پاکستان کی معاشی اور معاشرتی تباہی؛ ذمہ دار کون؟

پاکستان اور بھارت دونوں ایک ہی وقت میں ایک جیسے حالات میں معرض وجود میں آئے تھے۔

بھارت کاصرف جون 2023ء میں مجموعی برآمدات کا تخمینہ 60 بلین ڈالر تھا جب کہ دوسری طرف پاکستان اس قدر معاشی بدحالی کو پہنچ گیا ہے کہ آئی ایم ایف سے صرف 3 ارب ڈالر قرض لینے کے لیے اس کی ہر شرط ماننے کو ہم تیار تھے جیسے ہماری بقاء اور سلامتی کا انحصار آئی ایم ایف سے ملنے والے قرض پر رہ گیا ہو اور اس کے علاوہ باقی کوئی راستہ ہی نہ بچا ہو۔ بھارت 17ارب ڈالر خرچ کرکے چاند پر مشن بھیج رہا ہے جبکہ ہم آئی ایم ایف سے صرف 3 ارب ڈالر قرضہ ملنے پر خوشیاں منا رہے ہیں جو کہ ہمیں سود کے ساتھ واپس کرنا ہے۔

اس قدر شرم ناک صورت حال کو ہم کیوںکر پہنچے اس پر گہرائی میں جاکر سوچنے اور تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔

ایک ایسا ملک جو ایک ایسے عظیم تر اور آفاقی نظریے کی بنیاد پر معرض میں وجود میں آیا ہو جس نظریے نے مسلمانوں کو ایک ہزار سال سے زائد عرصہ تک دنیا میں بہترین سیاسی، معاشی اور معاشرتی نظام کے ساتھ سپریم پاور کی حیثیت سے حکم رانی کرنے کا اہل بنایا، ایک ایسی قوم جو قرآن جیسی آفاقی کتاب کی حامل ہو جس نے عرب کے صحرانشینوں کو قیصر و کسریٰ کا فاتح اور اقوام عالم کا امام بنا دیا اور ایک ایسی قوم جس کا تعلق اس امت سے ہو جس کو اس کائنات کے خالق نے خیراُمت قرار دیا ہو، وہ اس قدر ذلت اور پستی کا شکار کیوں کر ہو سکتی ہے؟

ہمارا دعویٰ تھا کہ ہم پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنائیں گے جبکہ آج صورتحال یہ ہے کہ ہم صرف چند ارب ڈالرز کی خاطر اپنے سیاسی، معاشی اور معاشرتی نظام کو اسلام دشمن باطل قوتوں کے ہاں گروی رکھ چکے ہیں اور ہماری اسمبلیاں ہر قسم کی خلاف شریعت قانون سازیاں کر رہی ہیں، ہمارا تعلیمی نظام قرآنی بنیادوں پر استوار ہونے کی بجائے مکمل طور پر دجالی تہذیب کے رنگ میں رنگ چکا ہے، ہماری یونیورسٹیاں اور کالجز مغرب کی بے حیا تہذیب سے بھی دو قدم آگے کا نقشہ پیش کر رہے ہیں۔

ہم نے کہا تھا ہم پاکستان کو عالم اسلام کا امام اور لیڈر بنائیں گے لیکن آج کوئی بھی مسلم ملک پاکستان کو بھیک دینے کو تیار نہیں ہے۔

بعض سیکولر ذہنیت کے لوگ اس تباہی اور خرابی کا ذمے دار بھی اس نظریہ، اس سوچ اور مذہبی نقطہ نظر کو قرار دے رہیں کہ جس کی بنیا د پر پاکستان معرض وجود میں آیا تھا اور جس کی خاطر مسلمانوں نے اپنے گھر بار، کاروبار، روزگار اور آبائی زمینیں اور جائیدادیں چھوڑ کر ہجرت کی تھی۔

کہا یہ جارہا ہے کہ دنیا نے انجنیئر، ڈاکٹر، سائنس داں، محققین، ماہرین معیشت پیدا کیے جب کہ ہم نے نیلی، پیلی، کالی اور سفید پگڑیوں والے مولوی، دہشت گرد اور مناظر پیدا کیے، دنیا نے جدید سے جدید ٹیکنالوجی، انڈسٹری اور کارپوریٹ سیکٹر میں ترقی کی جب کہ ہم نے مدرسے اور مساجد کی تعداد میں اضافہ کیا۔

مگر ہماری رائے میں یہ الزام اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مترادف ہے۔ 75 سال سے پورے کا پورے نظام سیکولر طبقے کے ہاتھ میں ہے، ملٹری اور سول بیوروکریسی میں اجارہ داری سیکولر طبقے کی ہے، پورا معاشی نظام اور بینکنگ سسٹم اسی طبقے کے ہاتھ میں ہے، پھر تباہی کا ذمے دار وہ نظریہ، وہ سوچ اور وہ طبقہ کیسے ہوگیا جس کو 75 سال میں نظام کو مکمل طور پر کنٹرول میں لینے کا موقع ہی نہیں مل سکا؟

اس سیکولر بہتان کا رد اول تو ایک نظری مثال سے ہی ہو جاتا ہے کہ جب افغانستان میں امریکا کی شکست کے بعد افغان طالبان حکومت میں آئے تو پاکستان کا یہی سیکولر ذہن ان کی اہلیت اور صلاحیت پر طرح طرح کے سوالات اُٹھا رہا تھا۔ آج وقت بتا رہا ہے کہ ان کی صرف دو سال کی کارکردگی ہماری 75 سالہ کارکردگی سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔

آج وہاں ڈالر 86 افغانی کا ہے جب کہ پاکستان میں 284 روپے کا ہے۔ وہاں پیٹرول 65 افغانی فی لٹر مل رہا ہے جب کہ پاکستان میں 254 روپے میں، وہاں دودھ 48 افغانی فی لٹر مل رہا ہے جب کہ پاکستان میں عام دودھ 160 سے لے کر 250 روپے تک مل رہا ہے جس کے خالص ہونے میں بھی شکوک و شبہات ہیں۔

وہاں روٹی 5 افغانی میں مل رہی ہے جب کہ پاکستان میں 30 روپے میں مل رہی ہے۔ یہ موازنہ تو محض اہلیت اور صلاحیت پر سوال اُٹھانے والوں کے لیے تھا۔ اب ہم آتے ہیں اس طرف کہ پاکستان کی معاشی اور معاشرتی تباہی کا اصل ذمے دار کون ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان ایک نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا جو کہ اسلام ہے۔ اسی کی خاطر اتنی قربانیاں دی گئیں اسی کی بنیاد پر مختلف لسانی، نسلی اور علاقائی تفریقات کو پس پشت ڈال کر ایک پاکستانی قوم وجود میں آئی تھی۔

1949ء میں اس نظریے کے باقاعدہ نفاذ کے لیے قرارداد مقاصد بھی پاس ہوگئی اور نفاذ اسلام کے لیے تمام مکاتب فکر کے 31 علماء کے متفقہ 22 نکات بھی سامنے آگئے لیکن پھر چوہدری رحمت علی اور لیاقت علی خان جیسے نظریہ پاکستان کے محافظوں اور تحریک پاکستان کے اولین ستونوں کے راستے سے ہٹنے کے بعد وہ اشرافیہ پاکستان پر قابض ہوگئی جس کی تخلیق باقاعدہ طور پر کالونیل اور پوسٹ کالونیل مقاصد کے تحت ہوئی تھی۔

چناںچہ لیاقت علی خان کی شہادت کے پس پردہ ایک محرک یہ بھی تھا کہ انہوں نے قرارداد مقاصد پاس کرکے نظریہ پاکستان کو عمل کی راہ دکھائی تھی، جب کہ مذکورہ اشرافیہ کی تربیت عالمی سام راج نے اس نہج پر کی تھی کہ پوسٹ کالونیل دور میں وہ عالمی سام راجی نظام، ان کی تہذیب اور آئین کونہ صرف قائم و دائم رکھے بلکہ اس کی رکھوالی بھی کرے۔

چناںچہ یہی وجہ تھی کہ جب قراردادمقاصد پاس ہوئی (جس کی بنیاد اس نکتے پر تھی کہ پاکستان میں حاکمیت اعلیٰ صرف اللہ کی ہوگی) تو اس اشرافیہ نے تاسف سے کہا تھا کہ اب ہم دنیا کو کیا منہ دکھائیں گے۔ پھر یہ ہوا کہ جلد ہی اس اشرافیہ نے پاکستان کو مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں لے کر عالمی سام راج کے ایجنڈے کو پورا کرنا شروع کر دیا۔ بہتر ہوگا کہ اس اشرافیہ کے فرائض، ذمے داریوں اور اس کے مقاصد اور عزائم کو سمجھنے کے لیے اس کے بیک گراؤنڈ پر ایک طائرانہ نظر ڈال لی جائے۔

عالمی سام راج نے ورلڈ آرڈر کے نفاذ کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کو ذریعہ بنایا۔ بظاہر تہذیب و ترقی کے بلند و بالا دعوؤں کا دکھاوا کیا لیکن حقیقی طور پر دنیا کو معاشی، سیاسی اور معاشرتی طور پر اپنے پنجۂ استبداد میں جکڑنا مقصود تھا۔ چناںچہ دنیا کے مختلف علاقوں میں مختلف شکلوں میں کالونیل ازم کا آغاز ہوا۔

ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے بھیس میں عالمی ہتھیارے داخل ہوئے۔ کمپنی نے آتے ہی جہاں تجارتی معاہدے کیے وہاں خام مال کی لوٹ کھسوٹ کے لیے غداروں، وطن فروشوں، ٹھگوں، چوروں اور ڈاکوؤں کی کھیپ تیار کرنا شروع کی جو کمپنی کو خام مال کی فراہمی کے لیے چوری، ڈاکے، قتل و غارت گری تک سے گریز نہیں کر رہے تھے بلکہ کمپنی انہیں اس کام کے لیے باقاعدہ اسلحہ، تربیت، سیکیوریٹی اور اہم معلومات دے رہی تھی۔

یہ چور، لٹیرے، ٹھگ اور وطن فروش چند ٹکوں کی خاطر ملک سے سونا چاندی، ہیرے جواہرات، اجناس اور مال و دولت دیہات، شہروں، قافلوں اور رجواڑوں سے لوٹ کر کمپنی کو پہنچاتے تھے اور کمپنی انہیں انعام و اکرام سے نواز کر مزید غداروں کی فوج اکھٹی کرنے کا راستہ ہموار کرتی۔ پھر غداروں کی اسی فوج کو استعمال کرکے کمپنی نے ہندوستانی علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کیا اور مزید قبضوں کے لیے غداروں کی فوج کو خبررسانی اور مخبری پر معمور کیا۔

جو جو علاقے کمپنی کے قبضے میں آتے گئے وہاں کمپنی نے اپنے وفاداروں کو بسانا شروع کیا۔ خاص طور پر جو جتنا بڑا غدار، وطن فروش اور مخبر تھا اسے اتنا ہی بڑا خطاب دیا گیا اور اتنی ہی بڑی جاگیریں اور مراعات دی گئیں۔

یوں ان وطن فروشوں، غداروں کے لیے غداری اور وطن فروشی نہ صرف منافع بخش پیشہ ٹھہرا بلکہ ان کے ’’سنہری‘‘ مستقبل کا ضامن بھی بن گیا۔ یہاں تک کہ 1857ء کی جنگ میں انہی غداروں کی فوج کی مدد سے فرنگی جنگ جیتنے اور ملک اورعوام کو غلام بنانے میں کام یاب ہوگیا اور اس کے بعد یہی غدار اور وطن فروش آزادی کی جنگ لڑنے والے محب وطنوں کی زمینوں، روزگار پر، تجارت، زراعت، ان کی تاریخ اور شناخت پر قابض ہوگئے۔

ان غاصبوں، چوروں، وطن فروشوں اور ایمان فروشوں کے تحفظ کے لیے سارا نظام ترتیب دیا گیا۔ سرکاری سرپرستی اور تحفظ میں رفتہ رفتہ ایک ایسی اشرافیہ تشکیل پاگئی جس کا اولین مقصد عالمی سام راجی نظام، ایجنڈے اور تہذیب کو تحفظ دینا اور عوام پر عالمی نظام کا کنٹرول مستحکم رکھنا تھا۔

چناںچہ شروع میں ہی جس طرح اس طبقے نے خام مال کی لوٹ کھسوٹ، جبری ٹیکس وغیرہ میں عالمی سام راج کا ساتھ دیا تھا بالکل اسی طرح اس نے اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ مقامی صنعت و حرفت بالکل تباہ ہوجائے تاکہ عالمی آقاؤں کی مصنوعات کو مارکیٹ میں جگہ مل سکے اور وہ سرمایہ دارانہ نظام کے استحکام کے ذریعے دنیا پر مکمل کنٹرول حاصل کر سکیں۔

اس مقصد کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت مقامی دست کاروں اور ہنرمندوں کا قتل عام کیا، ان کے ہاتھ اور انگوٹھے تک کاٹے گئے اور بہت جلد سوئی سے لے کر جدید اسلحہ تک تمام مصنوعات برطانیہ کی استعمال ہونے لگیں۔ خاص طور پر طبقۂ اشرافیہ میں ولایتی مصنوعات اور اشیاء کا استعمال ایک مقبول رجحان بن گیا۔

گویا دیسی مصنوعات کا استعمال ان کی شان کے خلاف تھا لیکن اصل مقصود بیرونی آقاؤں کی خوش نودی کے لیے ولایتی مصنوعات کو رواج دینا تھا۔ آزادی کا مرحلہ آنے تک یہ اشرافیہ جاگیردار اور سرمایہ دار بن چکی تھی۔ تقسیم کے وقت کانگریس نے اعلان کر رکھا تھا کہ آزادی کے بعد بھارت میں جاگیرداری سسٹم ختم کر دیا جائے لہٰذا اس اشرافیہ کے مسلم جاگیردار فوراً مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر اکھٹے ہوگئے اور آزادی کے بعد عالمی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے اس اشرافیہ نے پاکستان کے نظام کو اپنی مٹھی میں کر لیا، سول اور ملٹری بیوروکریسی حسب سابق اس کی ہم نوا رہی۔

ان کے طور طریقے، وفاداریاں، ذہنیت، ایجنڈا و عزائم حسب سابق ہیں۔ چناںچہ یہ آج بھی مغربی تہذیب اور نظام کے محافظ ہیں، یہی لوگ اسمبلیوں میں خلاف اسلام قانون سازیاں کرتے ہیں، ملک سے سرمایہ اکٹھا کرکے بیرون ملک انوسٹ کرتے ہیں۔

ان کے گھوڑوں اور کتوں کی خوراکیں بھی ولایت سے آتی ہیں، ان کے علاج معالجے باہر ہوتے ہیں، ان کی صنعت و حرفت ہر چیز باہر ہوتی ہے جبکہ اندرون ملک صنعت اور ملکی مصنوعات کے استعمال کو گویا عیب سمجھتے ہیں۔ اشرافیہ کے اسی طرزعمل کا نتیجہ ہے کہ ملک اس حال کو پہنچا ہے۔

پاکستان کے ایک زرعی ملک ہے لیکن اس کے باوجود گندم، سبزیاں اور دیگر اجناس باہر سے منگواتا ہے، ٹیکسٹائل کے شعبے میں پاکستان کثیر زرمبادلہ کما سکتا تھا مگر اس کے باوجود 2021 میں پاکستان میں 170.42ملین ڈالر کی بنے ہوئے کپڑے کی درآمدات کی گئیں۔ چائے کی پیداوار کے لیے پاکستان میں بہترین موسم اور وسائل موجود ہیں اس کے باوجود جولائی 2021ء سے فروری 2022ء تک پاکستان نے 423.46 ملین ڈالرز کی چائے باہر سے منگوائی۔ 2020 ء میں پاکستان دنیا کا سب سے بڑا چائے درآمد کرنے والا ملک تھا۔

اسی طرح پاکستان میں لائیواسٹاک کے شعبے میں معمولی توجہ کے ساتھ سالانہ اربوں ڈالرز کا زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے اس کے باجود پاکستان نے گذشتہ برس 68.9 ملین ڈالر کی ڈیری مصنوعات، انڈوں اور شہد کی درآمدات کیں۔ پاکستان میں بے شمار سمندری اور ماہی گیری کے وسائل موجود ہیں، لیکن 2021 میں پاکستان نے 1.99 ملین ڈالر کی مچھلی، گوشت اور سمندری غذاؤں کی درآمدات کیں۔

اسی طرح وہ چیزیں جن کی پیداوار بڑی آسانی سے پاکستان میں ممکن بنائی جا سکتی ہے مگر وہ بھی باہر سے منگوائی جارہی ہیں جیسا کہ گذشتہ برس 1.39 ملین ڈالر کی چھتریاں، چلنے کی لاٹھیاں اور سیٹ اسٹکس کی درآمد کی گئیں۔

اس کے علاوہ 607.38 ملین ڈالر کی پاکستان میں ربڑ کی درآمدات کی گئیں۔ یہاں تک کہ پاکستان بچوں کے پیمپر بھی چائنا سے اور جھاڑو انڈونیشیا سے درآمد کر رہا ہے۔ موبائل چارجر، کیبلز اور دیگر الیکٹرانک مصنوعات بھی بنانے سے ہم قاصر ہیں، جن پر معمولی حکومتی توجہ اور تربیت کے ساتھ گھریلو سطح پر چھوٹی چھوٹی فیکٹریوں لگا کر بھارت سالانہ اربوں ڈالر کمارہا ہے۔

بھارت کا 2025-26ء کا الیکٹرانک مینو فیکچرنگ صنعت میں منافع کا تخمینہ 300 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ اندازہ کیجیے کہ ہم صرف 3 ارب ڈالر سودی قرضہ ملنے پر خوشیاں منارہے ہیں، جب کہ صرف اپریل 2023 ء میں بھارت کی مجموعی برآمدات کا تخمینہ 65.02 ارب ڈالر تھا۔

وہ کھربوں روپے جو ہمارے سیاست داں، بیوروکریٹس اور جرنیل بیرون ممالک آف شور کمپنیاں بنانے اور جزیرے خرید نے پر صرف کرتے ہیں اگر اپنے ملک میں صرف الیکٹرانک مینوفیکچرنگ کی صنعت میں انوسٹ کریں تو پاکستان میں کروڑوں لوگوں کو روزگار بھی مل جائے، غربت اور معاشی بدحالی بھی ختم ہوجائے اور پاکستان سالانہ کئی بلین ڈالر زرمبادلہ کماکر ترقی کی راہ پر گام زن ہو جائے۔

لیکن جیسا کہ ہم نے عرض کیا پاکستان پر ناجائز قابض اشرافیہ جس طرح کالونیل دور میں عالمی سام راج کے دہرے استحصالی نظام کو کندھا دیے ہوئے تھی کہ ایک طرف عوام کو لوٹ کر بیرونی آقاؤں کو معاشی فوائد پہنچاتی تھی اور دوسری طرف بیرونی آقاؤں کی خوش نودی کے لیے ان کی مصنوعات اور تجارت کو عوام پر مسلط کرتی تھی، بالکل اسی طرح یہ اشرافیہ پوسٹ کالونیل دور میں بھی عالمی نظام، اس کے معاشی، سیاسی اور معاشرتی ایجنڈے کو کندھا فراہم کیے ہوئے ہے۔

لہٰذا جب تک اس اشرافیہ کی اصلیت عوام کے سامنے نہیں آجاتی اور عوام عالمی سام راج کی بالواسطہ غلامی کے اس طوق سے وطن کو آزاد نہیں کراتے اس وقت تک نہ تو پاکستان میں خوش حالی آئے گی اور نہ ہی پاکستانی قوم حقیقی معنوں میں سیاسی، معاشی اور معاشرتی سطح پر آزاد ہو سکے گی۔

The post پاکستان کی معاشی اور معاشرتی تباہی؛ ذمہ دار کون؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/cXV3nls
Previous Post Next Post

Contact Form