اقوام متحدہ کی جانب سے ہر سال 10 دسمبر کو دنیا بھر میں انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ رواں برس اس عالمی دن کو 75 برس مکمل ہوچکے ہیں۔
اس میں کیا کھویا، کیا پایا اور اس وقت انسانی حقوق کی کیا صورتحال ہے، اس طرح کے بیشتر سوالات کے جوابات جاننے کیلئے ’’انسانی حقوق کے عالمی دن‘‘ کے موقع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، اکیڈیمیا اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
رضوانہ نوید
(ایڈیشنل سیکرٹری برائے انسانی حقوق پنجاب)
دین اسلام نے 1500برس قبل انسانی حقوق دیے جو ہمیں پیدائش کے وقت سے ہی مل جاتے ہیں۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 2 سے 22 تک انسانی حقوق کے حوالے سے ہیں جن پر حکومت اکیلے عملدرآمدنہیں کرسکتی بلکہ اس میں سول سوسائٹی ، معاشرہ اور عوام سب نے مل کر کام کرنا ہوتا ہے۔
میرے نزدیک سب سے اہم کردار ماں کاہے جو گھر سے بچے کی درست تربیت کرے تو معاشرتی مسائل کا جڑ سے خاتمہ ہوسکتا ہے۔حکومتی سطح پر انسانی حقوق، بین المذاہب ہم آہنگی سمیت مختلف جہتوں میں کام ہو رہا ہے،ا س حوالے سے قوانین بھی موجود ہیں اور کمیٹیاں بھی۔ ہم ملک میں رہنے والے تمام مذاہب کے پیروکاروں اور مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ یقینی بنا رہے ہیں۔
اس حوالے سے تعلیم میں اقلیتوں کیلئے 2 فیصد کوٹہ موجود ہے جبکہ ملازمت میں 5 فیصد کوٹہ رکھا گیا ہے جس پر عملدرآمد یقینی بنایا جا رہا ہے۔ حکومت کی جانب سے اقلیتوں کو خصوصی گرانٹ بھی دی جا رہی ہے۔ سکھ کمیونٹی کی عبادتگاہوں کو بحال کیا گیا ہے۔ کرتار پور راہداری منصوبہ بھی انسانی حقوق کی بڑی مثال ہے۔
اسی طرح مسیحی اورہندو برادری سے تعلق رکھنے والوں کو بھی گرانٹس دی جا رہی ہیں، ان کے حقوق و تحفظ کا بھی خصوصی خیال رکھا جا رہا ہے۔ ریاست ماں کا کردار بخوبی نبھا رہی ہے ۔ خاکروب جیسی ملازمتوں کیلئے اقلیتوں کا نام لکھنے پر بھی پابندی لگائی گئی۔
ہم معاشرے میں محبت، امن، رواداری کے فروغ اور انتشار، تعصب اور نفرت کے خاتمے کیلئے کام کر رہے ہیں، اس حوالے سے تعلیمی نصاب کا بھی خصوصی جائزہ لیا گیا اورجہاں مسائل تھے انہیں دور کیا گیا ہے۔ جڑانوالہ واقعہ افسوسناک ہے۔
اس کے فوری بعد حکومت نے ایکشن لیا، وہاں عبادتگاہوں کی بحالی کی گئی، متاثرین کے گھر دوبارہ تعمیر کیے گئے، وہاں لوگوں کی داد رسی کی گئی، ریاست کی جانب سے انہیں اعتماد دیا گیا اورایک اچھی فضاء قائم کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہم نے بین المذاہب ہم آہنگی کے مختلف اجلاس بلائے تاکہ ملک میں رواداری کو فروغ دیا جاسکے۔
تمام مذاہب کے ماننے والے مل کر بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کیلئے کام کر رہے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ من حیث القوم ہمیں بنیادی انسانی حقوق کیلئے کام کرنا ہوگا۔ ہم نے رواں برس انسانی حقوق کے عالمی دن کو بین المذاہب ہم آہنگی سے جوڑا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ وقت کی ضرورت ہے۔ ملک میں ہم آہنگی کی فضاء قائم کرنے سے بیشتر مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔
ڈاکٹر کنول امین
(سابق وائس چانسلر ہوم اکنامکس یونیورسٹی لاہور)
انسانی حقوق کو مغرب کا ایجنڈہ قرار دیا جاتا ہے اور اس پر بات کرنے والوں کو مغرب سے جوڑ دیا جاتا ہے جو درست نہیں۔ نبی آخرالزماں حضرت محمدﷺ نے اپنے آخری خطبے میں جوکچھ فرمایا وہ انسانی حقوق ہیں۔ حقوق العباد کا مطلب انسانی حقوق ہیں لہٰذا ہمیں ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا ہے، یہ ہماری مذہبی فریضہ ہے۔
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مالک پر فرض ہے کہ وہ اپنے پاس کام کرنے والے ملازم کے حقوق کا خیال رکھے، اسی طرح اقلیتوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کرنا چاہیے۔ اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر تو ماضی قریب کی بات ہے۔
اسی طرح انسانی حقوق کے عالمی دن کو 75 برس ہوئے ہیں لہٰذا جو حقوق اللہ نے انسانوں کو دیے ہیں بطور مسلمان ہمیں ان کو ادا کرنا ہے، ہمارے سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ انسانی حقوق کے حوالے سے حکومتی پالیسیاں اہم ہیں مگر ہمیں سماجی شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے، اس کے بغیر معاملات بہتر نہیں ہوسکتے ۔
ہم نے بطور اکیڈیمیا اس حوالے سے کافی کام کیا ہے۔ ہماری ایک کانفرنس میں اس مسئلے کو ہائی لائٹ کی گیا کہ مسیحی طلبہ کو نصاب میں اسلامیات کیوں پڑھائی جاتی ہے؟ ہمارے جھنڈے میں سفید رنگ اقلیتوں کا ہے، ہمارا مذہب اورآئین، دونوں اقلیتوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں۔ ہمیں معاشرے میں ایک دوسرے کو قبول کرنے کی فضاء پیدا کرنی ہے۔
اس کاآغاز گھر اور سکول سے کیا جائے۔ ہمیں بچوں کو احترام انسانیت اور ایک دوسرے کی عزت نفس کا خیال رکھنا سکھانا ہوگا۔ ہمیں سب کی شراکت اور شمولیت کی طرف جانا ہے۔ ہمیں تعلیمی اداروں میں بین المذاہب ہم آہنگی گروپس تشکیل دینے چاہئیں۔ افسوس ہے کہ یونیورسٹیاں نئے علم اور نئی جہتوں پر توجہ نہیں دے رہی، لوگوں کو فکری آزادی نہیں ہے، ڈائیلاگ کم ہوتا جا رہا ہے جس سے شدت پسندی اور عدم برداشت کے رویوں کو فروغ مل رہا ہے۔
اس کو دیکھتے ہوئے ڈائیلاگ کو فروغ دینا ہوگا۔ ہمیں معاشرے کے تمام طبقات جن میں خواجہ سراء و دیگر شامل ہیں، کو حقوق دینا ہونگے، انہیں قومی دھارے میں شامل کرنا ہوگا اور معاشرے کا کارآمد شہری بنانا ہوگا۔ ہمیں ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہے جس میں کسی کو بھی دوسرے درجے کے شہری ہونے کا احساس نہ ہو بلکہ سب برابر شہری کے طور پر اپنی زندگی گزاریں اور ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔
ہمیں جدید ٹیکنالوجی کو مدنظر رکھتے ہوئے،ا س سے منسلک مسائل کے حل کیلئے کام کرنا ہوگا، نوجوانوں کو درست سمت دینا ہوگی،ا نہیں بے راہ روی کا شکار ہونے سے بچانا ہوگا۔
صبیحہ شاہین
(نمائندہ سول سوسائٹی)
25 نومبر سے 10 دسمبر تک، دنیا بھر میں 16 روزہ عالمی مہم چلائی جاتی ہیں۔ اس کا آغاز خواتین پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن اور اختتام انسانی حقوق کے عالمی دن پر ہوتا ہے۔ یہ 16 روز انتہائی اہم ہوتے ہیں جن میں رضاکاروں کا عالمی دن، ایڈز کا عالمی دن سمیت مختلف عالمی دن منائے جاتے ہیں۔
اس سال انسانی حقوق کا عالمی دن اس لیے بھی اہم ہے کہ اسے 75 برس ہوگئے ہیں لہٰذا دیکھنا یہ ہے کہ ان برسوں میں انسانی حقوق کی جدوجہد کہاں پہنچی اور کیا دنیا میں لوگوں کو ان کے انسانی حقوق مل رہے ہیں۔
انسانی حقوق کے حوالے سے سول سوسائٹی کا کردار انتہائی اہم ہے۔ ہم پہلے مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی بات کرتے تھے، اب صنفی اقلیتوں سمیت معاشرے کے تمام طبقات کی بات کرتے ہیں جن میں خواجہ سرائ، خصوصی افرادودیگربھی شامل ہیں۔ہم نے وائس چانسلرز کانفرنس منعقد کروائی جس میں مختلف جامعات کے وائس چانسلرز نے خصوصی شرکت کی اور اس میں خصوصی طور پر یہ ہائی لائٹ کیا گیا کی صنفی اقلیتوں پر بات کی جائے۔
اس کانفرنس میں ہائرایجوکیشن میں ان کے کوٹہ کی بات بھی کی گئی لہٰذا یہ سول سوسائٹی کی جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ اب ہائر ایجوکیشن میں مذہبی و صنفی اقلیتوں کے لیے کوٹہ موجود ہے جس سے انہیں تعلیم کا بنیادی حق مل رہا ہے۔ پاکستان میں قوانین کی بات کریں تو یہاں ترقی پسندانہ قانون سازی ہوئی ہے۔
مذہبی و صنفی اقلیتوں کے حوالے سے بعض قوانین تو ایسے ہیں جو ترقی یافتہ ممالک میں بھی نہیں ہیں۔ مذہبی اقلیتوں کیلئے ملازمت میں 5 فیصد کوٹہ مختص ہے، اسی طرح خواجہ سراء کے شناختی کارڈ و دیگر سہولیات جیسے قوانین بھی ہمارے ہاں موجود ہیں جو ترقی یافتہ ممالک میں نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں پالیسیاں تو موجود ہیں مگر ان پر عملدرآمد میں امتیازی رویے برتے جاتے ہیں جن کا خاتمہ کرنا ہوگا۔
پہلے سینٹری ورکرز جیسی ملازمت کیلئے ایک خاص کمیونٹی کا نام لکھ کر اشتہار شائع کیا جاتا تھا، اس پر میں نے آواز اٹھائی، بار بار ٹوئٹ بھی کیے، اب قانون سازی کردی گئی ہے جس میں کسی ایک طبقے کا نام نہیں لکھا جا سکتا۔
ہمارے ہاں مجموعی طور پر انسانی حقوق کی صورتحال بہتر ہے۔ جڑانوالہ واقعہ جیسے افسوسناک واقعات کرنے والے چند لوگ ہیں جبکہ ان کی مذمت کرنے والے زیاد ہ ہیں۔
ہم نے وہاں جاکر کام کیا تو متاثرین نے بتایا کہ بہت سارے مسلمانوں نے مسیحیوں کی جان بچائی ہے، ان کے گھروں پر کلمہ لکھ دیا، انہیں اپنے گھروں میں پناہ دے دی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ملک میں انسانی حقوق کے حوالے سے بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں قوانین پر عملدرآمد، خلاف ورزی سمیت بیشتر مسائل موجود ہیں جنہیں حل کرنا ہوگا۔
ہمارے ہاں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کو بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر اس کے باوجود وہ اپنا کام کر رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے سول سوسائٹی کو آن بورڈ لیا جاتا ہے جو خوش آئند ہے۔
افراد کی سطح پر مسائل ہوسکتے ہیں، کسی افسر کے آنے یا جانے سے مسئلہ الگ بات ہے لیکن بطور ریاست سول سوسائٹی سے پالیسی سازی میں رائے لی جاتی ہے، ہم خود بھی گاہے بگاہے تجاویز دیتے رہتے ہیں جس کا مثبت رسپانس ملتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سب مل کر کام کریں گے تو ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال بہتر ہوجائے گی۔
The post انسانی حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے متشدد رویوں کا خاتمہ کرنا ہوگا! appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/UYu1BDF