دین اسلام دنیا کے تمام مذاہب اور ان کے ماننے والوں کے احترام کا درس دیتا ہے۔
مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک آنے والے تمام انبیاء کو بھی مانتے ہیں اور ان کی تعلیمات کا اسی طرح احترام کرتے ہیں جس طرح وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اور ان کی ہدایات کا کرتے ہیں۔
اسلام کے سنہری دور یعنی خلفائے راشدین کے دور میں بھی دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو بطور ذمی اور رعایا ریاست کے تمام حقوق حاصل تھے اور انھیں اپنے مذاہب کے مطابق عبادات کرنے کا پورا حق حاصل تھا۔ آج دنیا میں جس چیز کی کمی سب سے زیادہ محسوس کی جا رہی ہے وہ بین المذاہب ہم آہنگی ہے۔
ہمارے معاشرے میں اس موضوع پر بات کرنے والوں کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور الزامات عائد کیے جاتے ہیں کہ بین المذاہب ہم آہنگی پر بات کرنے والے لوگ شاید کسی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں جب کہ ایسے لوگ کسی بھی معاشرے کا فخر ہوتے ہیں، جو اپنی ذات سے ہٹ کر اور بالا تر ہوکر انسانیت کی بھلائی کا سوچتے ہیں۔
پاکستان آئینی طور پر ایک اسلامی جمہوریہ ہے، ریاستی مذہب اسلام ہے، سپریم لاء کی حیثیت اسلامی شریعت کو حاصل ہے۔ اسی طرح سربراہ مملکت کا مسلمان ہونا ضروری ہے۔ پاکستان میں مسلمانوں اکثریت میں رہتے اور بستے ہیں، جب کہ ان کے علاوہ ہندو، مسیحی، سکھ اور پارسی سمیت دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی بستے ہیں۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل 20,21,22 اور ان کی ذیلی دفعات میں اپنے تمام شہریوں کو اپنے اپنے عقیدے اور مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی حاصل ہے، اگرچہ ملک بھر میں دہشت گردی کی پھیلی لہر کے دوران مٹھی بھر اور شرپسندوں کی جانب سے ماضی قریب میں ان پر بھی نشانہ وار حملوں کے متعدد واقعات سامنے آتے رہے ہیں، انفرادی واقعات کے علاوہ مجموعی طور پر ریاستی سطح پر ان پر کوئی جبر یا زبردستی کا معاملہ نہیں ہے۔
پاکستان میں اقلیتی برادریوں کے ساتھ ان کے عقیدے کی بنیاد پر جبر وتشدد کی ایسی کسی منظم تحریک کو ریاستی سرپرستی حاصل نہیں، جب کہ ہمارے پڑوس میں واقع بھارت میں ریاستی سطح پر ہندو توا کو سرپرستی حاصل ہے جو مسلمانوں، مسیحوں اور دیگر مذاہب کے ماننے والے افراد کو مذہب کی بنیاد پر نشانہ بناتی ہے، جس طرح نشانہ بنایا جاتا ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔
اس وقت دنیا میں جس چیز کی کمی سب سے زیادہ محسوس کی جا رہی ہے وہ ’’امن‘‘ ہے۔ ریاستوں کی جانب سے امن و امان قائم رکھنے کے لیے اپنے بجٹ میں اربوں اور کھربوں روپے مختص کیے جا رہے ہیں۔ میزائل ٹیکنالوجی، ڈرون ٹیکنالوجی سمیت ہتھیاروں کی خریداری پر پیسے خرچ کیے جا رہے ہیں۔
یہ سب ایک دوسرے پر دفاعی برتری حاصل کرنے کی کوششوں کا نتیجہ ہے جب کہ اگر بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے اور مختلف مذاہب کے درمیان مشترکات پر بات کی جائے تو دفاع کے نام پر کھربوں روپے خرچ کرنے کے بجائے یہی پیسہ عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے مکالمے کو فروغ دینے کی ضرورت ہے جس کے کے ذریعے مختلف مذہبی عقائد کے ماننے والوں کے مابین پرامن بقائے باہمی، امن اور خوشحالی کے لیے آگے بڑھنے کے راستے تلاش کیے جاسکتے ہیں۔
ایسے میں ضرورت ہے کہ مختلف مذاہب کے ماننے والے ایسے افراد جو بین المذاہب ہم آہنگی پر یقین رکھتے ہوں اور اس کازکے لیے کام کرنا چاہتے ہوں، ان کے درمیان رابطوں کو فروغ دیا جائے، وہ دنیا کے کسی بھی ملک سے تعلق رکھتے ہوں، آپس میں بیٹھیں اور اس حوالے سے ماحول کو سازگار بنانے کے لیے راہیں تلاش کریں۔
تمام مذاہب میں بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو مشترکہ ہیں جیسے نیکی کرنا، برائی سے بچنا، مظلوم اور ضرورت مند کی مدد کرنا، سچ بولنا، انصاف کی فراہمی، بڑوں کی عزت کرنا اور چھوٹوں سے شفقت سے پیش آنا، وغیرہ، ان مشترکات کو فروغ دیا جائے تو دنیا حقیقی معنوں میں ایک جنت بن سکتی ہے جہاں تمام مذاہب کے ماننے والے اپنے اپنے مذہبی عقائد کے مطابق زندگی گذارنے کے علاوہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کا بھی اسی طرح احترام کریں جیسے وہ اپنے مذہب یا عقائد کا کرتے ہیں۔
The post بین المذاہب ہم آہنگی، وقت کی ضرورت… appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/Own92cX