پاکستان، ایران کے درمیان تجارت کا فروغ

وزیراعظم شہباز شریف نے ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی کے ہمراہ پاکستان ایران سرحد کی مند پشین گزرگاہ پر ایران سے گوادر تک بجلی کی سو میگاواٹ کی ترسیلی لائن کے POLAN-GABD منصوبے کا افتتاح کیا۔

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے پاک ایران سرحد کو امن، بھائی چارے، ترقی اور خوشحالی کی علامت بنانے کے لیے سرحدی حفاظت کے لائحہ عمل کو مزید مستحکم کرنے کی تجویز دی۔

ایرانی صدر نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے عوام کے بہترین مفاد میں ایران پاکستان کے ساتھ تجارت کو بڑھانا چاہتا ہے۔ دونوں رہنماؤں نے مند پشین سرحدی گزرگاہ پر بارڈر مارکیٹ کا بھی افتتاح کیا۔ یہ منڈی ان چھ سرحدی منڈیوں میں شامل ہے جو پاک ایران سرحد پر تعمیر کی جائیں گی۔

بلاشبہ پاکستان اور ایران کی جغرافیائی سرحدیں صرف ’’جغرافیائی سیاسی‘‘ تقسیم کی وجہ سے ہیں ورنہ حقیقت میں پاکستان اور ایران کے عوام مشترکہ ثقافت، مذہب اور تاریخ و روایات کے حامل ہیں۔

دونوں ممالک کی ثقافت ایک جیسی، دونوں کے مفادات اور دشمن مشترکہ ہیں۔ پاکستان اور ایران کے درمیان سرحدی علاقے تجارت اور مالی لین دین کے لیے بہت موثر ثابت ہو سکتے ہیں۔ تجارت کے فروغ کے لیے سرحدی علاقوں کو فعال بنانے کی ضرورت ہے۔

اس وقت دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید بہتری کی جانب گامزن کرنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں، ایران اور پاکستان کے مفادات مشترک ہیں۔ پاکستان گندم اور ٹیکسٹائل سمیت ایران کو بہت سی اشیا برآمد کر سکتا ہے۔

یہ امر خوش آیند ہے پاکستان اور ایران نے تجارت اور معیشت سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے پر نہ صرف اتفاق کیا ہے بلکہ اس کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔

پاکستان خصوصاً بلوچستان کے عوام لیے یہ ایک تاریخی دن ہے، مند پیشین گزرگاہ سے علاقہ مکینوں کو روزگار اور تجارتی فوائد حاصل ہوں گے۔ بلاشبہ پاکستانی صوبے بلوچستان کے علاقے ’’مند‘‘ اور ایرانی صوبے سیستان اور بلوچستان کے علاقے ’’پیشین‘‘ کے درمیان باضابطہ سرحد کے افتتاح کو ایک عظیم اور تاریخی اقدام قرار دیا جاسکتا ہے، جس سے دونوں ملکوں کے مفادات کی فراہمی ہوگی۔

اس وقت تہران اور اسلام آباد، باہمی تعلقات کی تقویت کے راستے پر گامزن ہیں۔ پاک، ایران سرحد پر مند، پشین گزرگاہ ضلع کیچ تربت سے متصل اہم ترین کراسنگ پوائنٹ ہے، پاکستان اور ایران کے مابین سرحدی گزر گاہیں بڑھنے سے تفتان ، میر جاوہ بارڈر پوائنٹ پر ٹریفک کا بوجھ کم، اور کارکردگی بہتر ہو گی۔

دونوں ممالک کے درمیان 900 کلومیٹر سے زائد طویل سرحد ہے، جس پر دشوار گزار علاقے کی وجہ سے گشت کرنا مشکل ہے، اور یہی وجہ ہے کہ اسمگلروں کے لیے سرحد پار ایندھن کی نقل و حمل آسان ہو گئی ہے۔

کرپشن اور حکام کی جانب سے قوانین و ضوابط پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں ایرانی ڈیزل کی اسمگلنگ کو فروغ مل رہا ہے، پاکستان کی فیول مارکیٹ انتہائی ریگولیٹڈ ہے، لیکن کرپٹ افسران نے ایرانی ڈیزل کی اسمگلنگ پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔

اسمگلروں، مقامی سیاست دانوں، بدعنوان سرکاری عہدیداروں کے مضبوط گٹھ جوڑ کے بارے میں بھی اطلاعات ہیں، جو اس غیر قانونی تجارت کو مزید سہولت فراہم کرتے ہیں۔

بلوچستان کے علاقے پسماندہ ہیں، یہاں پانی، بجلی، سڑکیں نہیں ہیں، لیکن اسمگل شدہ ایرانی تیل کی فراوانی ہے، ریگستانی علاقوں میں ہر دوسرے شخص کا یہی ذریعہ معاش ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے قوانین و ضوابط پر عمل درآمد کے فقدان اور کرپشن نے جہاں پہلے ہی قومی معیشت کو غیر معمولی نقصان پہنچایا ہے، وہیں اسمگل شدہ ایرانی ڈیزل نے گھریلو ڈیزل کی کھپت کا تقریباً 40 فیصد حصہ چھین لیا ہے۔

آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے منظور شدہ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں (او ایم سیز) کی جانب سے ڈیزل کی قانونی فروخت میں نمایاں کمی کی تصدیق کی ہے، جس کے مطابق گزشتہ سال مارچ سے جون کے دوران ڈیزل کی اوسط کھپت 23000-30000 ٹن یومیہ کی حد میں رہی، اور فروری 2023 کے وسط سے ڈیزل کی اوسط فروخت کم ہو کر 15000 ٹن یومیہ ہونے لگی۔ اس کے بعد سے گراؤٹ کا رجحان جاری ہے، جس سے متعلقہ حکام کی کارکردگی پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔

اوگرا نے مزید بتایا کہ سرحد پار مصنوعات کی پاکستان اسمگلنگ سے ڈیزل کی فروخت میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 40 فیصد سے زائد کمی آئی ہے، اور اسمگل کیے گئے تیل کی قیمتوں کے بڑے فرق کی وجہ سے بلوچستان اور ملک کے دیگر حصوں میں تیل کے کاروبار کو ناقابل یقین طور پر متاثر کیا ہے۔

اوگرا حکام کے مطابق سرحد پار اسمگلنگ کا حجم تقریباً 4000 ٹن یومیہ ہے، جس کے باعث ماہانہ تقریباً 120,000 ٹن یا 143 ملین لیٹر ماہانہ فروخت کا نقصان ہورہا ہے، اور پٹرولیم لیوی اور کسٹم ڈیوٹی کی وجہ سے پہلے سے سکڑے ہوئے قومی خزانے کو 10.2 ارب روپے ماہانہ کا غیر معمولی نقصان ہوتا ہے۔

دوسری جانب ایران کا طویل بارڈر، سب سے بڑا چور رستہ بن چکا ہے جہاں یورپ جانے کے لیے ایران اور پھر ترکی کے راستے کنٹینرز اور کشتیوں کے ذریعے یورپی ممالک پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایرانی سرحد خاص کر ایرانی شہر تفتان غیر قانونی داخلے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ یہاں سے اکثر و بیشتر ایرانی سیکیورٹی فورسز، انسانی اسمگلرز میں پھنسے لوگوں کو نکال کر پاکستانی لیویز کے حوالے کردیتے ہیں۔

ایسے واقعات ہر روز پیش آتے ہیں اور اب تک انگنت افراد کو تفتان سے گرفتار کر کے لیویز کے حوالے کیا جاچکا ہے۔ غیر قانونی طور پر ایران میں داخل ہونے کی اصل وجوہات یہ ہیں کہ انسانی اسمگلرز لوگوں کو ایران سے ترکی اور پھر یونان کے راستے یورپی ممالک بھیج دیتے ہیں اور اس کام کے لیے وہ لاکھوں روپے کماتے ہیں۔ پاکستان میں انسانی اسمگلرز بھی ملک کے لیے مسلسل درد سر بنے ہوئے ہیں۔

بیشتر بے روزگار افراد اسمگلرز کا آسان ہدف ہوتے ہیں کیوں کہ انھیں بیرون ملک جاکر کمانے، دولت جمع کرنے اور جائیداد بنانے کے سنہری خواب دکھائے جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں انسانی زندگیوں کا ضیاع نئی بات نہیں۔ پاکستان میں ایک درجن اشیائے ضروریہ کی اسمگلنگ کا حجم تقریبا چار ارب ڈالر سالانہ ہو چکا ہے۔ زیادہ فکر انگیز بات یہ ہے کہ پاکستانی حکام اس میں سے 95 فیصد سامان ضبط کرنے میں ناکام رہے۔ یہ اندازہ صرف درجن بھر اشیائے ضروریہ کا ہے۔

دیگر اشیائے ضروریہ کی اسمگلنگ کا حساب کتاب کیا جائے تو بات بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسمگلنگ کا سامان پاکستان کے مختلف سیکٹرز میں پہنچا۔ اس میں تیل، موبائل فون اور بڑی مقدار میں چائے غیر قانونی طور پر پاکستانی مارکیٹوں تک پہنچی۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں فروخت ہونے والے74 فیصد موبائل فون غیر قانونی تجارت کے ذریعے یہاں پہنچتے ہیں۔ یہاں فروخت ہونے والا 53 فیصد ڈیزل، 43 فیصد انجن آئل، 40 فیصد ٹائر اور 16فیصد آٹو پارٹس بھی غیر قانونی تجارت کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ پاکستانی مارکیٹوں میں فروخت ہونے والی23 فیصد چائے اور 20 فیصد سگریٹ بھی اسمگلنگ کا مال ہوتے ہیں۔ تین لاکھ ٹن کپڑا بھی اسمگلنگ کا مال ہوتا ہے۔

44 ارب روپے کی ادویات بھی غیر قانونی تجارت کے ذریعے پاکستان کی مارکیٹ میں داخل ہوتی ہیں۔پاکستان میں اب تک اسمگلنگ کی سزا اور جزا کا نظام بڑا عجیب سا ہے۔ یہاں ایک فرد پر ایف آئی آر کٹ جاتی ہے، اس کا کچھ سامان ضبط ہوتا ہے اور پھر بس! معاملہ ختم۔ حالانکہ اسمگلنگ میں ملوث افراد کو کڑی سزائیں دینے کی ضرورت ہے۔

اسمگلنگ کے پورے نیٹ ورک میں سہولت کار بھی ہوتے ہیں مثلاً کسٹم اہلکار۔ اگر افغانستان سے مال بذریعہ چمن بارڈر پاکستان میں داخل ہوتا ہے تو اسے پنجاب تک پہنچنے میں پانچ سات چیک پوسٹوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ وہاں کے اہلکار بھی اس نیٹ ورک میں شامل ہوتے ہیں۔ اس لیے ہر کسٹم اہلکار کے مالی معاملات کا باقاعدہ جائزہ لینا چاہیے کہ اس کے اثاثوں میں کتنا اضافہ ہوا ؟ اس کے بیوی بچوں اور خاندان کے دوسرے افراد کے اثاثوں کو چیک کیا جائے۔

دیکھا جائے کہ اس کے کوئی بے نامی اثاثے تو نہیں۔ اسے مجبور کیا جائے کہ وہ ہر سال اپنے اثاثوں کے گوشوارے جمع کرائے۔ اس کے معاملات کی انویسٹی گیشن کے لیے باقاعدہ الگ ونگ بنایا جائے۔ اسمگلنگ کے نیٹ ورک میں ٹرانسپورٹر بھی شامل ہوتے ہیں، انھیں بخوبی علم ہوتا ہے کہ وہ جو مال لے کر جا رہے ہیں، وہ اسمگلنگ کا ہے یا عام۔

ایران اور پاکستان نے جس طرح اسمگلنگ کے روک تھام اور باہمی تجارت کے فروغ کے لیے عملی اقدامات اٹھائے ہیں، ایسے ہی افغانستان کو بھی چاہیے کہ وہ پاکستان کے ساتھ مشترکہ تجارت کو قانونی شکل دینے کے لیے اقدامات کرے ،تاکہ خطے میں ترقی وخوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہوسکے۔

The post پاکستان، ایران کے درمیان تجارت کا فروغ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/e17iDR5
Previous Post Next Post

Contact Form