکستانیوں کو ایک نئی موسمی اصطلاح سے روشناس کروا دیا ہے’’ کلاؤڈ برسٹ‘‘ جس کا اردو ترجمہ ’’ بادلوں کا پھٹنا‘‘ ہے۔ اس موسم میں بحیرہ عرب سے اٹھ کر جو بادل جنوبی پاکستان کی طرف بڑھتے ہیں، وہ اتنے بوجھل ہوتے ہیں کہ ساحل کراس کرتے ہی برس جاتے ہیں۔ کراچی، بدین، ٹھٹھہ وغیرہ میں گزشتہ برس یہی کچھ ہوتا رہا۔

بیتے برس جنوبی سندھ، خاص طور پر صوبائی دارالحکومت کراچی میں آنے والی شدید بارشوں کے بعد شہری سیلاب موسمیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہیں۔ لیاری ندی کے سب سے بڑے قدرتی نالے گجر نالے، جوکہ کراچی کے چار بڑے ٹاؤنز بشمول نارتھ ناظم آباد ٹاؤن، نیوکراچی، گلبرگ ٹاؤن اور لیاقت آباد ٹاؤن سے گزرتا ہے، اس نالے کی بڑے سائز کی 15 شاخیں ہیں، مگر اب اس شہر کے انتہائی اہم نالے کے کناروں پر آبادیاں بننے کے بعد یہ نالہ ایک چھوٹی سی نالی کے طرح بچ گیا ہے، چونکہ شہر کے یہ نالے قدرتی طور پر بارش کے پانی کی نکاسی کے لیے تھے۔

بارشوں کے دوران ان میں پانی بڑی مقدار میں آتا ہے مگر اس تیزی سے نکاس نہیں ہوتا، جس کے نتیجے میں بارش کا پانی آس پاس کے علاقوں میں داخل ہوکر شہری سیلاب کا سبب بنتا ہے۔

بارش کے پانی کو آخرکار سمندر میں جانا ہے مگر جس مقام پر قدرتی نالے سمندر میں گرتے ہیں وہاں پر مٹی ڈال کر مصنوعی زمین بنائی جا رہی ہے، جس کے باعث پانی سمندر میں جانے میں دیر لگتی ہے اور شہر ڈوب جاتا ہے۔ سٹی ریلوے اسٹیشن ڈرین اور سولجر بازار نالہ، ہجرت کالونی اور سلطان آباد کے پاس سمندر کے بیک واٹر میں گرتے تھے، جہاں سے بعد ان کا پانی سمندر میں چلا جاتا تھا، مگر مائی کولاچی روڈ بنانے کے بعد ان کے دہانے کو مٹی ڈال کر چھوٹا کردیا گیا، جس سے پانی جانے کی گنجائش کم ہوگئی ہے۔

شہر کے تمام نالوں کو صاف رکھنے، سنبھالنے، مرمت کرنے کی بنیادی ذمے داری بلدیہ عظمیٰ کراچی کی ہے، مگر وہ ان نالوں کی ذمے داری نہیں لیتی۔ کبھی کہتی ہے کہ کنٹونمنٹس کی ذمے داری ہے، توکبھی ریلوے اور کراچی پورٹ ٹرسٹ پر ڈال دیتی ہے۔

سرکاری محکموں، غیر سرکاری تنظیموں اور ریسکیو ذرایع سے اکھٹے کیے گئے اعداد وشمار کے مطابق حالیہ برسوں کے دوران کراچی شہر کے کئی علاقے مون سون بارشوں کے دوران سیلاب کی زد میں آجاتے ہیں، کیونکہ کراچی میں بارش کے پانی کو سمندر میں لے جانے والے قدرتی نالوں کو مکمل طور پر کھولنے کے ساتھ جب تک شہر کے انفرااسٹرکچر کو موسمیاتی تبدیلیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نہیں بنایا جاتا، کراچی کو ڈوبنے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔

پاکستان کے مختلف علاقوں میں آنے والے ان شدید موسمی واقعات کے باعث وہاں کے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد اپنے آبائی علاقوں سے دربدر ہوکر موسمیاتی پناہ گزین بن گئی ہے، مگر ان متاثرین کی تعداد سے متعلق سرکاری طور پر کوئی اعداد و شمار موجود نہیں۔ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ نالے پکے کرنے اور بہتر لائینگ سے بھی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اصل مشکل انتظامی ہے کہ ان پکے نالوں کی تواتر سے صفائی اور مرمت کا خیال کیسے کیا جاتا رہے۔ یہ بھی یقینی بنانا ہوگا کہ تجاوزات پھر ان ندی نالوں کے راستے نہ روک پائیں۔

سوال یہ ہے کہ اس سنگین سیلابی صورتِ حال سے کیسے نمٹا جائے۔ چھوٹے بڑے ڈیم بنانا پاکستانی سیاست کے تناظر میں ناقابلِ عمل آپشن بن رہی ہے۔ 2005کے زلزلے اور 2010 کے سیلاب نے پاکستان ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (PDMA) کو جنم دیا تھا لیکن کیا اس اتھارٹی نے ملک میں آنے والے سیلابوں کے آگے بھی کوئی بند باندھا ہے؟

اس کا جواب نفی میں ہے، اس طرح کے سیلابوں کی تباہ کاریوں میں انسانی جانوں کے وسیع نقصان کے علاوہ مال مویشیوں اور رہائشی عمارتوں کا وسیع تر ضیاع بھی شامل ہے۔ اس صورتِ حال سے عہدہ برآ ہونے کے لیے جن امدادی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے، کیا ان کا بندوست کیا گیا؟

The post بارشیں، متوقع سیلاب اور سرکاری کوتاہیاں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/U560niP
Previous Post Next Post

Contact Form