16 دسمبر، پاکستان کی تاریخ میں دو المناک سانحات پیش آئے جن میں ایک سقوط ڈھاکہ ہے جس میں پاکستان دولخت ہوگیا تھا، دوسرا سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور ہے، جب بزدل دہشت گردوں نے معصوم بچوں کا قتل عام کیا، پورا پاکستان ان معصوم پھولوں کی مظلومانہ شہادتوں کی یاد منا رہا ہے، یہ سانحہ ایسا زخم ہے جو ہر برس سولہ دسمبر کو تازہ ہوجاتا ہے ۔
تاریخ گواہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے الگ وطن کی مضبوط تحریک بنگال سے ابھری تھی۔ مسلم لیگ ڈھاکا میں 1906میں قائم ہوئی تھی۔
تحریکِ پاکستان میں بنگال کے رہنماؤں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ قراردادِ پاکستان مولوی فضل حق نے پیش کی جو بنگالی تھے۔ سقوط مشرقی پاکستان کی وجوہات بیشمار ہیں جن میں سماجی، سیاسی، معاشی، مذہبی، علاقائی اور بین الاقوامی عناصر شامل ہیں۔
1956 کے آئین سے بنگالی مطمئن تھے مگر 1958 میں ایوب خان نے مارشل لا نافذ کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا، یوں بنگال کی سیاسی قیادت میں گہری مایوسی پیدا ہوئی۔ جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی رہی اور آخرکار بنگلہ دیش کے قیام پر منتج ہوئی۔
مشرقی پاکستان میں جب جنگ جاری تھی، اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں فوری جنگ بندی کی کم از کم 3قراردادوں کو روس نے ویٹو کیا کیونکہ روس کا بھارت کے ساتھ دفاعی معاہدہ تھا۔ امریکی صدر رچرڈ نکسن اور ان کے طاقتور مشیر برائے قومی سلامتی ہنری کسنجر بھارتی حکومت کی پالیسیوں کے شدید مخالف تھے۔
یہ دونوں لیڈرز جنرل یحییٰ خان کے حامی تھے، وہی یحییٰ خان جو پاکستان کو دولخت ہونے کی جانب لے جا رہا تھا۔امریکا نے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں جنگ بندی کی 3 قراردادیں پیش کیں لیکن سابق سوویت یونین نے ان پر ویٹوکیا تھا، یوں بھارتی افواج کو ڈھاکہ تک پہنچنے کا وقت مل گیا جس کا نتیجہ بنگلہ دیش کی صورت میں سامنے آیا۔
اس حوالے سے بہت کچھ کہا جا رہا ہے اور مستقبل میں بھی کہا جاتا رہے گا۔سقوط ڈھاکہ کے پس پردہ کردار کون تھے‘ حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ بھی موجود ہے۔
ان معاملات پر حتمی تحقیق اور فیصلہ کب ہو گا اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا اور یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ جن کرداروں پر انگلی اٹھائی جا رہی ہے‘ ان کی ذمے داری کس حد تک ہے ۔اب دوسرے المناک سانحے کا ذکر کرنا ضروری ہے کیونکہ اس سانحے کو گزرے زیادہ عرصہ نہیں ہوا ۔
16دسمبر2014 کی وہ خون آشامِ صبح ریاست پاکستان کے سینے میں خنجر کی طرح پیوست رہے گی اور اس زخم سے آج بھی خون رس رہا ہے۔اس روز اے پی ایس اسکول کے معصوم طلبہ پر قیامت برپا کر دی گئی۔
جدید ہتھیاروں سے لیس دہشت گردوں کا ایک ڈیتھ اسکواڈ اسکول میں داخل ہوا اور اسکول کے طلبہ پر اندھا دھند گولیاں برسانے لگا، خودکش جیکٹس اور جدید اسلحے سے لیس حملہ آوروں نے قوم کے ان نونہالوں کے خون سے اسکول کے درو دیوار سرخ کردیے۔
گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور دھماکوں سے ہرطرف ان معصوموں کی لاشیں بکھرگئیں، کلاس رومز سے لے کر اسکول کے ہال کے درودیوارتک فرشتہ صفت بچوں کے خون کے چھینٹوں سے سرخ ہوگئے۔ بچوں کی ٹیچر دہشت گردوں کے سامنے بلا خوف ڈٹ گئی اور شہادت کا رتبہ پا کر ثابت کردیا کہ ہماری دھرتی کی مائیں، بہنیں بہادری اور جانثاری کا استعارہ ہیں۔
اسے سانحہ کہیں، قیامت یا پھر کوئی اور نام دیں؟ تاریخ اس اندوہناک واقعے پر ہمیشہ ماتم کرتی رہے گی۔ اس سانحے کو گزرے نوبرس ہوچکے ہیں لیکن غم ہے کہ مٹتا ہی نہیں، کرب ہے کہ جاتا ہی نہیں اور آنسو ہیں کہ رکتے ہی نہیں۔
بزدل دشمن نہیں جانتا اس نے اے پی ایس میں درجنوں پھول تو مسل دیے لیکن ان کی خوشبو امن کی پہچان اور وطن کی آن بن گئی ہے۔ قریہ قریہ شہر شہر ان ننھے مجاہدوں اور شہداء کو خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے۔ دہشت گردوں کے خاتمے تک پاکستان چین سے نہیں بیٹھے گا۔
سانحہ اے پی ایس پشاور کے وہ ذمے دار دہشت گرد جنہوں نے اسکول کے بچوں کا قتل عام کیا‘ انھیں تو جہنم و اصل کر دیا گیا ‘لیکن اس سانحے کے منصوبہ سازوں ‘سہولت کاروں اور مخبروں کو ان کے انجام تک پہنچانا باقی ہے۔ یہ پوری قوم پر وہ قرض ہے‘ جسے اصل مجرموں کو انجام تک پہنچا کر ہی ادا کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں کثیر الجہتی اہداف حاصل کرنے کے لیے دہشت گردی کرائی جا رہی ہے ۔دہشت گردوں کے ماسٹر مائنڈز ‘سہولت کار ‘فنانسرز اور مخبر وں کا نیٹ ورک قائم ہے۔
یہ نیٹ ورک پاکستان کے اندر بھی موجود ہے‘ وائٹ کالر کریمینلز مافیا کے مفادات بھی دہشت گردوں کے ماسٹر مائنڈز کے ساتھ ہم آہنگ ہو چکے ہیں۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے ‘اب بہت سے حقائق منظرعام پر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ سانحہ اے پی ایس جن کے ذریعے ایگزیکیوٹ کرایا گیا ‘ وہ اس کی ذمے داری قبول کر چکے ہیں۔
افغانستان کے اقتدار پر قابض گروہ کے پس پردہ مقاصداور اہداف بھی سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں‘ جو ابھی تک پردہ اخفا میں ہیں ‘وہ بھی جلد منظرعام پر آ جائیں گے۔ پاکستان میں غیرقانونی کاروبارسے منافع کمانے والا گروہ ‘قانون کی گرفت سے آزاد رہنے کے لیے ‘ریاستی نظام کو توڑنا چاہتا ہے۔
ملک میں بلیک اکانومی کا پھیلاؤ ظاہر کرتا ہے کہ اس اکانومی کے مالکان اور بینیفیشریز کس قدر طاقتور ہیں۔ٹی ٹی پی اور اس کی ذیلی تنظیمیں پاکستان میں دہشت گردی کر رہی ہیں اور ان کی پناہ گاہیں پاکستانی سرحد سے ملحقہ افغانستان کے علاقوں میں ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان سرکاری طور پر بھی افغانستان کی موجودہ حکومت کو آگاہ کر چکا ہے۔
افغانستان میں دہشت گرد موجود ہیں اس میں تو کوئی شبہ نہیں رہا لیکن اصل مسئلہ جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ‘ وہ ملک کی سرحدوں کو فول پروف بنانا ہے۔ پاکستان کی شمال مغربی سرحدیں 70برس سے ڈھیلی ڈھالی اور کھلی ہوئی ہیں ‘ پاکستان کی کسی حکومت نے اس حوالے سے کوئی طریقہ کار وضع کرنے پر توجہ نہیں دی ۔
پاکستان کی مختلف حکومتیں ایسا کیوں نہیں کر سکیں ‘اس کی وجوہات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں ‘اب پاکستان شمال مغربی سرحدوں پر سیکیورٹی بھی بہتر کر رہا ہے اور آمدورفت کے حوالے سے نئی قانون سازی بھی ہو رہی ہے‘ پاکستان کے ان اقدامات کی شدید مخالفت کرنے والے عناصر کون ہیں ؟سرحدیں سخت ہونے سے ان کو کیا پرابلمز ہیں ‘یہ جاننے کی بھی ضرورت ہے ‘ یہ پہلو مدنظر رکھنا بہت ضروری ہے کہ دہشت گردی اور خانہ جنگی کی بھی ایک معیشت ہوتی ہے ‘یہ معیشت ہی دراصل بلیک اکانومی کہلاتی ہے۔
بلیک اکانومی کریمینلز مافیازکی ملکیت ہوتی ہے ‘ یہ مافیا پس ماندہ اور غریب ملکوں کی بربادی کا اصل ذمے دار ہے ‘اس مافیا کی کمائی کے ذرائع ایسے ہیں کہ جنھیں کوئی ریاستی سسٹم آئین اور قانون کا جامہ نہیں پہنا سکتا ‘مثلاً ڈرگزاور منشیات کا کاروبار ‘اغوا برائے تاوان ‘عورتوں اور بچوں کی تجارت ‘نامور شخصیات کو قتل کرانے کے لیے شوٹرز کی سرپرستی ‘جوئے خانے اور قحبہ گری ‘یہ ایسی کمائی ہے جو کبھی قانونی نہیں بن سکتی اور نہ ہی کوئی قانون ایسے جرائم کو کاروبار بنانے کی اجازت دے سکتا ہے۔
دہشت گرد گروہ اپنی بقا کے لیے ایسے جرائم کی کمائی استعمال کر رہے ہیں ‘پاکستان کو سب سے پہلے سسٹم میں موجود بلیک اکانومی کے بینیفیشریزکو مارجنل لائزکرنے کے لیے لائحہ عمل تیار کرنا ہو گا کیونکہ ایسا کیے بغیر دہشت گردی اور وائٹ کالرز کریمینلز مافیا کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔
پاکستان کا ریاستی نظام وائرس زدہ ہو چکا ہے ۔مبہم قوانین ‘سرکاری افسروں اور عملے کے یکطرفہ اختیارات نے دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو سسٹم میں داخل ہونے کا موقع دیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا کریمینل جسٹس سسٹم دہشت گردوں کو سزائیں دلانے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔
سسٹم کی یہ بہت بڑی خرابی ہے ‘جب تک ریاستی سسٹم میں قوانین اور ضابطوں کی شکل میں چور دروازے موجود ہیں ‘دہشت گردوں ‘کریمینل مافیاز اور بلیک اکانومی کے بینیفیشریزپر قابو پانا ممکن نہیں ہو گا۔پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے گروہ پولیٹیکل اور اکنامک پاورز پر اپنا کنٹرول چاہتے ہیں۔ مذہب کے نام پر دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والے ‘انتہائی مکار‘ عیار‘دھوکے باز ‘بدعہداور ظالم ہوتے ہیں۔
اپنے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں ‘مذہبی تعلیمات اور سماجی اقدار ان کے لیے کوئی معنی اور اہمیت نہیں رکھتی۔
اقتدار اعلیٰ کی حامل ریاست کسی باغی گروہ کی موجودگی برداشت نہیں کرتی اور نہ ہی اپنی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت پر کوئی کمپرومائز کرتی ہیں۔ پاکستان کی ریاست کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے ‘اس کا آغاز سسٹم کی اوور ہالنگ سے کیا جانا چاہیے ‘جیسے ہی سسٹم کو لگا ہوا زنگ اترے گا اور اس کے گلے سڑے پرزے تبدیل ہوں گے ‘پاکستان کے مسائل حل ہونا شروع ہوجائیں گے۔
The post سانحہ اے پی ایس کا زخم آج بھی تازہ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/9L3Q7U1