ریڈیائی فلکیات سے صنعتی و علمی انقلاب آسکتا ہے

اگرچہ پاکستان ایٹمی اور میزائل ٹیکنالوجی کی صلاحیت کا حامل ملک ہے لیکن سائنس و ٹیکنالوجی کے دیگر شعبہ جات یعنی خلائی ٹیکنالوجی و تسخیر، سیمی کنڈکٹر،اینٹینا ڈیزائننگ، ریڈیو فری کوئنسی (آر ایف) انجینیئرنگ، بلند معیاری کمپیوٹنگ اور فلکیا میں ہم ابھی تک بہت پیچھے ہیں۔

تاہم ریڈیائی فلکیات (ریڈیو آسٹرونومی) ایک ایسا ہمہ گیر میدان ہے جس میں تحقیق و ترقی کے ساتھ پاکستان ٹیلی مواصلات، دفاع، طبی عکس نگاری اور بڑے ڈیٹا کے علوم میں اپنی صلاحیتوں کو بڑھا سکتا ہے۔

ریڈیائی فلکیات کسے کہتےہیں؟

ہم جانتے ہیں کہ کئی آسمانی اجسام روشنی خارج کرتے ہیں، حرارت پیدا کرتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ وہ ریڈیائی امواج بھی خارج کرتے ہیں۔ ان میں ستاروں سے لے کر نیبولہ تک اور پلسار سے لے کر بلیک ہول تک شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ریڈیائی فلکیات کائناتی تحقیق کا ایک دلچسپ اور قدرے کم خرچ طریقہ بھی ہے۔ دوسری جانب اسی ٹیکنالوجی سے دیگر عملی علوم بنے اور کئی صنعتی فوائد حاصل ہوئے ہیں۔

مثلاً ریڈیائی فلکیات کا ایک ممکنہ دلچسپ پہلو وائی فائی ٹیکنالوجی ہے۔ ہوا یوں کہ آسٹریلیا کے قومی خلائی ادارے، سی ایس آئی آر او نے بلیک ہول سے آنے والے لیکن بکھرے ہوئے ریڈیائی سگنلوں کو جمع کرنے کے طریقے وضع کیے ہیں اور یوں ہمیں وائی فائی ٹیکنالوجی ملی۔ اسی طرح ریڈیو فلکیات میں ڈیٹا کا حصول عین میگنیٹک ریزونسس امیجنگ (ایم آرآئی) کی طرح ہوتا ہے جو بیماریوں کی عکس نگاری کےلیے  طب میں استعمال ہوکر لاکھوں کروڑوں افراد کی جان بچارہا ہے۔

ریڈیائی فلکیات کے اتنے پہلو ہیں کہ ان سے مختلف شعبوں کے سائنسدانوں کے درمیان تعاون اور اختراع کے نئے باب کھلتے ہیں۔ مثلاً پاکستانی جامعات حوصلہ افزائی اور کچھ فنڈنگ کے ذریعے ریڈیائی فلکیات کے شوقیہ مںصوبے شروع کرسکتی ہے۔ اس سے طلبا و طالبات کو سیکھنے اور خوداعتمادی حاصل کرنے کے نئے پلیٹ فارم ملیں گے اور یوں نت نئی آسمانی دریافتوں کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔
اب اسے وسیع تناظر میں دیکھیں تو پاکستان کا قومی خلائی ادارہ اور اس سے وابستہ ایجنسیاں (سپارکو، این سی جی ایس اے، آئی ایس ٹی اور اسپا وغیرہ) دیگر مواصلاتی اداروں کے ساتھ مل کر مشترکہ طور پر ملک میں ریڈیائی فلکیات پر بین الاقوامی معیار کا کم سے کم ایک تحقیقی ادارہ تو ضرور بنائیں۔ اس کی ایک مثال بھارت میں ’جائنٹ میٹر ویو ریڈیو ٹیلی اسکوپ (جی ایم آر ٹی) ہے جو دنیا بھر میں موجود ریڈیائی رصدگاہوں کے مقابلے میں بہت ہی کم خرچ ہے۔

ملک میں قومی مرکز برائے طبیعیات (این سی پی)، اسلام آباد، کراچی میں ایچ ای جے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ برائے کیمسٹری اور دیگر ادارے بھی اپنے اپنے سائنسی مقاصد کےلیے دستِ تعاون بڑھا سکتے ہیں۔ ملک کے بہت سے سائنسی ادارے اپنے شعبوں اور دلچسپی کے لحاظ سے فلکی طبیعیات، فلکی ذراتی طبیعیات، فلکیاتی کیمیا، فلکیاتی حیاتیات، سولر فزکس اورنظامِ شمسی سے باہر سیاروں کی تلاش بین الموضوعاتی شعبوں (انٹر ڈسپلنری) کے درمیان اشتراک کرسکتےہیں۔ اس سے ملکی اداروں کے درمیان تحقیق وترقی کے تعاون کا ایک دور شروع ہوسکتا ہے جو پوری دنیا میں سائنسی ترقی کو تیز کرنے کےلیے اختیار کیا جاتا ہے۔ یوں ملک میں سائنسی اداروں کے درمیان تحقیقی شراکت کی بہت ضرورت ہے۔

ابھرتے ہوئے ممالک مثلاً بھارت ’جائنٹ میٹر ویو ریڈیو ٹیلی اسکوپ (جی ایم آرٹی)، اور جنوبی افریقہ نے اسکوائر کلومیٹر ایرے (ایس کے اے) جیسے منصوبے شروع کیے۔  توقع ہے کہ ایس کے اے پروجیکٹ  نئی صنعتوں اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے ساتھ ساتھ ہزاروں نئی ملازمتیں بھی پیدا کرے گا۔ اب مزید 8 افریقی ممالک فاصلاتی اسٹیشن کے ساتھ، ایس کے اے کا حصہ بن رہے ہیں۔ اس طرح نہ صرف سائنسی تحقیقات میں مختلف ممالک کے اداروں کا اشتراک ممکن ہوگا بلکہ اس طرح کی سائنسی کاوشیں مستقبل کی نسلوں کےلیے بھی مفید ثابت ہوں گی اور بہت امکان ہے کہ اس سے افریقہ کے بارے میں دنیا کا لگا بندھا تصور بھی تبدیل ہوسکے گا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مختلف اداروں کے درمیان تعاون سے سائنسی ترقی کی شاندار مثالیں سامنے آتی رہی ہیں۔ پھر ایس کے اے میں شریک ممالک کو ایک فائدہ یہ بھی حاصل ہوگا کہ ان کے محقق اور ماہرین کو امریکا، یورپ، چین، آسٹریلیا اور بھارت وغیرہ میں جانے اور اپنی امکانی استعداد بڑھانے میں مدد ملے گی۔

بلوچستان میں ریڈیو انٹر فیرومیٹری کے روشن امکانات

’’ریڈیوانٹرفیرومیٹری‘‘ ریڈیائی فلکیات میں ایک ایسا طریقہ ہے جس میں بہت سی ریڈیائی دوربینوں سے حاصل ہونے والی معلومات یا ڈیٹا ایک جگہ جمع کیا جاتا ہے۔ صوبہ بلوچستان میں ایسے بہترین اور پرسکون مقامات موجود ہیں جہاں آبادی نہ ہونے کی وجہ سے انہیں ’’ریڈیو امواج کےلیے خاموش علاقے‘‘ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس جگہ پر دوربینوں کی ایک قطار تعمیر کی جاسکتی ہے۔ پھر تمام دوربینوں کو ریڈیو انٹر فیرومیٹر تکنیک سے جوڑ کر فلکیات کے اس شعبے میں ترقی کی جاسکتی ہے۔

صوبہ بلوچستان کی مرکزی حیثیت رکھتے ہوئے پاکستان کے دیگر علاقوں میں اس سے منسلک چھوٹی چھوٹی ریڈیائی رصدگاہیں قائم کی جاسکتی ہیں۔ یہ سب باہم مل کر ایک بڑے اور طاقتور انٹرفیرومیٹر میں ڈھل سکتی ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ جدید فلکیاتی ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ انتہائی تفصیلی (ہائی ریزولوشن) تصاویر لی جاسکتی ہیں۔ اس طرح نظرانداز کردہ بلوچستان کا ایک شاندار ٹیکنالوجی روپ بھی سامنے آسکے گا۔

اگرچہ اس میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی لیکن اس کے فوائد بھی بہت ہوں گے۔ اس سے بین الاقوامی تعاون بڑھے گا، بین الجامعاتی تحقیق پروان چڑھے گی اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین ایک مشترکہ مقصد کی جانب بڑھیں گے۔ سب سے بڑھ کر ملک میں مشترکہ سائنسی تحقیق کا ایک نیا در کھلے گا۔

بلوچستان اور فلکیاتی سائنس

منصوبے کی کامیابی کےلیے ضروری ہے کہ صوبہ بلوچستان سے ہی ماہرین، عملہ اور تکنیکی ماہرین بھرتی کیے جائیں۔ دوسرے مرحلے پر ملک کے دیگر علاقوں سے رابطہ کیا جائے۔ توقع ہے کہ یہ منصوبہ یورپی نیوکلیائی تحقیقی مرکز ’’سرن‘‘ جیسی ایک چھوٹی شکل اختیار کرے گا۔ سرن نے نہ صرف پورے یورپ میں جدید سائنس و ٹیکنالوجی کو فروغ دیا ہے بلکہ اس سے آنے والی نسلیں بھی استفادہ کررہی ہیں۔ اس سے نئی اختراعات اور ٹیکنالوجی کا ظہور بھی ہوا ہے۔

پاکستان کو کوشش کرنا ہوگی کہ اس کی تیارکردہ فلکیاتی دوربینیں بین الاقوامی معیار کی ہوں، جن میں ایس کے اے اور بین الاقوامی ایونٹ ہورائزن ٹیلی اسکوپ (ای ٹی ایچ) شامل ہیں۔ ای ٹی ایچ مجازی طور پر زمینی جسامت کی ایک دوربین ہے جس سے پہلی مرتبہ 2019 میں بلیک ہول کی براہِ راست تصویر لی گئی تھی اور دنیا حیران رہ گئی تھی۔

ایسے منصوبوں کے اشتراک سے ملک میں سائنسی آلات بنانے کی لہر چلے گی جس میں ڈیزائننگ اور تیاری جیسے اہم عوامل شامل ہیں۔ اسی طرح ہم ہائی پرفارمنس کمپیوٹنگ اور سگنل پراسیسنگ صلاحیتوں کو حاصل کرسکیں گے۔ یوں ٹیکنالوجی اور اعلیٰ مہارت کی افرادی قوت میسر ہوسکے گی۔

اسی کے تحت نئے اینٹینا اور آر ایف انجینئرنگ سے ملک کی بہت سی صنعتیں مستفید ہوں گی۔ ان میں ٹیلی مواصلات، دفاع، طبی عکس نگاری اور دیگر انڈسٹری شامل ہیں۔ چونکہ ریڈیائی فلکیات میں جدید و نفیس اینٹینا اور آر ایف انجینئرنگ کا عمل دخل ہوتا ہے اسی لیے یہ ٹیکنالوجی دیگر صنعتوں میں کام آسکیں گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صلاحیت حاصل کرنے کے بعد پاکستان پر بین الاقوامی مدد اور فنڈنگ کے راستے بھی کھلیں گے۔

واضح رہے کہ معاشی ترقی اور خوشحالی کی منزل سائنس و ٹیکنالوجی سے ہوکر ہی گزرتی ہے اور بطورمسلمان ہمارے بزرگ اس شعبے میں قابلِ قدر کام کرچکے ہیں۔ سائنس اور علوم جدیدہ تو ہماری گمشدہ میراث ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ ان بڑے منصوبوں کےلیے رقم کہاں سے آئے گی تو ایک جانب تو فالتو اثاثے یا خسارے کے شکار ادارے مثلاً پاکستان اسٹیل مل یا پی آئی اے کو جزوی یا کلی طور فروخت کیا جاسکتا ہے تو دوسری جانب پرائیوٹ سیکٹر کو اس کی ترغیب دی جاسکتی ہے۔ پھر پرائیوٹ سیکٹر کو ٹیکس میں تخفیف کی رغبت دلاکر بھی انہیں سرمایہ کاری کی جانب مائل کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس سے سائنس و ٹیکنالوجی کا بہتر مستقبل سامنے آسکتا ہے۔

توقع ہے کہ اس سے نہ صرف ہم عالمی علمی معیشت کا حصہ بن سکیں گے بلکہ خود کو سائنسی طور پر طاقتور ممالک میں شامل کرسکیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post ریڈیائی فلکیات سے صنعتی و علمی انقلاب آسکتا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/i0xn1js
Previous Post Next Post

Contact Form