تھامس جیفرسن امریکا کے بانیوں میں شامل ہیں۔اچھے انداز میں حکومت کرنے یا گڈ گورننس کے بارے میں ان کا ایک مشہور قول ہے:’’ حکمران طبقہ اگر اپنے فرائض دیانت داری اور فرض شناسی سے انجام دے تو ملک خودبخود ترقی کرتا چلا جاتا ہے اور اس کے عوام کو خوشحالی و اطمینان حاصل ہوتا ہے۔‘‘یہ ایک صائب قول ہے۔
تاریخ انسانی شاہد ہے کہ جن ممالک میں حکمران طبقے لالچ وہوس کا شکار ہو کر ذاتی مفادات پورے کرنے لگا، وہاں کبھی ترقی و خوشحالی نہ آ سکی بلکہ عوام ان کی کرپشن کی وجہ سے ذلت وخوار ہی ہوئے۔
حکمران طبقے نے کبھی عوام کی فلاح وبہبود کو نظر میں نہیں رکھا اور اپنے وقتی فوائد پورے کرتا رہا۔صد افسوس کہ پاکستان کے معاملے میں بھی حکمران طبقہ عوامی خواہشات اور امنگوں پہ پورا نہیں اتر سکا۔مہنگائی کی موجودہ صورت حال ہی کو لے لیجیے۔
مہنگائی بڑھنے کے عوامل
پاکستان میں دو عوامل کے باعث بنیادی طور پہ مہنگائی نے جنم لیا…خوراک کی قیمتیں بڑھنا اور ایندھن (پٹرول، ڈیزل، بجلی ، گیس وغیرہ)کی قیمتیں بھی بڑھ جانا۔ اشیائے خورنوش کی قیمتیں اس لیے بڑھ رہی ہیں کہ ایک تو پاکستان کی آبادی میں اضافہ ہو چکا۔ دوسرے اناج،سبزی، پھل وغیرہ کی پیدوار میں اضافہ نہیں ہو رہا بلکہ اس میں کمی آ چکی۔وجہ یہ ہے کہ کئی کسان اپنی زمینیں فروخت کر چکے اور وہاں ہاؤسنگ سوسائٹیاں بن چکیں۔ نیز بہت سے کسانوں نے مشکل حالات کی وجہ سے زراعت چھوڑ کر کوئی اور پیشہ اختیار کر لیا۔
انہی وجوہ کی بنا پر زرعی پیداوار گھٹ جانے سے اب کثیر تعداد میں مختلف اقسام کی خوراک مثلاً دالیں، گندم،مسالے حتی کہ سبزیاں (مثال کے طور پہ ادرک)تک بیرون ممالک سے آ رہی ہیں۔ چونکہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر بہت گر چکی، اسی لیے درآمدی اشیا پانچ سال کی نسبت بہت مہنگی ہو گئیں۔
جو ڈالر ستمبر 2006ء میں 60روپے کا تھا، وہ دس سال بعد ستمبر 2016ء میں 102روپے کا ہو گیا۔ وہ ستمبر 2018ء میں 123 روپے کا ہوا اور صرف پانچ سال بعد اب 300روپے کے آس پاس گھوم رہا ہے۔
پاکستانی روپے کی قدر گرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ مملکت پہ قرضوں کا بھاری بوجھ ہے۔اسٹیٹ بینک کی رو سے پاکستان پہ کل قرضہ ’’77 ہزار روپے‘‘تک پہنچ چکا۔صورت حال یہ ہے کہ حکومت کو ماہانہ اور سالانہ جو آمدن ہوتی ہے، اس کا نصف سے زیادہ حصہ قرضے اتارنے اور ان کا سود دینے پہ خرچ ہو جاتا ہے۔
بقیہ رقم میں سے بیشتر حصہ دفاع، پنشنوں اور حکومت چلانے پہ خرچ ہوتا ہے۔یوں عوام کی فلاح وبہبود کے کاموں پہ خرچ ہونے والی سرکاری رقم ہر سال کم ہو رہی ہے۔
رقم کم ہونے کے باعث ہی حکومت نے خوراک اور ایندھن پہ دی جانے والی سبسڈیاں ختم کر دیں۔ گویا حکمران طبقے نے اپنے اخراجات کم نہیں کیے، غریبوں کو جو مالی سہولت دی جاتی تھی، اس کا خاتمہ کر دیا۔ کیا اسے عوام دوست اور عدل وانصاف پہ مبنی اقدام کہا جا سکتا ہے؟
شعبہ ایندھن کی صورت حال
دور جدید میں ایک مملکت کی ترقی و خوشحالی کا دارومدار بجلی پہ استوار ہو چکا کیونکہ گھر سے لے کر دفتر اور فیکٹری تک تمام کاروبار ِحیات اسی سے چلتا ہے۔بجلی نہ ہو تو ایک لحاظ سے ہر جگہ کام ٹھپ ہو جاتا ہے۔
بجلی کے بعد تیل و گیس کا نمبر آتا ہے۔مگر تیل وگیس اورکوئلہ وغیرہ ماحول دشمن ذرائع ایندھن ہیں ۔ پھر ان کے ذخائر کبھی نہ کبھی ختم ہو جائیں گے۔ اسی لیے دنیا بھر میں قابل تجدید ذرائع مثلاً پانی، سورج اور ہوا سے بجلی بنانے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک تو اگلے دس پندرہ سال میں تیل ، گیس اور کوئلے سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں کیونکہ ان ایندھنوں سے پیدا شدہ گیسیں وہاں گرمی کی شدید لہروں کو جنم دے رہی ہیں۔گرمی نے نظام زندگی تلپٹ کر کے رکھ دیا ہے۔اسی لیے وہاں بجلی کی کاروں اور گاڑیوں کا رواج جنم لے چکا۔
قدرت نے پاکستان کو ان گنت چھوٹے بڑے دریاؤں سے نوازا ہے۔ ان دریاؤں میں ڈیم بنا کر نہ صرف آب پاشی کے لیے پانی ذخیرہ کرنا ممکن ہے بلکہ پانی سے بجلی بھی بنائی جا سکتی ہے۔ پاکستان کے حصے میں آنے والے علاقے میں پہلا ایسا آبی ڈیم رینالہ خورد کے مقام پہ 1925ء میں بنایا گیا جو آج بھی بجلی بنا رہا ہے۔
قیام پاکستان کے بعد رسول بیراج پر 1952 ء میں پہلا آبی بجلی گھر بنایا گیا جو 22 میگاواٹ بجلی بناتا ہے۔ آبی بجلی گھر میں بجلی بہت سستی بنتی ہے، اسی لیے تب کے پاکستانی حکمران طبقے نے دوراندیشی اور فرض شناسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دو بڑے ڈیم …منگلا(تکمیل1965 ئ)اور تربیلا (تکمیل 1976ء )بنائے جو بالترتیب 1070اور 4888میگاواٹ بجلی بناتے ہیں۔ نیز ان میں ترتیب سے 7,390,000 ایکڑ فٹ اور 11,620,000 ایکڑ فٹ پانی جمع ہو سکتا ہے۔
حکمران طبقہ لاتعلق
ان بڑے ڈیموں کی تعمیر کے بعد مگر پاکستانی حکمران طبقہ مملکت کے مستقبل اور قوم کو درپیش ایندھن کی ضروریات سے بے پروا اور لاتعلق سا ہو گیا۔ ملک کی آبادی بڑھتی رہی اور قدرتاً بجلی کی طلب میں بھی اضافہ ہوا مگر لگتا ہے۔
حکمران طبقے کی توجہ اپنی کرسیاں بچانے، اعلی عہدے حاصل کرنے، سرکاری خزانے سے کسی نہ کسی طرح رقم بٹورنے ، ملکی و غیر ملکی دورے کرنے اور اپنی دولت و جائیداد میں اضافہ کرنے پر زیادہ مرکوز ہو گئی۔مستقبل میں مملکت کو بجلی کی کمی سے کیا دشواریاں پیش آئیں گی، کسی کا ان کی طرف خیال نہیں گیا۔
1984ء کے اوائل میں جب بجلی کی کمی کا سامنا ہوا تو حکمران طبقے نے مسئلے کا آسان حل یہ نکالا کہ لوڈشیڈنگ شروع کر دی۔ یوں حکمران طبقے کی نااہلی اور فرائض سے غفلت کے سبب پاکستانی قوم پہ عجیب وغریب عذاب نازل ہو گیا۔
حد یہ ہے کہ اس وقت بھی حکمران طبقے کو یہ خیال نہیں آیا کہ بجلی کی کمی پوری کرنے کے لیے نئے ڈیموں کی تعمیر شروع کی جائے۔1979ء میں کالاباغ ڈیم بنانے کا منصوبہ سامنے آیا مگر یہ منصوبہ سیاست کا نشانہ بن کا منجمند ہو گیا۔
اس سے قبل اسکردو میں کٹزارہ ڈیم کی تعمیر کا منصوبہ سامنے آ چکا تھا ، مگر حکمران طبقے نے اس پر بھی کوئی توجہ نہیں دی۔یہ ڈیم بنا کر 15 ہزار میگاواٹ سستی بجلی بنائی جا سکتی تھی۔ عدم توجہ کی وجہ سے ملک کو بجلی کی کمی کا مسلسل سامنا رہا۔ 1992ء میں حکمران طبقے نے حل یہ نکالا کہ نجی کمپنیوں (المعروف بہ آئی پی پی ایز)کو بجلی بنانے کی ذمے داری سونپ دی۔
یوں مہنگی بجلی بننے کا آغاز ہوا جو اب انتہائی مہنگی ہو کر پاکستانیوں کی جان ومال کی دشمن بن چکی۔ بجلی مہنگی اس لیے ہے کہ پاکستان میں ’’61 فیصد ‘‘ بجلی تیل وگیس و کوئلے سے بنتی ہے جو بیرون ممالک سے ڈالر میں خریدے جاتے ہیں۔ چونکہ ڈالر مہنگا ہو چکا، لہذا بجلی بھی مہنگی ہو رہی ہے۔ بجلی چوری، لائن لاسیز ، کیپسٹی چارجز، گردشی قرضہ اور کرپشن اسے مذید مہنگا کر دیتے ہیں۔ اسی لیے پاکستان میں بجلی ایک جان لیوا عذاب بنا چکی۔
کیپسٹی چارجز کا عجوبہ
پاکستان کے شعبہ بجلی کو لاحق مسائل میں سب سے زیادہ سنگین مسئلہ کیپسٹی چارجز کا ہے جو اگلے مالی سال میں دو ہزار ارب روپے سے بڑھ جائیں گے۔ اور بجلی کے بلوں کی صورت یہ رقم صارفین سے زبردستی وصول کی جائے گی۔
کیپسٹی چارجز کی آسان تعریف یہ ہے کہ نجی بجلی گھروں میں جتنی بجلی بنے گی، ازروئے معاہدہ پاکستانی حکومت اسے خریدنے کی پابند ہے، چاہے وہ بجلی استعمال ہو یا نہ ہو۔پاکستانی حکمران طبقے نے ملک و قوم کے ساتھ کیا سنگین مذاق کیا؟ وہ یہ کہ بلا
The post ڈیم بنا کر سستی بجلی بنائیے appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/pqrSjNW