ستر کی دہائی میں نیپال کے شاہی خاندان میں شادی تھی۔ بادشاہ کے محل میں تقاریب حد درجہ مہنگی اور رنگین تھیں۔ دنیا سے بادشاہ‘ شہزادے‘ شہزادیاں‘ وزراء اعظم اور صدور مدعو کیے گئے تھے۔
پرتکلف ضیافتوں کا اہتمام تھا۔ حکومت پاکستان کے نمایندے نے بھی اس میں شرکت کرنی تھی۔ کسی دانا انسان نے حکومت کو مشورہ دیا کہ قوالی کی صنف میں غلام فرید صابری اور مقبول صابری کے پایہ کے قوال موجود نہیں ہیں۔ بہتر ہو گا کہ شاہی شادی میں موسیقی کے ان اساتذہ کی شمولیت کروائی جائے۔ سرکاری سطح پر نیپال کے شاہی خاندان سے بات ہوئی۔ اور اس طرح صابری قوال نیپال پہنچ گئے۔ پوری دنیا سے گائیک اور موسیقار بھی آئے ہوئے تھے۔
ہندوستان سے بھی ثقافتی طائفہ پہنچ چکا تھا۔روزانہ‘ تقریبات ہوتی تھیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک گائیک اور گائیکہ اپنے فن کا مظاہرہ کرتا تھا۔ داد بھی کھل کر ملتی تھی۔ اور پیسوں کی صورت میں انعام بھی بارش کی طرح برستا تھا۔ شادی کی تقریب سے چند دن پہلے صابری صاحبان کو قوالی پیش کرنے کا کہا گیا۔ صابری قوال‘ اردو ‘ فارسی اورصوفیاء کا کلام کثرت سے استعمال کرتے تھے۔ اپنی قوالی میں قرآن کی آیتوں کو بھی کمال خوبصورتی سے استعمال کرتے تھے۔
بہر حال جب اپنی باری پر غلام فرید ‘ مقبول صابری نے قوالی شروع کی تو سماں بندھ گیااور سامعین اور پر وجد طاری ہو گیا۔ سامعین نے صابری قوال کے بعد کسی کو بھی سننے سے انکار کر دیا۔ صابری برادران دل کھول کر گایا اور کمال کر دیا۔
شاہی خاندان کو مسحور کر کے رکھ دیا۔ ان کی روانگی کو مؤخر کر دیا گیا۔ اب وہ تقریباً روز اپنی قوالی سے بادشاہ اور ان کے خاندان کو محظوظ کرتے تھے۔ نیپال کے اخبارات میں ہر مقام پر ان کی تصاویر چھپتی تھیں۔ ہر جگہ قوالی کی دھوم مچ گئی تھی۔ خیر‘ ایک ڈیڑھ ہفتہ کے قیام کے بعد جب یہ قوال واپس آئے۔ تو انھیں ’’سفیران پاکستان‘‘ کا خطاب دیا گیا۔
اس سے پہلے کہ ذکر کروں کہ صابری برادران کون تھے۔ کہاں سے آئے۔ کن کن صعوبتوں اور قیامتوں سے گزرے۔ اس کے ساتھ ساتھ کتنا عروج دیکھا۔ ایک گزارش کرنا چاہتا ہوں۔ اس نکتہ کی بنیاد صرف یہ ہے کہ علم موسیقی سے تھوڑی سی شد بد رکھتا ہوں۔
اچھے گیت‘ نغمہ یا قوالی کو سمجھتا ہو۔ مگر یہ بھی درست ہے کہ بے سرے گانے ‘ کلام‘ گانوں اور صوفی قوالیوں کو بھی پہچانتا ہوں اور ان سے دور بھاگتا ہوں۔ آج کل کیونکہ سوشل میڈیا کا بول بالا ہے۔ مقبولیت کی سند صرف یہ ہے کہ کتنے انسانوں نے‘ یوٹیوب پر کسی گیت یا قوالی کو کتنا پسند کیا ہے۔ مگر یہ سند‘ حد درجہ سطحی نوعیت کی ہے۔ اب تو پاپ سنگرز نے مشہور قوالیوں کو بھی گانا شروع کردیا ہے۔
چند دن پہلے‘ ایک پاکستانی پاپ سنگر کی قوالی سننے کا اتفاق ہوا۔ یہ لازوال موسیقی ’’تاجدارحرم‘‘کی کوئی حد درجہ ادنیٰ سا چربہ تھی۔ اس قوالی کو صابری برادران پچاس برس پہلے گا چکے ہیں۔ صابری برادرز کی گائی ہوئی قوالی اور آج گائی جانے والی قولی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ قطعاً یہ عرض نہیں کر رہا کہ ہماراگائیک کسی طور پر بھی کمتر ہے۔ مگر قوالی اتنی مشکل اور پیچیدہ صنف موسیقی ہے کہ اس پر صرف اساتذہ ہی حاوی ہو سکتے ہیں۔
تاجدار حرم پر جو وجد‘ صابری قوال طاری کر سکتے ہیں‘ ان کے بعد‘ یہ کسی بھی گائک کے لیے تقریباً ناممکن ہے۔ اس قوالی میں قرآنی آیات ‘ فارسی تراکیب اور رسول کریمﷺ کے اسماء مبارک کا اس مہارت سے استعمال کیا گیا ہے کہ سننے والے کے پاس داد کے لیے الفاظ کم پڑ جاتے ہیں۔ اپنے ملک کو تھوڑی دیر کے لیے بھول جایئے۔
نیویارک کے Carniage hall اور لندن کے Royal Albert hall میں جب موسیقی کے ان جادوگروں نے قوالی گائی‘ تو سیکڑوں نہیں‘ ہزاروں گورے اور گوریاں خواتین‘ وجد میں رقص کرنے لگ گئے۔یاد رہے کہ جہاں وہ گا رہے تھے‘ وہاں ان کی قوالی کی زبان کو سمجھنے والا کوئی بھی نہیں تھا۔ ان کی مقامی زبان تو انگریزی تھی۔ مگر صابری صاحبان نے سر‘ لے اور تال سے وہ سماں باندھا کہ لوگ بے خود ہوگئے۔ اب اس درجہ کی ریاضت اور مہارت حاصل کیے بغیر قوالی گانا زیادتی کی بات ہے۔
بھئی‘ آپ نے گانا ہی ہے تو آج کل کی طرز پر کچھ بھی گا ڈالو۔ داد مل جائے گی۔ پیسے بھی آ جائیں گے۔ مگر اساتذہ کی لافانی قوالی اور نغموں کو گانا‘ نامناسب ہے۔ خدارا‘ موسیقی میں اساتذہ کے گائے ہوئے کلام کو بخش دیجیے۔ اپنی مرضی سے موجودہ ماحول سے کوئی بھی چیز گا لیجیے ۔ اور اگر بہت شوق ہے تو اپنی گائکی کی وڈیو بھی بنوا لیں۔
مگر التجا ہے کہ جن اساتذہ اور فنکاروں نے پوری عمر‘ موسیقی کے فن کو دان کر ڈالی‘ جنھوںنے مصائب‘ غربت اور مشکلات میں اس علم کو سینے سے لگا کر رکھا۔ جو گھنٹوں نہیں‘ پہروں ریاض کرتے رہے‘ پھر جا کر اپنے فن میں پختہ ہوئے۔ ان کے گائے ہوئے کلام پر ہاتھ نہ ڈالیے۔ یہ ان گائیکوں کی توہین بھی ہے۔ مگر یہاں تو خود ساختہ فنکار‘ سوشل میڈیا پر لائکس گننے میں مصروف ہوتے ہیں۔ موسیقی کے علم پر ان کی کتنی دسترس ہے‘ یہ تو اب سنجیدہ نکتہ رہا ہی نہیں۔
ویسے پاکستانی گائیکوں کو چھوڑئیے‘ ہندوستان کے سینئر گائک‘ عدنان سمیع نے بھی غلام فرید صابری قوال کی گائی ہوئی بہترین قوالی کو اپنے رنگ میں گانے کی کوشش کی ہے۔ مگر سچ بات تو یہ ہے کہ وہ بھی مکمل طور پر ناکام رہا۔ جس بلند سطح پر صابری قوال‘ گا چکے ہیں۔ اس سطح کے قریب قریب بھی عدنان سمیع نہیں پہنچ پایا۔
گزارش کرنے کا مرکزی نکتہ صرف ایک ہے۔ برصغیر میں اساتذہ جو کچھ گا چکے ہیں۔ ان کو دوبارہ اس اوج ثریا پر گانا ممکن نہیں رہا۔ بیگم اختر فیض آبادی‘ کے ایل سہگل‘ بڑے غلام علی خان ‘ رفیع ‘ امانت علی خان‘ نصرت فتح علی خان‘ مہدی حسن‘ روشن آراء بیگم‘ غلام علی‘ جس سنجیدہ طرز پر غزلیں ‘ ٹھمریاں ‘ قوالیاں وغیرہ گا چکے ہیں۔
اب اس طرز پر ان کو موجودہ دور میں‘ اسی سطح پر گانا ممکن نہیں رہا۔ یہ عرض نہیں کر رہا کہ موجودہ دور میں اچھا گانے والے موجود نہیں ہیں۔ بالکل ہیں۔ اور ہر آنے والے دور میں رہیں گے۔ مگر دوبارہ غرض کرونگا کہ جن انسانوں کو خدا نے سریلی آواز بخشی ہے ان اساتذہ کی نقل کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔
بیگم اختر‘ غزلیں گایا کرتی تھیں۔ اس کی ایک غزل ’’اے محبت تیرے انجام پہ رونا آیا‘‘اسی گہرے انداز سے دوبارہ کوئی نہیں گا سکتا۔ بالکل اس طرح‘ حکیم مومن خان مومن کی کمال غزل’’وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا‘‘ جس مہارت سے بیگم اختر فیض آبادی نے گائی ہے۔آج بھی سنیں تو انسان وقتی طور پر کسی اور جہاں میں چلا جاتا ہے۔ کے ایل سہگل‘ برصغیر کے موسیقی کا ایک مضبوط ستون تھا اور ہے۔ اس کا گایا ہوا نغمہ ’’جب دل ہی ٹوٹ گیا‘ اب جی کے کیا کرینگے‘‘ ہر دور میں امر ہے۔ اب اگر کوئی نیا فنکار‘ کے ایل سہگل کے ان نغموں کو دوبارہ گانا شروع کر دے۔ تو صرف افسوس کیا جا سکتا ہے۔ ناشناس جو کہ افغانستان کا ایک معروف گویا تھا۔
اس نے کمال محنت کے بعد‘ کے ایل سہگل کے گانوں کو دوبارہ گایا ہے۔ حد درجہ خوبصورت آواز کے مالک ہونے کے باوجود‘ ناشناس ‘ کے ایل سہگل کی سطح پر نہیں پہنچ پایا۔ ہمارے دور میں نصرت فتح علی خان کی آواز نے چند قوالیوں اور نغموں کو امر کر ڈالا ہے۔ اس کی قوالی‘ ’’تو ایک گورکھ دھندہ ہے‘‘ اس زبردست طور پر گائی گئی ہے کہ کسی بھی گائک کی ہمت تک نہیں ہوئی کہ اس کو دوبارہ گانے کی کوشش بھی کر سکے۔ ناز خیالوی کے کلام کو جس طرح نصرت فتح علی نے گایا ہے۔ اس سے شاعر کا کلام بھی آفاقی ہو چکا ہے۔
جس بلند ترین آواز کی لے پر نصرت گا سکتا ہے۔ کم از کم برصغیر میں تو اس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ کیا امانت علی خان کی دھیمی اور مدھر آواز میں کوئی بندہ‘ اس کی گائی ہوئی غزلوں اور نغموں کودوبارہ گا سکتا ہے۔ ممکن نہیں ہے۔
صاحب۔ بالکل ممکن نہیں۔ بڑے غلام علی خان کی گائی ہوئی حد درجہ مشہور ٹھمری ’’باغوں میں پڑے جھولے‘‘۔ کیا اب دوبارہ اسی کرب سے گائی جا سکتی ہے۔ قطعاً یہ عرض نہیں کر رہا کہ نئے دور میں اچھے گائک نہیںہیں۔ بالکل ہیں۔ ہر دور کے اپنے بلند پایا یہ فنکار ہوتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود‘ اساتذہ کے گائے ہوئے نغمے اور غزلوں پر ہاتھ صاف کرنا مناسب نہیں ہے۔ ہاں۔ اگرسخت محنت سے کوئی فنکار ان کلاسیکی گائکوں تک پہنچ جائے۔ تو شاید پھر ٹھیک ہے۔
پر شاید ایسا ممکن نہیں ۔ چند آوازیں لازوال ہوتی ہیں۔ اور ہر دور میں کامیاب رہتی ہیں۔ نئے گلوکاروں کو ان پرانے گویوں کو بخش دینا چاہیے۔ کیونکہ ان کی آوازیں صرف اور صرف لازوال تھیں!
The post لازوال آوازیں! appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/AxUMOGl