سبق لیجیے ورنہ ’’ سبق ‘‘ بننے میں دیر نہیں لگتی

اللہ کا شکر ہے کہ علامہ نیاز فتح پوری کو تھوڑا سا پڑھ کر ہم بھی :

خط کا مضمون بھانپ لیتے ہیں لفافہ دیکھ کر

بعض بزرگوں سے یہ روایت ہم تک پہنچی کہ نگار جیسے شہرہ عالم مجلے کے مدیر اپنے نام آنے والے خطوط کے لفافے پر پتہ لکھنے کے طرز ہی سے مکتوب نگار کا مْدا (Mudda) نہیں مدعا سمجھ لیتے تھے یعنی بعض اوقات وہ لفافے پر پتے کا اندازِ تحریر دیکھتے ہی اسے کوڑے دان کی خوراک بنا دیتے تھے ۔

شکر ربی کہ ہم جیسے ’’عقل ناک ‘‘ کو بھی واٹس ایپ بھیجنے والے کی خوشبو کی ضد پوسٹ اوپن کرنے سے قبل اپنا تعارف کرا دیتی ہے اور ہم موبائل کے کوڑے دان یعنی ’ ڈی لیٹ‘ کے بٹن کو چھو لیتے ہیں، باقی کام وہ خود کر لیتا ہے۔ آج کسی دوست نے واٹس ایپ پر ایک ایسی پوسٹ بھیجی کہ ہم نے اسے ایک بار نہیں دو بار پڑھا سو آج ہم اپنے کالم میں اس پوسٹ کے مفہوم میں اپنے قارئین کو شریک کریں گے۔

’’ ایک نو دولتیے جاپان گئے اور ایک بڑے ہوٹل میں قیام کیا جہاں سوئمنگ پول بھی تھا، موصوف نے ایک صبح جب سوئمنگ پول میں کوئی اور نہیں تھا، اس میں ڈْبکی لگائی اور خاصی دیر تیرتے رہے ، انھیں شرارت سوجھی اور حضرتِ والا نے سوئمنگ پول میں اپنے’’ آب کو پیش ‘‘ کر ڈالا، پھر پتہ چلا کہ جاپانیوں نے ایک ایسا کیمیکل سوئمنگ پول میں ڈال رکھا تھا کہ اگر کوئی شخص سوئمنگ پول کے پانی کو غلیظ کرنے کا مرتکب ہوتا ہے تو آن کی آن سوئمنگ پول کا تمام پانی ایک عجب رنگ اختیار کر لیتا ہے اور ہوٹل کی انتظامیہ کو فوراً اِس حرکت ِقبیح کا پتہ چل جاتا ہے ، سو ایسا ہی ہوا، ہوٹل کے کارندے آئے اور انھوں نے اس ’’صاحب ِ قبیح‘‘ کو سوئمنگ پول ہی سے نہیں نکالا بلکہ ہوٹل سے باہر کا راستہ بھی دکھا دِیا۔

موصوف نے دیگر ہوٹلوں کے ریسپشنز پر حاضری دی مگر سب نے اْن کا پاسپورٹ دیکھتے ہی ٹرخا دِیا، یعنی آن کی آن سوئمنگ پول میں ’’ آب ِ نجس ‘‘ کی خبر پورے جاپان میں عام ہو گئی، چار و ناچار حضرتِ والا کے پاس جاپان سے راہ فرار کے سوا کوئی متبادل نہیں بچا تو وہ جب ایئر پورٹ کے امیگریشن کائونٹر پر پہنچے تو جاپانی امیگریشن والوں نے اپنے کمپیوٹر پر حضرت ِوالا کو چیک کیا اور پھر اِن لفظوں کے ساتھ موصوف کو الوداع کیا۔

’’ اچھا تو آپ ہی ہمارے ملک میں پ ی ش آ ب کرنے آئے تھے۔ ‘‘

ہمارا اِیمان ہے کہ ہمارے دونوں کاندھوں پر کراماً کاتبین بیٹھے ہماری ایک ایک نیک و بد حرکت کو ریکارڈ کر رہے ہیں اور یہ سارا ریکارڈ حشر کے دن، وہاں کے امیگریشن کائونٹر کے کمپیوٹر اسکرین پر واضح ہوگا، کچھ لوگ اسے قصہ کہانی سمجھتے ہیں مگر جاپانیوں نے تو یہ ثابت کر دیا کہ اب یہاں ( دْنیا میں) بھی ایسا ہوسکتا کہ جو کچھ آپ … ’’پھیلا ‘‘ … رہے ہیں وہ سب پانی کا پانی اور گند کا گند کھل کر سامنے آجائے گا۔

آج دْنیا کی ترقی اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ کسی کی کوئی بات ہی نہیں بلکہ حرکت و سکنات (باڈی لینگویج) تک، آن کی آن اظہر من الشمس ہو جاتی ہیں۔

اس وقت ہندوستان میں کرناٹک ریاست کے اسمبلی الیکشن کے نتائج میں وہاں کے مسلمانوں کے شعور کا عجب مظاہرہ سامنے آیا اور وہ پورے ہندوستان میں ایک تحسین اور مثال کے طور پر موضوعِ گفتگو بنا ہوا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی) کے عروج کے اس دور میں کرناٹک جہاں سالِ گزشتہ حجاب کو ایک مسئلہ بنا کر تمام مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا تھا جس کے جواب میں ’’ مسکان ‘‘ نامی ایک مسلم لڑکی نے جس جرات کا مظاہرہ کیا وہ بھی تمام دْنیا میں ایک مثال بن گیا، اْسی کرناٹک کے مسلمانوں نے حالیہ اسمبلی الیکشن میں اپنے ووٹوں کی یکجہتی کی ایک غیر معمولی نظیر پیش کی ، جس سے پتہ چلا کہ ’’ ہم‘‘ چاہیں تو اپنے عدو کو خاک چٹا سکتے ہیں، بی جے پی نے اس ریاست میں جس طرح اپنی طاقت جھونکی تھی ، اْس طاقت کو یہاں کے مسلمانوں نے واقعتاً ایک ’’ جھونک‘‘ ہی ثابت کر دِیا۔ ایک صاحبِ فن نے واٹس ایپ پوسٹ پر اپنی عقل مندی کا کیسے مظاہرہ کیا وہ بھی ہم جیسوں لفاظوں کے لیے ایک نمونہ بن گیا ہے، اْس شخص نے غالباً بی جے پی کے سیوَک کو مخاطب کرتے ہوئے انگریزی میں لکھا :

’’اور کر… ناٹک‘‘

ہم شمالی ہند کے شاعروں ادیبوں سے جنوبی ہند کے لکھنے پڑھنے والوں کو ایک شکوہ رہا ہے کہ آپ یو پی والے ہمیں نہیں گردانتے، تو اسی جنوبی ہند (کرناٹک) کے ایک مسلم دوست نے یو پی کے لوکل باڈیز کے حالیہ انتخابات کے صرف ایک شہر کے نتائج کا ہمیں آئینہ دِکھایا جہاں مسلمانوں کی تعداد تمام دْنیا پر واضح ہے اور وہاں ’ہائوس‘ میں ہمیشہ مسلمان ہی چیئرمین بنتا رہا ہے مگر اس بار الیکشن میں بازی اْلٹ گئی۔ ہوا یوں کہ ایک وارڈ (حلقے) میں (مثلاً) تین ہزار مسلم ووٹ تھے، اس کے برعکس مقابل فرقے کے ڈیڑھ ہزار ووٹ تھے۔ مسلمانوں کے ایک ہزار ووٹ سماج وادی پارٹی کے مسلم امیدوار نے کھا لیے۔

’ بی ایس پی‘ کے مسلم امیدوار نے بھی کم و بیش ایک ہزار مسلم ووٹ ہضم کر لیے، تیسری پارٹی کے مسلم امیدوار نے بھی یہی ’ کارنامہ ‘ انجام دیا ، نتیجہ یہ نکلا کہ صرف ڈیڑھ ہزار ووٹ حاصل کرنے والا مسلم مخالف امیدوار فتحیاب ہوگیا، اگر کرناٹک کی طرح دیو بند کے مسلمان ، ووٹوں کی تقسیم سے بچنے کی حکمت ِعملی اپناتے تو بھگوا فرقہ پرست منہ کی کھاتا مگر شمالی ہند والے ہم سے سبق کیوں لیں گے۔! خیر جو ہوا سو ہوا آیندہ ’ عقل ناکی ‘ اور ’ عقل مندی ‘ کا فرق اپنے لوگوں کو سمجھا لیں کہ بعض سبق بہت ضروری ہوتے ہیں اگر ان سے چشم پوشی کی تو وہ چشم پوشی کرنے والے کو سراپا ’ سبق‘ بھی بنا دیتے ہیں۔

اسی طرح کی باتیں ممبئی کے ایک اْردو اخبار کے اداریہ نگار نے بھی لکھی ہیں بلکہ مزید سخت لفظوں میں، واضح رہے کہ یہ اداریہ لکھنے والا بھی یو پی ہی سے تعلق رکھتا ہے اور ہم بھی۔ بیشک سب ایک جیسے نہیں ہوتے مگر بعض معاملات میں چند مچھلیاں پورے تالاب کی ’ نیک نامی‘ کے سبب کے ساتھ مسئلہ بھی بن جاتی ہیں۔

The post سبق لیجیے ورنہ ’’ سبق ‘‘ بننے میں دیر نہیں لگتی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/tyvhABW
Previous Post Next Post

Contact Form