پاکستان میں عرب ممالک کی سرمایہ کاری کے حوالے سے اہم پیشرفت سامنے آئی ہے، SIFC نے سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات اور بحرین کو سرمایہ کاری کے لیے اربوں ڈالر کے منصوبوں کی پیش کش کی ہے۔
عرب ملکوں کو جن منصوبوں میں سرمایہ کاری کی پیش کش کی گئی ہے، ان میں دیا مر بھاشا ڈیم، ریکوڈک اور سعودی آئل ریفائنری سمیت متعدد منصوبے شامل ہیں۔
کسی بھی ملک میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری، اس بات کی علامت ہے کہ بیرونی دنیا اس ملک کی معیشت کو سرمایہ کاری کے لیے ایک قابل قدر جگہ سمجھتی ہے اور یہ اس ملک کی معیشت کے لیے ایک مثبت اشارہ ہے۔
پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کا چیلنجز سے بھرپور مگر نتیجہ خیز دور اپنے اختتام کے قریب ہے جس میں پالیسی سازی سے متعلق اہم فیصلے کیے گئے ہیں۔
اس دوران شہباز شریف نے اسٹرٹیجک قدم اٹھاتے ہوئے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کے ساتھ سرمایہ کاری اور تجارت کے شعبے میں تعلقات کو مزید گہرا کیا ہے، بلاشبہ خلیج تعاون تنظیم کے ممالک کا پاکستان کی معیشت میں ایک اہم کردار ہے جو توانائی کی درآمدات اور غیر ملکی زرمبادلہ کا اہم ذریعہ ہیں۔ پاکستانی ورکرزکی سب سے زیادہ تعداد انھی ممالک میں رہائش پذیر ہے۔
پاکستان اب مستحکم ملک ہے اور نگران دور کی طرف جا رہا ہے۔ اسپیشل انوسٹمنٹ فسیلی ٹیشن کونسل ون ونڈو سہولت کے لیے بنائی گئی ہے، یہ کونسل خلیجی ممالک سے زراعت، معدنیات وکان کنی، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دفاعی پیداوار میں سرمایہ کاری لاسکتی ہے۔
سعودی وژن2030 سے پاکستان کو معاشی ترقی کے بے پناہ مواقع مل سکتے ہیں، ہنرمند پاکستانیوں کو خلیجی ممالک میں روزگار ملے گا۔ بیرونی سرمائے کے استعمال سے حاصل ہونے والے منافع کو انفرا اسٹرکچر کی تعمیر، صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم کو بہتر بنانے، پیداواری صلاحیت بہتر بنانے اور صنعتوں کو جدید بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اس بات کو یقینی بنایا جانا ضروری ہے کہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری طویل مدت میں سب سے زیادہ لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنائے گی۔
مثال کے طور پر سن دو ہزار آٹھ کے عالمی اقتصادی بحران کے نتیجے میں آئرلینڈ دیوالیہ ہونے کے قریب تھا مگر محض سات برس کے بعد اس کی جی ڈی پی نے 26.3 فیصد کی حیران کُن شرح سے ترقی کی۔ اس کی وجہ آئرلینڈ کی حکومت کا سرمایہ کاروں کو ترجیحی طور پر ٹیکسوں میں چھوٹ دینا اور ان کے لیے دروازے کھول دینا تھا۔
آئرلینڈ نے12.5 فیصد کی شرح سے سنگل کارپوریٹ ٹیکس متعارف کرایا اور کینیڈا اور امریکا کے علاوہ یورپی ممالک سے دہرے ٹیکس کے عدم نفاذ کے معاہدوں پر دستخط کیے۔
اس پالیسی کی وجہ سے دنیا کی صف اول کی کمپنیاں جیسے ایپل، فیس بک اورگوگل وہاں سرمایہ لگانے کی جانب راغب ہوئیں اور انھوں نے وہاں اپنے دفاتر اور ذیلی کمپنیاں کھولیں۔ پاکستان بھی آئرلینڈ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شرح نمو میں نمایاں اضافہ حاصل کرسکتا ہے۔
بیرونی سرمایہ کاروں کو یہاں لانا اور غیرملکی سرمایہ کاری ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے اور ہمیں کچھ وقت کے لیے ٹیکس آمدن کے اہداف کو پس پشت ڈال دینا چاہیے۔
پاکستان نے بھی 66 ممالک کے ساتھ دہرے ٹیکس سے بچاؤ کے معاہدے کررکھے ہیں جن کے تحت سرمایہ کار پر یا تو اس کے آبائی وطن یا پھر جہاں وہ سرمایہ لگا رہا ہے اس ملک میں ٹیکس عائد کیے جائیں گے۔
اپنی اسٹرٹیجک لوکیشن کے ساتھ پاکستان مشرق و مغرب دونوں جانب کے سرمایہ کاروں کو سہولتیں بہم پہنچانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے ٹیکس کی شرح کم اور کاروبار کرنے میں آسانی ہونی چاہیے۔
غیرملکی سرمایہ کار اپنے دفاتر اور پیداواری یونٹ یہاں لگا سکتے ہیں اور پاکستان سے دنیا بھر میں اپنی مصنوعات برآمد کرسکتے ہیں۔
پاکستان آئی ٹی انڈسٹری میں تیزی سے ترقی کررہا ہے اگر غیرملکی کمپنیاں اپنے دفاتر یہاں قائم کریں تو باصلاحیت نوجوانوں کو بہتر ملازمتیں میسر آسکتی ہیں۔
ٹیکس کے نظام کو بہتر بنانا اور اسے وسعت دینا اور توانائی کے شعبے کو ٹھیک کرنا جو گردشی قرضوں میں اضافے کی بڑی وجہ ہے۔
پاکستان کو خسارے میں چلنے والے حکومتی اداروں کی نجکاری پر توجہ دینا ہو گی جن کی وجہ سے ہر سال 1 ہزار ارب روپے سے زیادہ کا خسارہ جھیلنا پڑتا ہے۔ اصلاحات متعارف کروانے اور اس طرح کی فضول خرچیوں کو کم کرنے کے لیے ایک قومی پالیسی ایجنڈے کی ضرورت ہے جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت ضروری ہے۔
مختصر مدت میں طبقہ اشرافیہ کے درمیان جاری کشمکش معاملات کو مزید خراب کر رہی ہے۔ مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح اور عوام میں پیدا ہوتے احساس محرومی کو دیکھتے ہوئے، خدشہ ہے کہ اس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر سماجی اتھل پتھل پیدا ہو سکتی ہے۔
ایک پائیدار اقتصادی نقطہ نظر کے لیے ادائیگیوں کے توازن کو مستحکم کرنے کے لیے ڈالر کی آمدن میں حصہ ڈالنا ہے، بڑھتا ہوا شرح تبادلہ تشویش کی ایک بڑی وجہ ہے۔ پاکستان کافی عرصے سے کمزور ایکسچینج ریٹ میں کمی کی گرفت میں ہے۔
آج ایک ڈالر کی قیمت اب تک کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی جو تقریباً 286 پاکستانی روپے ہے۔ طویل عرصے میں، روپے کی قدر میں بڑی کمی برآمد کنندگان خاص طور پر ٹیکسٹائل کے برآمد کنندگان کے لیے بدترین ہے کیونکہ اس سے ان پٹ لاگت بڑھ جاتی ہے، جس سے برآمدات کم مسابقتی ہوتی ہیں۔
برآمدات کے ذریعے کمائے گئے ڈالر سب سے زیادہ پائیدار ہوتے ہیں جس کے اضافی فائدے کو واپس کرنے کی کوئی مجبوری،کوئی سود نہیں۔ لہٰذا، برآمدات کے ذریعے پیدا ہونے والے ڈالر پر توجہ مرکوز کرنا بانڈز سے کہیں بہتر آپشن ہے۔
زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم اجناس درآمد کرنے پر مجبور ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی اور ریسرچ سے ہمارے کاشتکار ایک ایکڑکی پیداوار میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ ماہرین کی مدد سے ان کاشتکاروں کی تربیت کی جائے، جس سے ہماری زرعی اجناس کی درآمدات میں کمی آئے گی اور 5 بلین ڈالرکے قریب زرمبادلہ میں اضافہ ہوگا۔ مہنگی گاڑیاں،کاسمیٹکس، کھانے پینے کی اشیا،گارمنٹس وغیرہ کی درآمدات پر پابندی لگائی جائے۔
ہمارا ہمسایہ ملک انڈیا ایسی اشیا جو درآمد کی جاتی ہیں جیسے گاڑیاں ان کی ٹیکنالوجی اپنے ملک میں لے آیا ہے اب تمام پارٹس ملک کے اندر بنتے ہیں جس سے معیشت بہتر ہوئی اور زرمبادلہ میں اضافہ ہوگا۔ قرضوں کی شرح کو کم کرنے کے لیے بڑے پروجیکٹس جیسے بھاشا ڈیم، داسو ہائیڈرو پاور وغیرہ جن سے سالانہ آمدن اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ چار سے پانچ سال میں اپنے اخراجات پورے کر لیتے ہیں۔
ان پروجیکٹس کے 49 فیصد شیئرز سرمایہ کاروں کو ڈالر میں دیے جائیں جس سے سرمایہ کاری آئے گی اور زر مبادلہ میں اضافہ ہوگا۔ ہمیں تھرمل کو کم کر کے ہائیڈرو پاور کی انرجی کو بڑھانا ہو گا تاکہ فرنس آئل پر جو ہمارے ڈالر خرچ ہوتے ہیں وہ بچیں گے۔
نوجوان کسی بھی ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جو ہماری آبادی کا 60 فیصد ہیں یعنی ہماری آدھی سے زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کی عمر 30 سال سے کم ہیں ان کو ٹیکنیکل مہارت دینی چاہیے جس کے بعد وہ نوجوان ملک کے اندر اور بیرون ملک سے وطن عزیز کو سرمایہ فراہم کرسکتے ہیں اور بے روزگاری کم ہوگی۔
پاکستان کو دور رس اور اہم فیصلے کرنا ہوں گے تاکہ اس بات سے قطع نظر کہ پاکستان میں کون سی حکومت برسر اقتدار ہے تاکہ ہمارا ملک، بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے لیے ایک موزوں اور پرکشش منزل بن جائے۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ ملک میں چند خاندانوں یا گروپوں کی اجارہ داری نہ ہو اور ہر کاروبار کو پھلنے پھولنے کے یکساں مواقع میسر ہوں۔
پاکستان کو دیکھنا ہوگا کہ اس کے ہم پلہ پوٹینشل رکھنے والے بنگلا دیش، ویت نام، پرتگال اور میکسیکو جیسے ملکوں نے آخرکن پالیسیوں پر عمل کیا کہ وہ بزنس کے مراکز بن گئے۔ سب سے پہلے تو یہ کہ پاکستان میں بزنس کے لیے توانائی سستے نرخ پر دستیاب ہونی چاہیے تاکہ سرمایہ کار بین الااقوامی مسابقت میں پیچھے نہ رہیں اور اشیا کی پیداوار اور مینوفیچکرنگ کی لاگت کم رہے۔
پاکستان کو خام مال کی درآمد پر تمام ٹیکسز اور ڈیوٹیز ختم کرنا ہوں گی۔ ایک اور اہم پہلو مشینری کی درآمدی ڈیوٹی کو ختم کرنا ہے کیونکہ اس سے ملک میں بنائی گئی اشیا کی قیمتیں بین الاقوامی سطح پر مقابلہ کر سکیں گی۔ پاکستان کی معیشت کی بحالی کا دارومدار ملک میں چھوٹے، درمیانے اور بڑے درجے کی مینوفیکچرنگ پر ہے۔پاکستان کو موجودہ حالات میں سرمایہ کاری کے مواقع کے بارے میں دنیا کو آگاہ کرنے کے لیے تین بڑے کام کرنا ہوں گے۔
ایک تو پاکستان کو اکنامک ڈپلومیسی کی مہم چلانا ہوگی۔ اس کو چلانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ پاکستانی سفارت خانوں کے ذریعے دنیا کے بڑے ممالک میں تسلسل کے ساتھ بزنس کمیونٹی سے روابط قائم کیے جائیں تاکہ سرمایہ کاروں کو ملک کے قدرتی وسائل کے پوٹینشل، اس کے محل وقوع اور بڑی آبادی کی مارکیٹ کے بارے میں بتایا جاسکے۔
پاکستان میں سیاسی استحکام اور پالیسیوں کا تسلسل، سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے واسطے بہت اہم ہیں۔ سرمایہ کار سب سے پہلے امن و ا مان اور استحکام پر توجہ دیتا ہے۔ پاکستان کو پہلے جنوبی ایشیا میں اور پھر دنیا بھر میں بزنس کے لیے ایک پرکشش ملک بنانے کے لیے جنگی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
The post بیرونی سرمایہ کاری اور پاکستانی معیشت appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/rSaEpAn