آج کے دن کا مقصد صرف مخصوص سوچ کا پرچار ہے؟

کسی نے خوب کہا ہے رفعتیں جس پہ مٹیں کتنی حسیں عورت ہے۔

عورت ہر روپ میں قابلِ محترم ہے۔ بیٹی ہے، تو محبت بھرا احساس ہے۔ بیوی ہے تو مان بھرا تعلق ہے۔ بہن ہے تو پاکیزگی کی چادر ہے اور ماں ہے تو عظیم ہستی کا تصور ہے۔ آج ہم خواتین کے عالمی دن اس خوب صورت موقع پر اپنی ماں، بہنوں، بیٹیوں کے دامن حیا کی بات کریں گے۔

سوشل میڈیا اور جدید طرز زندگی نے حیا کے دامن سے ایسا پیچھا چھڑایا ہے کہ ہمیں بنت حوا کی سادگی اور شرم و حیا کے پیکر میں لپٹی نسوانیت کو ڈھونڈنے میں کافی وقت لگتا ہے۔ کبھی سوچا ہے کہ ہماری بیٹیاں دوپٹوں اور چادروں سے آراستہ کتنی پروقار اور پرنور دکھائی دیتی تھیں۔ ان کی چادریں تو ہمارے نام نہاد نئے  رسم و رواج نے اتار پھینکی ہیں۔

مہوش! یہ کیا تم ہر وقت گز بھر کا دوپٹا اوڑھے پھرتی ہو۔ جوریہ کو دیکھو کیسے گھر میں بنی ٹھنی گھومتی ہے اور اس کے سامنے ماسی لگتی ہو۔

ساس نے طنز بھرے لہجے میں کہا اور مہوش بے چاری اپنے ہی آپ میں سمٹی دوسری طرف منہ پھیر گئی۔ اس نے اپنی دیورانی جوریہ کی طرف دیکھا، جس کا دوپٹا گلے میں تھا اور بنا آستین کی کپڑے زیب تن کیے نک سک تیار تھی۔

ماما! مجھے شلوار قمیص ہی پہننا ہے، مجھے ٹی شرٹ نہیں پہننی۔ عروسہ کی بات سن کر انھوں نے تیوری چڑھائی اور بولیں ’’تمھیں شلوار قمیص پہن کر میری ناک ضرور کٹوانی ہے، تمھارے ساری امریکا پلٹ کزن تمھیں شلوار قمیص پہنے دیکھ کر ہنسیں گی اور ہم سب کا مذاق ہی اڑائیں گی۔ عروسہ کے بھائی کی شادی تھی اور اس کی امی کا اصرار تھا کہ وہ مشرقی لباس کے بہ جائے بے پردگی والے کپڑے پہنے۔

سوچیں اس سب میں کون غلط کر رہا ہے؟ کیا ہم خود ہی اپنی بچوں کو ان کی روایات اور تہذیب وتمدن سے دور نہیں لے جا رہے اور انھیں مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنا اوڑھنا بچھونا ایسا بنالیں، جیسا وہ چاہتے ہیں۔ اور اب ’’مرضی مرضی‘‘ کی گردان میں ہماری یہ عار بھی ختم کردی ہے کہ بچیوں کو کچھ کہہ سن سکیں، الٹا مائیں خوش ہوتی ہیں کہ ہماری بیٹیاں ’زمانے کے ساتھ‘ چل رہی ہیں، کیوں کہ اس طرح ان کی خوب صورتی نمایاں ہوتی ہے۔

وہ ہمارے ساتھ چلتے ہوئے ماڈرن ازم کی تصویر ہوتی ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ آج کل اس کا ایک فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ جلدی جلدی اچھے رشتے مل جاتے ہیں اور دوسرا خاندان میں خوب واہ واہ ہوتی ہے۔ ایک ہماری مائیں تھیں، جو ہر وقت یہ ہی سمجھاتی تھیں کہ اپنے جسم کو ڈھانپ کر رکھا کرو اور بالوں کو بلاوجہ کھلا نہ چھوڑا کرو اور ہمیں بھی یہی خوف رہتا تھا کہ کہیں دوپٹا سر سے نہ ڈھلک جائے اور پھر اس کی وجہ سے امی جان خفا ہوں۔

آج یہ باتیں کہنا تو درکنار سوچنا بھی دقیانوسی قرار پایا ہے، اس لیے کہ بار بار ایسی باتیں کرکر کے ہماری ذہن سازی کر دی گئی ہے کہ  یہ خواتین کے حقوق کے خلاف ہے، انھیں ایسا نہیں کرنا چاہیے، آج ان قدروں کی پائمالی ہی حقوق نسواں کی معراج قرار پائی ہے۔ تبھی تو آج یوم خواتین کے دن ایک مخصوص گروہ کی جانب سے ایسے معیوب اور غیر مناسب نعرے لگائے جاتے ہیں، جسے یہاں لکھنے میں بھی ہمیں حجاب آتا ہے۔

اب کبھی کوئی بچی یا لڑکی یہ کہے کہ امی! میرے ساتھ بازار چلیے، مجھے کچھ چیزیں خریدنی ہیں، تو کہا جاتا ہے کہ ارے تم کوئی دودھ پیتی بچی ہو، کالج جاتی ہو اور ابھی تک ماں کے پلو سے بندھی ہوئی ہو۔ تمھیں چاہیے، کالج سے واپسی پر اپنی ضرورت کی چیز خرید لیا کرو۔

یہ انداز تو آج کل ہماری ماؤں کے ہیں، ہم خود ہی تو اپنی بچیوں کو آزاد خیال بنا رہے ہیں اور اللہ نہ کرے جب کوئی اونچ نیچ ہو جائے، تو اسے صرف دوسروں پر ڈال پر خود بری الزمہ ہو جاتے ہیں۔ مائیں تو بیٹیوں کی عصمت کی بہترین انداز سے حفاظت کر سکتی ہیں، وہی تو اپنی بچیوں پر نظر بھی رکھتی ہیں، انھیں زمانے کے سرد وگرم سے روشناس بھی کراتی ہیں، وہ ایک سہیلی کی طرح اس سے ہر بات کرتی ہیں اور ہر قدم پر انھیں سمجھاتی ہیں۔

روایتی ملبوسات اور شلوار قمیص پہننا، دوپٹا اوڑھنا کوئی عجیب بات نہیں ہے اپنی بچیوں کو حیا کی چادر اوڑھنا سیکھائیں انھیں زندگی کے خوب صورت اطوار سیکھائیں، اگر آپ کی بچیاں بڑوں کی عزت کریں اور اخلاقی طور طریقے سیکھ لیں تو سمجھ لیں کہ آپ ان کی اچھی تربیت کرنے میں کام یاب ہو گئی ہیں۔

ورنہ  شکوہ کیا جاتا ہے کہ ہم نے اپنی بچیوں کی ہر طرح کی ضرورتیں پوری کیں، لیکن رسوائی ہی ہمارا مقدر تھی۔ اس رسوائی کا ذمہ دار کون ہے؟کیا آپ نے خود انھیں بے جا آزادی نہیں دی۔کبھی ان سے پوچھا کہ وہ کس سہیلی کے گھر گئی ہیں، بلکہ آپ تو فخر سے کہتی تھیں کہ ہماری بچیاں تو ’ماڈرن سماج‘ کا حصہ ہیں، تو اب یہ شکوے کرنا فضول ہے۔ اب تو احتساب کا وقت ہے اپنی غلطیوں کو سنواریں اور اپنی پریوں جیسی شہزادیوں کی ایسے انداز سے تربیت کریں کہ وہ اپنی  آنے والی نسلوں کی صحیح معنوں میں پہچان بنیں۔

اگر کوئی مغربی لباس کی آزادی مانگ رہا ہے، تو ہم اگر اپنی روایات کو بہتر سمجھتے ہیں، اور اسے فروغ دینا چاہتے ہیں، تو اس اصول کے تحت ہمیں بھی تو یہ حق دیا جائے کہ ہم اپنی طرح کے کپڑے پہنیں اور اپنی طرح زندگی گزاریں۔ آخر اپنے اختیار کو اختیار کہنا اور ہمارے اختیار کو ’جبر‘ قرار دے کر ’’جہالت‘‘ قرار دینا، دقیانوسی جیسی اصطلاحات سے پکارنا کون سا اصول اور کون سا انصاف ہے۔

سب سے بڑھ کر یہ سوال کہ جب حقوق نسواں کا مطلب خواتین کے حقوق اور برابری ہیں، تو پھر ایسی خواتین کو جو روایتی رنگ ڈھنگ کو اپنائے رکھنا چاہتی ہیں، انھیں طعنے تشنے اور مذاق کا نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے۔ کیا یہ دن صرف ایک مخصوص سوچ رکھنے والی خواتین کا ہے؟ کیا روایت پسند خواتین اپنی سوچ کا اظہار کرنے کے لیے آزاد نہیں ہیں؟ کیا یہی آزادی اور ایسے ہی حقوق مانگنا آج کے دن کا مقصد ہے؟

The post آج کے دن کا مقصد صرف مخصوص سوچ کا پرچار ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/KBrlZmx
Previous Post Next Post

Contact Form