جموں کے مقتل سے ہجرت

راجا منظور احمد خان ان چند افراد میں سے ہیں جو 1947کے جموں کے قتل عام میں بچ گئے تھے۔ یہاں یہ یہ داستان ان کی زبانی پیش کی جارہی ہے، لیکن یہ کہانی ان جیسے ہزاروں مسلمانوں کی ہے جو کہ 1947کے قتل عام میں محفوظ رہے۔ ساتھ ہی یہ ان مسلمانوں کی بھی داستان ہے جو ہندو ڈوگرہ شا ہی کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے۔ راجا منظوراحمد خان میرپور محمدی چوک میں قیام پذیر ہیں۔

جموں سے سیالکوٹ کل 24 میل دو رہے۔ ریل اور مرکزی سڑک ایک دوسرے کو آپس میں ملاتی ہیں۔ ریل کا فا صلہ ڈیڑھ گھنٹے اور بس کا فاصلہ ایک گھنٹے میں طے ہوجاتا ہے۔ تقسیم سے قبل لو گ آزادی سے تانگوں پر یا پیدل بھی آتے جاتے تھے۔ یہ راستہ جنگ آزادی 1947ء کے بعد یکم جنوری 1949ء سے بند ہے۔

تقسیم برصغیر کے وقت مشرقی پنجاب میں فرقہ ورانہ فسادات کی آگ بھڑکی جو جموں اور گردونواح میں داخل ہوگئی۔ ہری سنگھ نے مشرقی پنجاب کی سکھ ریاستوں کپورتھلہ، تابھہ اور پٹیالہ کے نقش قدم پر چلنے کی کو شش کی، جس طرح انہوں نے اپنی ریاستوں میں بے گناہ مسلمانوں کو وحشیانہ طریقوں سے قتل کیا اور ان کو اپنی ریاستوں سے نکل جا نے پر مجبور کیا، بالکل اسی طرح مہاراجا ہری سنگھ نے یہ اسکیم ریاست جموں و کشمیر میں بھی اپنائی۔

مہاراجا نے سب سے پہلے اپنی ریاست میں مسلح ہندوؤں اور سکھوں کے جتھے داخل ہونے دیے، جنہوں نے ہندو ڈوگرہ ملٹری کی مدد سے جموں کے علاقے میں تمام مسلمان کسانوں کے گھروں کو جلا کر راکھ کردیا اور ان کو بے دردی سے قتل کردیا گیا۔

کہتے ہیں خون کی بھی کوئی قدر ہو تی ہے، مگر انسان کے خو ن کی یہاں کوئی قدر نہ تھی۔ ڈوگرہ مظالم سے جو تھوڑے بہت کسان، زمیندار بچے وہ سیالکوٹ کی طر ف بھاگے۔ جموں اور اردگرد کے علاقوں میں زیادہ اکثریت گوجر، تیلی، بیلدار اور عام مسلمانوں کی تھی۔

جب جموں کے گردونواح کے علاقوں میں مسلمانوں کا ایک بچہ تک نہ رہا تو جموں شہر کے مسلمانوں کی باری آئی۔ جموں میں فساد سے آٹھ دن پہلے ہی مسلمانوں کے ارد گرد کے ہندو محلوں کے او نچے مکانوں پر ڈوگرہ ملٹری نے مو رچے قائم کرلیے۔ شہر میں جابجا ہندوؤں اور سکھوں کے ہتھیار بند جھتے حرکت کر تے نظر آنے لگے۔

ساری رات ڈوگرہ ملٹری اپنے مورچوں سے بارش کی طر ح گولیاں برساتی تھی، لیکن اللہ کے فضل و کرم سے ایک آدمی بھی شہید نہ ہوا۔ مسلمان ہر گولی کا جواب دیسی ہتھیاروں سے دیتے تھے۔ آخرکار ہندوؤں اور سکھوں کے مسلح جتھے ہما رے محلوں میں فوج کے ساتھ داخل ہونے کی کو شش کر تے رہے، مگر کیا مجال کہ کسی بھی مسلمان محلے کے اند ر ایک بھی ہند ویا سکھ قدم تک رکھ سکا ہو۔

ان پر ہما ر ی کارروائیوں کی دھا ک بیٹھ گئی تھی۔ یہ دیسی ہتھیار لوہے کے پائیپوں میں بارود بھر کر چلائے جاتے تھے، جن سے زبردست دھماکے کی آواز آتی تھی اور غیرمسلم یہ آواز سن کر بھاگ جاتے تھے۔ آخر سات دن تک ہمارا اور ملٹری کا مقابلہ ہوتا رہا، مگر انتظامیہ کے ساتھ کتنی دیر تک مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ آٹھویں دن ہمارے اور انتظامیہ کے درمیان صلح ہوگئی۔ ہم سب نے اسلحہ جمع کرادیا۔ ادھر ڈوگرہ فوج نے مورچے ختم کردیے۔

ہم پہلے کی طر ح اپنے محلوں میں آزادی سے رہنے لگے۔ کوئی ہندو یا سکھ ہمارے محلے میں نہیں آتا تھا نہ ہم ان کے محلے میں جاتے تھے۔ اسی طرح کوئی سات دن گزر گئے۔ آٹھویں دن ریزیڈینسی روڈ کی بلند عمارتوں پر جو کہ سکھوں کی تھیں، ریاست پٹیالہ کی فوج کے سپاہی مارٹر گنیں اور دیگر ہتھیار لیے نظر آنے لگے۔

ہمارا پانی بند کردیا گیا اور صفا ئی کے لیے خاکروبوں کو روک دیا گیا۔ اس وقت گھروں کی چھتوں پر رفع حاجت کے لیے بیت الخلاء بنے ہوتے تھے۔ خاکروب چھتوں پر سے گندگی اٹھا کر لے جاتے تھے۔ خاکروبوں کا مسلمانوں کے محلوں میں داخلہ بند ہونے کی وجہ سے محلوں میں گندگی پھیل گئی۔ اشیائے خورونوش ختم ہوگئیں۔

جب بچے بھو ک سے بلکنے لگے تو ہم نے، جو محلوں میں مقید تھے، اپنے مکانات کی دیواریں اندر سے توڑیں اور جس کے پاس کھانے پینے کا سامان ہوتا وہ ہم ایک گھر سے دوسرے، دوسرے سے تیسرے اور اس طرح ٹوٹی دیواروں سے سارے محلوں میں پہنچاتے تھے۔

ہم میں سے چند لڑکے دوسرے محلوں میں گئے اور وہیں مقید ہوگئے۔ ہم نے ایئر مارشل محمداصغرخان کے دادا جنرل سمندرخان کے گھر پر موجود اسلحہ کسی طرح حاصل کرلیا اور اس سے ہندو ڈوگرہ ملٹری، جن سنگھ، راشٹریہ اور دیگر تنظیموں کا مقابلہ کیا۔

آخر ایک روز اعلان کیا گیا کہ تمام مسلمان پاکستان جانے کے لیے پو لیس گراؤنڈ میں جمع ہوجائیں۔ لوگ مال واسباب چھوڑ کر وہاں جمع ہوگئے۔ پولیس لائن گراؤنڈ ایک چھوٹا سا شہر معلوم ہوتا تھا، جس میں تقریباً بیس ہزار سے زائد مسلمان جمع ہوگئے تھے۔ وہ 5نومبر 1947ء بدھ کا دن تھا۔ وہا ں گاڑیاں اور ٹرک لائے گے، جن میں مسلمانوں کو پاکستان (سیالکوٹ) پہنچانا تھا۔ ہر ایک خاندان کی خوا ہش تھی کہ سب سے پہلے وہ بس میں بیٹھے اور پاکستان پہنچ جائے۔

دو پہر دو بجے پانچ لاریوں کا لمبا قافلہ تیار ہوا اور گراؤنڈ سے رینگتا ہوا پاکستان کو روا نہ ہو ا۔ اسی شوروغل میں رات پڑگئی۔ ریاست کے اعلیٰ ہندو افسر کہنے لگے کہ اب تمام لوگ صبح پاکستان کو روانہ ہوں گے۔ آج رات یہیں گزارنی ہوگی۔

سردیوں کا موسم تھا۔ ہمارے پاس نہ کوئی بستر تھا نہ لحاف۔ اسی مصیبت میں ہم سب لوگو ں کو وہاں بھوکا رکھا گیا۔ ہمارا پا نی تک بند کردیا گیا۔ وہاں کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ یہ سب ایک سازش کے تحت کیا جارہا تھا، جس کا سرپرست ریا ست کا حکم راں ہری سنگھ، رانی تارہ دیو ی اور دیگر ہندو فرقہ پرست تھے، جو کہ علاقہ جموں میں مسلمانوں کا نام ونشان مٹادینا چاہتے تھے۔

رات جاگتے ہو ئے گزر گئی۔ جب صبح کے ساڑھے پانچ بجے تو میں اپنے ناناجان کے ساتھ ایک لاری میں جا کر بیٹھ گیا۔ باقی سب ہما رے گھر والے وہیں گرا ؤ نڈ میں تھے، جنہیں میں کہہ آیا کہ بھی آدھا گھنٹے میں لاریوںکا ایک اور قافلہ جانے والا ہے، آپ سب اس میں آرام سے بیٹھ کر آجائیں، تب تک بھیڑ بھی کم ہوجائے گی۔

ہمارا یہ قافلہ 25 لاریوں کا تھا، جو رات ٹھیک ساڑھے نو بجے پولیس گراؤنڈ سے روا نہ ہوا۔ روانہ ہوتے وقت ہما ری لاریوں کے ساتھ ہندوؤں اور سکھوں کے مسلح جتھے چلنا شروع ہوگئے، مگر ہم لوگو ں نے ان کی کو ئی پروا نہ کی۔ ہمارا خیال تھا کہ ہم لو گ لاریوں پر ہیں اور یہ لو گ پیدل ہمارا کیا بگاڑ سکتے ہیں۔

کچھ دیر کے بعد لاریوں کی رفتار بالکل آہستہ کردی گئی کہ ایک آدمی بہ آسانی لاری پر سوار ہوسکتا اور حملہ کرسکتا تھا۔ گراؤنڈ سے جموں کوئی دو میل دور تھا۔ وہاں پہنچنے تک سارے راستے میں ہمیں ہر قدم پر ہندوؤں اور سکھوں کے مسلح جتھے نظر آئے وہ آ پس میں باتیں کررہے تھے،’’آج ہم سب کو پاکستان چھو ڑ کر آئیں گے۔‘‘ کو ئی کہتا،’’ایک بھی نہ بچنے پائے۔‘‘ آخرکار خداخدا کرکے دو میل کا فاصلہ ہماری لاری نے کوئی آدھ گھنٹے میں طے کیا۔

وہاں سے ہمیں پاکستان کی سرحد پر لے جانے کی بجائے چھاؤنی سے نہر کی پٹری پر لے جایا گیا۔ نہر کی سڑک پر تھوڑی دور جاکر ہمارے ٹرک اور لاریاں روک دی گئیں۔ پھر قیامت برپا ہوگئی۔ ہر طرف حشر کا سماں تھا۔ ہم میں سے بڑے بڑے افسر جو کہ انہی لاریوں میں سوار تھے فوجیوں کے پاس گئے اور کہا کہ ہمیں کدھر لے جایا جا رہا ہے؟ ملٹری کا ایک کیپٹن جس کا نام نصیب سنگھ تھا بولا،’’سیدھے راستے میں بڑا خطرہ ہے۔

اس لیے آپ کو کچے راستے سے پاکستان کی سرحد کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔‘‘ ہم نے ان کی باتوں کا یقین کرلیا مگر دل کو چین نہ آیا۔ اس عرصے میں جو جتھے ہمیں شہر میں ملے تھے وہ پھر ہماری لاریوں کے پاس سے ہوتے ہوئے آگے نکل گئے۔

پھر کچھ مسلمان دوڑتے دوڑتے ملٹری والوں کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ جناب! دیکھ لیا آپ نے، یہ سب ہمیں مارنے کے لیے آگے جاکر جمع ہورہے ہیں! اس پر ملٹری والوں نے ہمیں یہ کہہ کر ٹال دیا کہ یہ بھی آپ کی طرح پناہ گزیں ہیں، جو کہ یہاں سے ہوتے ہوئے ہندوستان جارہے ہیں۔ یہ سن کر ہم چپ ہوگئے، کیوںکہ ہم کر بھی کیا سکتے تھے۔ کسی قسم کا اسلحہ ہمارے پاس نہ تھا جو ہم مقابلہ کرتے، جو کچھ تھا وہ ہم سے جموں میں حکومت نے جمع کرلیا تھا۔ اس وقت ہمارا سوائے اللہ کے اور کوئی مدد گار نہیں تھا۔

وہاں سے کوئی ایک گھنٹے بعد لاریاں اس وقت اسٹارٹ کی گئیں، جب یہ اندازہ ہوگیا کہ وہ تمام جتھے آگے جا کر ہمیں مارنے کے لیے بالکل تیار ہیں۔

جموں چھاؤنی سے کوئی تین میل دور جاکر ہماری لاریاں جن کے آگے پیچھے ملٹری کی جیپیں چل رہی تھیں، ایک برساتی نالے ڈگیانہ کھڈ پر کھڑی کردی گئیں۔ ہم بالکل نہر کے کنارے کنارے پٹری پر جا رہے تھے۔ میں جس لاری کی چھت پر بیٹھا ہوا تھا۔ وہ لاری بالکل درمیان میں تھی۔ جب لاریاں کھڑی کی گئیں تو وہاں قیامت کا منظر تھا۔

میں نے لاری کی چھت سے نظر دوڑائی تو دور دور تک ہندوؤں اور سکھوں کے مسلح جتھے تھے، جن کے پاس ہتھیار تھے۔ ہر ایک ٹولی کے آگے تین چار ڈوگرہ ہندو ملٹری کے سپاہی تھری ناٹ تھری رائفلیں لیے ہوئے ان کو گائیڈ کر رہے تھے۔

جتھوں کو دیکھ کر سب کے ہوش اُڑ گئے۔ سب پر سکتہ طاری ہوگیا۔ وہاں ٹھہرے ہوئے دس پندرہ منٹ ہوئے ہوں گے کہ ہم سے پیچھے والی لاری پر حملہ ہوگیا۔ حملہ آور لاریوں کی چھتوں پر چڑھ گئے اور لاریوں کے اندر داخل ہوگئے اور بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوگیا۔ ہر طرف سے رونے چیخنے چلانے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ اسی طرح تیسری اور چوتھی لاری کا بھی یہی حشر ہوا۔

جب میں نے دیکھا کہ وہ میری لاری کے نزدیک آگئے ہیں تو میں نے لاری کی چھت سے نہر میں چھلانگ لگا دی اور تیر کر نہر پار کرگیا۔ پھر گولیوں کی بارش ہونے لگی۔ جب میں نے نہر عبور کی تو میری طرح پندرہ بیس لڑکے نہر عبور کرچکے تھے۔ ہم سب اکٹھے ہوئے اور مشورہ کیا کہ واپس شہر چلیں اور جو لوگ پاکستان جانے کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ انہیں آگاہ کریںکہ ہما رے ساتھ جموں کی ہندو انتظامیہ نے دھوکا کیا ہے۔

ہم شہر کی طرف دوڑ پڑے۔ ہم میں سے کسی ایک نے کہا کہ ہاتھوں میں پتھر اٹھا لو تاکہ اگر کوئی جتھا ہم پر حملہ آور ہو تو ہم اسے مار سکیں۔ ہم سب نے اس بات پر عمل کیا اور ہاتھوں میں پتھر اٹھالیے۔ ہم اپنا بچاؤ کرتے ہوئے تھوڑی دور ہی بھاگے تھے کہ ہم نے سڑک کے کنارے جن سنگھ پارٹی والے سڑک پر کھڑے دیکھے۔ ان میں سے چند جن کے ہاتھوں میں بندوقیں تھیں۔ وہ ہماری طرف بڑھے اور ابھی بندوقیں   چلا نے ہی لگے تھے کہ ہم نے ان پر پتھروں کی بوچھاڑ کردی جس سے وہ ڈر کر پیچھے ہٹ گئے۔

یہ دیکھتے ہی ہم پھر واپس بھاگے کہ شہر کی طر ف تو جا سکتے نہیں، کیوں نہ سیالکوٹ کی طرف بھاگیں۔ ابھی ہم تھوڑی دور ہی بھاگے ہوں گے کہ ایک اور جتھے سے مڈبھیڑ ہوگئی۔ اس پر بھی ہم نے پتھر برسا ئے، مگر وہ ہماری طرف بڑھتا ہی چلا آیا۔

ان میں سے کسی نے تین چار فائر کیے، جس سے ڈرکر ہم دو بارہ لاری کی طرف بھاگے۔ وہ جتھا برابر ہمار ے پیچھے آرہا تھا۔ ہم نے سوچا ملٹری والوں سے کہیں گے کہ یا تو ہمیں بچالو یا ہمیں اپنی گولیوں سے مار ڈالو۔ ہم تلواروں اور کلہاڑوں سے زخمی ہوکر تڑپ تڑپ کر مرنا نہیں چا ہتے۔ ہم ہری سنگھ ڈوگرہ کی وفادار ڈوگرہ فوج کی جا نب بھاگے۔ فوج کے ساتھ ہندوستان کی راجپوت رجمنٹ کے فوجی تھے۔

جب ہم ملٹری کے پاس پہنچے تو ہم سب نے چلانا شرو ع کردیا،’’ہمیں ان جتھوں سے بچائیے‘‘ مگر ہماری کون سنتا، وہ خود حملہ آوروں کی مدد کر رہے تھے، لوٹ مار اور خواتین کو اغوا کر رہے تھے۔ عزت دار لو گ اپنی بیٹیوں کو زہر دے رہے تھے، ذبح کر رہے تھے تاکہ وہ ہندو ڈوگروں اور سکھوں کے ہتھے نہ چڑھ جائیں۔ ہم سب علیحدہ علیحدہ ہوکر جدھر منہ تھا بھاگ کھڑ ے ہوئے۔ ایک بار پھر ہم پر گولیاں برسائی گئیں۔ خدا نے پھر ہمیں گولیوں سے محفوظ رکھا۔ میرے ساتھ دو اور لڑکے تھے اور بسیں سامنے دو سرے کنارے پر تھیں۔

ہم ملٹری والوں سے بچنے کے لیے نہر میں کود پڑے۔ یہ نہر دریائے چناب سے نکالی گئی ہے اور اس کا پانی برف سے بھی ٹھنڈا تھا۔ موسم گرما میں بھی کو ئی شخص اس نہر میں پانچ یا سات منٹ سے زیادہ نہیں ٹھہرسکتا۔ یہاں کے پانی میں لمبی لمبی جھاڑیاں اُگی ہوئی اور کا ئی جمی ہوئی تھی۔ ہم تین لڑکے تھے۔

ہم نے اپنا آپ پانی میں چھپا لیا اور سر کائی میں دے دیا۔ اس طر ح متواتر تین گھنٹے ہم پانی میں چھپے رہے۔ میرے ایک ساتھی کا نام مجید تھا، جو میرے ساتھ چھپا ہوا تھا۔ اس نے رائے دی کہ ہم پا نی کے اندر جھاڑیوں کی اوٹ میں آگے نکل جا تے ہیں اور جب رات ہو گی تو کسی طر ح بھاگ جائیں گے۔

ہما رے تیسرے ساتھی نے اس کی تائید کی۔ اتنے میں ایک بلوائی ہاتھ میں تلوار لیے سامنے کنارے پر آیا اور جب اس نے ہم تین لڑکو ں کو نہر میں چھپا دیکھا تو وہ ہماری طرف بڑھنے لگا۔ مجھے پتا تھا کہ ہماری موت یقینی ہے اور میں سو چ رہا تھا کہ دیکھتے ہیں کہ مرنے کے بعد کیا ہوتا ہے کہ اتنے میں ایک کڑک دا ر آواز آئی،’’کافر کے بچے! واپس پیچھے چلے جاؤ ورنہ گولی ماردوں گا۔‘‘

کافر کا بچہ کے الفاظ سن کر ہم چو نک پڑے۔ یہ یقینا! کسی مسلمان سپا ہی کے الفاظ تھے۔ پا کستان آکر کئی دنو ں بعد پتا چلا کہ انڈین آرمی کا ایک مسلمان بریگیڈیئر عثمان جموں چھاؤنی میں اپنے ٹروپس کے ساتھ لینڈ کر رہا تھا کہ اس نے جہاز سے قتل عام کا منظر دیکھ کر ایئرپورٹ سے جیپ لی اور ایکشن لینے کے لیے چند سپاہیوں کو ساتھ لے کر اس جگہ پہنچا اور جب اس کو صحیح صورت حال کا علم ہوا تو اس نے قتل عام رکوایا تھا۔

ہندو فوجی ڈر کر کنا رے پر چلا گیا۔ اب اس فوجی نے اونچی آواز میں کہا کہ جو کو ئی بھی نہر کی جھاڑیوں میں چھپا ہوا ہے وہ با ہر نکل آئے اور آکر ٹرک میں بیٹھ جائے۔ نہر کے برفیلے پانی میں کافی دیر رہنے کی وجہ سے ہما رے جسم سُن ہوچکے تھے۔

پھر بھی ڈر کی وجہ سے ہم نکل آئے۔ پھر اس نے ہم تینوں کو کھڑا کر کے تلاشی لی۔ میرے ساتھیوں کے پاس جو کچھ تھا وہ انہوں نے اسے دے دیا۔ میری جیب میں 20 روپ ے تھے اور انگلی میں سو نے کی انگوٹھی تھی، جو کہ گھر سے نکلتے وقت میری والدہ نے مجھے دی تھی۔ سپا ہی نے دونوں چیزیں لے لیں۔ پھر اس نے ہمیں سامنے والے ٹرک میں بیٹھ جانے کو کہا۔ ہم ٹرک میں جاکر بیٹھ گئے۔ جتنی دیر ہم پانی میں چھپے رہے اتنی دیر ہمارے دائیں بائیں سے مسلمان بزرگوں، بچوں اور خوا تین کی کٹی پھٹی لاشیں گزرتی رہیں۔

نہر کا پانی خو ن کا دریا بن گیا تھا تھا۔ کئی زخمی عورتیں بھی ہما رے پاس سے گزریں، مگر ہم ان کی مدد نہیں کرسکتے تھے، کیوںکہ ہمیں خود اپنی جان کے لالے پڑے تھے۔ اس وقت شام کے چار بج چکے تھے۔ ہما رے دیکھتے ہی دیکھتے ہندوستان کی ملٹری آگئی اور انہوں نے گولہ فائرنگ بند کرادی، اور اونچی آواز میں کہنے لگے جو مسلمان ہمیں سن رہے ہیں وہ ہمارے پاس آجائیں، ہم ان کی حفاظت کریں گے۔ یہ سنتے ہیں بچے کھچے مسلمان جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے، جن کی تعداد تقریباً پانچ سو (500) تھی جمع ہوگئے۔

اس میں تقریباً ایک گھنٹہ لگ گیا۔ اندھیرا ہوچکا تھا۔ ہم سب ٹرکوں میں بٹھا کر اس جگہ سے ایک میل اور آگے لے جائے گئے اور یہاں نالے پر لاریاں پھر سے روک دی گئیں۔ یہاں ڈرائیوروں اور کلینروں نے گاڑیوں کو خوب دھویا تا کہ مسلمانوں کا جو خون بہایا گیا ہے وہ دھل جائے اور واپس جاکر کسی کو پتا نہ چلے، لیکن بے گناہوں کا خون کبھی چھپ سکتا ہے! ہم کو واپس جموں شہر کی طرف لے جایا گیا۔

جب ہم جموں چھاؤنی پہنچے تو وہاں کے گورنر نے حکم دیا کہ انہیں اسپتال لے جایا جائے۔ ہم کو شہر کے سرکاری اسپتال میں لے جایا گیا۔ ابھی زخمیوں کو اتار ا ہی جا رہا تھا کہ گورنر کا حکم آیا کہ شہر کی حالت بہت نازک ہے، اس لیے ان کو جلدی شہر سے باہر لے جایا جائے۔ ایسا کیوں نہ ہوتا کیوں کہ شہر کے گورنر کا حکم جو تھا۔

دوپہر کے بعد زخمیوں کو لاریوں میں بٹھایا اور اسی جگہ پر لے جایا گیا جہاں پہلے قتل عام ہوا تھا۔ عورتیں اور بچے رونے لگے اور ملٹری والوں سے کہتے لگے،’’خدا کے لیے اس بار مت مارنا، پہلے ہی ہمارے ساتھ بہت ظلم ہوا ہے۔‘‘ اس پر ملٹری والے نے کہا کہ چپ کرو اس بار تمہیں مارا نہیں جائے گا۔ میں نے دل میں سوچا، قریب ہی ایک تالاب تھا، اور اس کے قریب کوئی دو ہزار کے قریب لوگ ڈیرا لگائے بیٹھے ہوئے تھے۔

معلوم ہوتا تھا کہ یہ بھی مسلمان ہیں۔ ان کے گھر جلائے جا چکے تھے۔ ان میں زیادہ تعداد گجر اور تیلیوں کی تھی۔ رات کو ہم لوگ اس طرح بھوکے پیاسے پڑے رہے۔ ہم میں سے جو زیادہ زخمی تھے وہ صبح ہونے سے پہلے اسلام ، پاکستان کی راہ میں جان جانِ آفریں کے سپرد کر چکے تھے۔ سردیوں کا موسم تھا۔ ساری رات ہم نے شدید سردی میں کاٹی۔ آخر خدا خدا کر کے صبح سورج طلوع ہوا تو میں نے کیمپ کا جائزہ لیا۔ اس چھوٹے سے کیمپ کے چاروں طرف ملٹری کا سخت پہرہ تھا۔ لوگوں کو باہر رفع حاجت تک کرنے نہیں جانے دیتے تھے۔

آج ہمارا فاقے کا چوتھا دن تھا۔ میں ایک گوجر کے پاس گیا۔ اور بولا،’’یار آج میرا فاقے کا چوتھا دن ہے۔ کچھ کھانے کو دو۔‘‘ یہ سن کر وہ حیران ہوا اور مسکرا کر بولا،’’بابو جی! آپ کو تو صرف چار دن ہوئے ہیں۔ میرا تو فاقے کا اکیسواں دن ہے۔

پیٹ پر پتھر باندھے ہوئے ہیں۔‘‘ پھر وہ بولا ہمارے سیکڑوں بھائی بھوک کی شدت سے مارے جاچکے ہیں۔ ہر جانب بھوکے پیاسے لوگوں، عورتوں کی درد ناک آوازیں اور بھوک سے نڈھال بچوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ میں نے پوچھا تو زندہ کیسے ہو؟ اس گوجر نے کہا،’’کیمپ کے پاس جو تھور لگی ہے اتار کر چھیلتے ہیں، ابال کر کھاتے ہیں، تا کہ پیٹ بھر سکیں۔ اسے کھانے سے وبا پیدا ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ہم پتے بھی کھاتے ہیں۔‘‘ اس کی باتیں سن کر میں سخت حیران ہوا اور وقتی طور پر میری بھوک اڑ گئی۔

لیکن آخر کب تک، میں تالاب پر گیا جہاں گائے اور بھینس پانی میں بیٹھی ہوئی تھی۔ میں نے پانی کے دو تین گھونٹ پیے اور خدا کا شکر ادا کیا۔ اس کیمپ میں ملٹری والے بھی ہم پر بہت مظالم ڈھا رہے تھے۔ رات کے وقت گوجروں، راجپوتوں، تیلیوں اور دیگر قبائلیوں کی نوجوان لڑکیاں اٹھا کر لے جاتے۔ طرح طرح کے ظلم و ستم کا نشانہ بناتے۔

اسلام، مسلمانوں اور پاکستان کو گالیاں دیتے، مگر ہم سب خاموشی سے ان کی باتیں سنتے، اس کے سوا اور کر بھی کیا سکتے تھے۔ اسی طرح پندرہ دن ہم سب کھانے کے لیے خدا سے دعا کرتے رہے کہ ہمیں ایک ملٹری جیپ اور اس کے پیچھے ایک ٹرک آتا دکھائی دیا۔ لوگ طرح طرح کی باتیں کرنے لگے۔

ہم دھوپ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ہمیں دور سے گرد اٹھتی دکھائی دی، جو رفتہ رفتہ ہمارے قریب آن پہنچی۔ یہ 20 ٹرک تھے، جو ہمیں شہر لے جانے کے لیے آئے تھے۔ میں نے جلدی جلدی اپنے کپڑے پہنے، پھٹی ہوئی جوتی لی اور سب سے پہلے گاڑی میں سوار ہوگیا۔ گاڑی کا ڈرائیور میرا واقف تھا۔ یہ ڈرائیور ہمارے گھر کے ٹکڑوں پر پلا تھا۔

اس وقت وہ ماتھے پر بڑا سا تلک لگائے بیٹھا تھا۔ میں نے اس کو ہاتھ سے سلام کیا، مگر اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ میں نے اس سے اپنے گھر والوں کا پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ سارے پاکستان چلے گئے ہیں۔

بس آپ کے ناناجان کا کچھ پتا نہیں۔ اس کے بعد اور باتیں پوچھیں مگر اس نے کوئی صحیح جواب دینا مناسب نہ سمجھا۔ میں چپ چاپ گاڑی میں بیٹھ گیا۔ تقریباً آدھے گھنٹے میں گاڑی سواریوں سے بھرگئی۔ اور لاریاں اسٹارٹ کرکے ہمیں جموں شہر لے آیا گیا۔ راستے میں کوئی حادثہ پیش نہیں آیا۔

جموں آکر اسلامیہ ہائی اسکول میں کیمپ لگایا۔ یہ اسکول کبھی ہزاروں لڑکوں کی تعلیم کا مرکز تھا، مگر آج مسلمانوں نے اس کی جملہ املاک تباہ کر ڈالیں۔ اسکول کے میز، کرسیاں، ڈیسک اٹھا کر لے گئے تھے۔ وہاں راشن سے بھرے ہوئے ٹرک دیکھتے ہی ہماری عید ہوگئی۔ شیخ عبد اللہ نے تمام کیمپ کا دورہ کیا اور تمام لوگوں کو ایک جگہ کرکے اپنی بکواس شروع کردی کہ یہ سب پاکستانیوں کی بے ساکھیوں پر کودنے کی وجہ سے ہوا ہے۔

مجھے آج پتا چلا ہے کہ میرے مسلمان بھائی فاقوں سے مر رہے ہیں۔ اسی لیے آج راشن کی دو لاریاں لائی گئی ہیں۔ اب ہر روز راشن آئے گا اور جلد ہی آپ سب کو جموں واپس لے جایا جائے گا۔ ایک دو اور جھوٹی تسلیاں دیں اور ہم میں راشن تقسیم کیا۔ یہ راشن چاول کی صورت میں تھا۔ چاول موٹے اور سرخ تھے، جو کہ عام طور پر کٹھوعہ کی تحصیل میں پیدا ہوتے ہیں۔

ان کو پکانے میں بہت مشکلات پیش آئیں۔ اول تو برتن ہی نہ تھے جن میں پکاتے اور اگر برتن مانگ بھی لیتے تو لکڑیاں تو تھی ہی نہیں۔ آخر تنگ آکر سب نے کچے ہی چبانے شروع کر دیے، جس کی وجہ سے سب کے پیٹ میں درد شروع ہوگیا۔ اس طرح بیس دن ہوگئے۔ شام کے کھانے کے دس منٹ کے بعد ایک لڑکا میرے ہندو دوست کے بڑے بھائی کے ساتھ میرے پاس آیا۔ انہوں نے آتے ہی مجھے اپنے ساتھ جانے مجبور کر دیا۔ آخر میں اس کے ساتھ گھر گیا جہاں میرا دوست کھڑا میرا انتظار کر رہا تھا۔

جس وقت مجھے میرے دوست کی ماں نے دیکھا تو رونے لگی۔ میں ان کے گھر جایا کرتا تھا، مگر آج میں اپنے شہر میں ہی ان کے گھر مہاجر کی حیثیت سے کھڑا تھا۔ میرے کپڑے پھٹے ہوئے تھے، نہائے بغیر مجھے کافی عرصہ ہو گیا تھا۔ میری حالت کافی خراب تھی۔ میرے دوست کا نام راجندر سنگھ تھا۔

ا س کی ماں نے مجھے سینے سے لگایا۔ پیار کیا اور ایک روپیہ میرے سر سے نیاز اتاری۔ میں نے وہاں روٹی کھائی اور ایک ماہ تک ان کے گھر میں قیام کیا۔ میں اس عرصے میں اپنے گھر بھی گیا مگر وہ گھر اب میرا گھر کہاں تھا میں دروازے سے ہی واپس چلا آیا۔ پھر کبھی ادھر نہ گیا۔ ایک ماہ رہنے کے بعد جموں سے پاکستان جانے کے لیے ڈاک کے ملازموں کے ٹرک تیار ہوئے، میں بھی ان میں بیٹھ گیا اور پورے ایک ماہ اور بیس دن بعد پاکستان پہنچ گیا۔

The post جموں کے مقتل سے ہجرت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/unq183M
Previous Post Next Post

Contact Form