ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے بالآخر پہلی پریس کانفرنس کر ہی دی ہے۔ جب سے جنرل عاصم منیر نے پاک فوج کی کمان سنبھالی ہے‘ صحافیوں کے ساتھ یہ پہلی مفصل پریس کانفرنس تھی۔
موجودہ پالیسی کی یہی سمجھ آئی کہ آرمی چیف کوئی زیادہ میڈیا انٹرا یکشن پر یقین نہیں رکھتے‘ اس لیے اب آئی ایس پی آر اس طرح نہیں ہو گا جیسے جنرل باجوہ اور جنرل راحیل شریف کے دور میں تھا۔ اب کون کہاں تعینات ہے اس کی تشہیر نہیں کی جا رہی۔
آرمی چیف نے اپنی میڈیا کوریج بھی بہت کم کر دی ہے۔ ورنہ پہلے تو آرمی چیف کی کوریج روزانہ کی بنیاد پر سامنے آتی تھی۔ اس لیے فوج کی میڈیا پالیسی میں واضح تبدیلی ہے اور یہ تبدیلی سب محسوس کر رہے تھے۔
میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے بھی تعیناتی کے کئی ماہ بعد میڈیا سے پہلا انٹر ایکشن کیا ہے۔ ورنہ ایسے انٹر ایکشن بہت باقاعدگی سے ہوتے تھے۔ انھوں نے میڈیا کے لوگوں سے اس طرح ملاقاتیں بھی شروع نہیں کی ہیں جیسے ان سے پہلے کی جاتی تھیں۔ اس لیے پالیسی میں تبدیلی آئی ہے۔
اسی لیے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اب نئی پالیسی میں ہر الزام کا جواب دینا ضروری نہیں ہے، ورنہ پہلے یہ ضروری تھا۔ جواب الجواب کا بہرحال فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوا ہے۔ اصولاً یہی پالیسی درست ہے‘ پاک فوج کوئی سیاسی جماعت نہیں جو ہر بات کا جواب دیا جائے۔ آئی ایس پی آر کو صرف ضرورت کے تحت اپنی بات کرنی چاہیے۔
اس تناظر میں ڈی جی آئی ایس پی آر کی پہلی پریس کانفرنس کافی اہم تھی۔پہلا سوال تو یہی ذہن میں ہے کہ یہ پریس کانفرنس کیوں کی گئی۔ اس پریس کانفرنس کی کیا ضرورت تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ کشمیر کے حوالے سے جو تنازعہ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی‘ اس میں یہ پیغام کہ پاک فوج کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں سمجھتی، واضح کرنے کی ضرورت تھی۔
اس ضمن میں جنرل باجوہ کی کچھ مبینہ گفتگو نے کافی ابہام پیدا کر دیا تھا۔اسی طرح کہ ہم بھارت کی ہر جارحیت کا جواب دینے کے لیے تیارہیں۔ پاک فوج کا یہ موقف ویسے تو سب کو علم ہے لیکن غیر ضروری ابہام سامنے تھا۔ اس کی وضاحت ضروری تھی۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں پریس کانفرنس کی بنیادی ضرورت یہی تھی۔ باقی باتیں تو پھر ہو ہی گئیں۔ ملک میں دہشت گردی کے حوالے سے نئے آرمی چیف کی پالیسی کی وضاحت بھی ضروری تھی۔
آرمی چیف اس سے پہلے پارلیمان کو بریفنگ دے چکے تھے۔ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کا اجلاس بھی ہو چکا تھا، لیکن تاہم نئی پالیسی کے حوالے سے میڈیا کو کوئی بریفنگ نہیں دی گئی تھی۔ اس لیے تشنگی موجود تھی۔ ذرایع سے خبریں تو میڈیا میں آئی تھیں، لیکن پاک فوج کی جانب سے باقاعدہ کوئی بریفنگ نہیں دی گئی تھی۔ اس لیے پہلی پریس کانفرنس اس تناظر میں بھی اہم تھی۔ٹی ٹی پی سے بات چیت نہیں ہوگی، کا اعلان بھی اہمیت کا حامل ہے ورنہ پہلے بات چیت کی پالیسی تھی۔
میڈیا آئے اور سیاسی سوالات نہ کرے‘ یہ کیسے ممکن ہے۔ پاک فوج غیر سیاسی ہونے کا جتنا مرضی اعلان کر دے‘ ہم صحافی ان سے سیاسی سوال کرنے سے باز نہیں رہ سکتے۔ اگر سیاسی سوالوں کا جواب نہ دیا جائے تو بھی خبر ہے اور اگر دیا جائے تو بھی خبر ہے۔ اب حکومت سے تعلقات کا سوال ہی دیکھ لیں۔ اگر کہا جائے ساتھ نہیں تو بھی خبر ہے اور اگر کہا جائے کہ ساتھ ہیں تو بھی خبر ہے۔
اسی طرح پاک فوج کے سینئر افسران کی جانب سے چیف جسٹس کو بریفنگ کا سوال بھی ایسا ہی تھا، لیکن میجر جنرل احمد شریف نے دونوں سوالوں کے عمدہ جواب دیے ہیں کہ خبر نہیں بن سکی ہے۔ انتخابات پر پاک فوج کی دستیابی کا معاملہ بھی کافی سیاسی رنگ اختیار کر چکا ہے‘ اس کے جواب کے بھی کئی سیاسی پہلو نکل سکتے ہیں، لیکن جواب سے سیاسی پہلو نہیں نکل سکا۔ورنہ پہلے ایسے جواب دیے جاتے تھے کہ سیاسی پہلو نکل سکیں۔ جیسے تبدیلی کا سال ہے۔
بہر حال ڈی جی آئی ایس پی آر نے سوشل میڈیا پر پاک فوج اور اس کے افسران کے خلاف مہم پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے اس ضمن میں قانونی کارروائی کی بھی حمایت کی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر پاک فوج کو غیر سیاسی رکھنا ہے تو تمام سیاسی جماعتوں کو ملکر خود کے لیے ایک رولز آف گیم بنانے چاہیے۔ اسی طرح صحافیوں‘ اینکرز اور رپورٹرز کو بھی رولز آف گیم بنانے کی ضرورت ہے‘ جان بوجھ کر منفی اور غیر متعلق سوال پوچھنا کوئی صحافت نہیں ہے۔
سوشل میڈیا پر مہم جوئی نہ تو ملک کے مفاد میں ہے اور نہ ہی اسے آزادی اظہار رائے قرار دیا جا سکتا ہے۔ ہمیں ماننا ہوگا کہ سوشل میڈیا کے ہتھیار کو پاک فوج کو بدنام کرنے اور انھیں دبائو میں لانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ اسی لیے میجر جنرل احمد شریف نے کہا ہے کہ اس حوالے سے قانون حرکت میں آئے گا۔
پاک فوج نے واضح کیا ہے کہ دھونس سے دباؤ میں لاکر پاک فوج سے کوئی کام نہیں کروایا جا سکتا ہے۔ یہ پیغام کس کے لیے تھا‘سب کو معلوم ہے سوشل میڈیا پر آجکل جو مہم جوئی ہو رہی ہے اس میں ایک سیاسی جماعت کے لوگ ہی ملوث نکلے ہیں۔ پھر بیرون ملک جو مظاہرے کیے گئے ہیں‘ ان میں بھی پاک فوج اور اس کی قیادت کے بارے میں پراپیگنڈہ کیا گیا ہے۔
ان مظاہروں کے منتظمین کا بھی سب کو پتہ ہے‘ یہ بھی سب کے سامنے ہے کہ اداروں کے خلاف مہم جوئی میں اگر کوئی گرفتار ہوا تو اس کو ہیر و بنا کر کون پیش کرتے ہیں‘اس حوالے سے پاک فوج کی پالیسی اور جذبات واضح سامنے آئے ہیں کہ کسی سے کوئی رعایت نہیں کی جائے گی۔ تاہم کارروائی قانون کے مطابق ہوگی۔
ایک سوال سب کے ذہن میں ہے ملک میں جاری سیاسی محاذ آرائی میں پاک فوج اور بالخصوص آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو سیاسی ریفری کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ لیکن اس پریس کانفرنس سے یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ فی الحال پاک فوج کا سیاسی ریفری بننے کا کوئی ارادہ نہیں۔ وہ سیاسی جماعتوں کو ایک میز پر بٹھانے کے لیے کوئی کردار ادا کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ اس لیے اس کام کے لیے ان کی طرف نہ دیکھا جائے۔ سیاستدان خود ہی یہ کام کریں۔ فوج کی طر ف نہ دیکھیں۔ اس کام نے ویسے تو ماضی میں بھی فوج کو کوئی نیک نامی نہیں دی ہے۔ اس لیے اس سے دور رہنا ہی بہتر ہے۔
The post پہلی پریس کانفرنس appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/SpCMizL