مادر پدر آزاد

ہم ہر سال اپنا یوم آزادی بڑے کروفر اور شان و شوکت کے ساتھ مناتے ہیں اور منانا بھی چاہیے کیوں کہ آزادی اللہ کی ایک ایسی نعمت ہے جس پر جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔

مگر ہم شکر ادا نہیں کرتے، محض خوشی مناتے ہیں اور خوشی منانے کے انداز بھی خوب ہیں۔ بچے جھنڈیوں سے اپنے گھروں اور درسگاہوں کو سجاتے ہیں، چھوٹے بڑے بیجز سینے پر سجاتے ہیں، قمقموں کا انتظام کرکے اپنے گھروں پر چراغاں کرتے ہیں، سرکاری عمارتوں پر سرکار دولت مدار کی طرف سے چراغاں کیا جاتا ہے  اور یوم آزادی ہمارے لیے ایک طرح عید  کا دن  ہوتا ہے۔

اس موقع پر نوجوانوں کا ایک طبقہ آتش بازی کا مظاہرہ بھی کرتا ہے اور 4 اگست کی رات کو بارہ بجتے ہی شہر پٹاخوں کی آوازوں سے گونجنے لگتا ہے۔پٹاخوں اور آتش گیر مادے کی خریداری کے لیے گھر گھر جا کر چندہ اکٹھا کیا جاتا ہے اور ہر گلی محلے کو خوشی کے روشن شادیانے بجانے کے لیے سجا اور سنوار دیا جاتا ہے۔چندہ جمع کرنے والے نوجوان بڑے ٹھسے سے کہتے ہیں ’’فائر ورکس‘‘ کے لیے چندہ دیجیے۔ یہ انگریزی الفاظ آتش بازی کے تباہ کن اثرات کی غمازی کرتے ہیں۔ بہرحال ہر سال اسی غرض سے چندہ بھی اکٹھا کیا جاتا ہے اور ’’فائر ورکس‘‘ کی نمائش بھی ہوتی ہے مگر یہ صرف فائر ورکس نہیں ہوتا فائرنگ ورکس بھی ہوتا ہے۔

آتش بازی کے لیے رنگ برنگی پھل جھڑیوں کے بجائے خوفناک بمباری کی آواز پیدا کرنے والے پٹاخے استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہ ایسا ہنگامہ بے ہنگام ہوتا ہے کہ اگر یہ 3، 4 منٹ سے زیادہ جاری رہے تو کانوں کے پردے ناکارہ ہو جائیں اور عقل و حواس گم ہو جائے۔ ان کرخت آوازوں کو خوشی اور مسرت کے جذبے سے کسی قسم کا تعلق ہو سکتا ہے، یہ محل نظر ہے مگر ہوتا یہ ہے کہ ہر محلے، گلی اور آبادی میں ان بے ہنگم اور تکلیف دہ پٹاخوں کی آوازوں میں ایک آواز فائرنگ کی بھی شامل ہو جاتی ہے۔

یہ فائر کوئی پستول سے نہیں کیے جاتے بلکہ اس کے لیے رائفل استعمال ہوتی ہے۔ بظاہر اس ’’ہوائی فائرنگ‘‘ کے نتیجے میں ہر سال درجنوں افراد زخمی ہوتے ہیں۔ چند اموات بھی ہو جاتی ہیں اور معاملہ چونکہ جشن آزادی کا ہوتا ہے اس لیے کسی کو اس کی پرواہ نہیں ہوتی کہ زخمی ہونے اور مرنے والوں کو کس خوشی میں غم سے ہم کنار کردیا گیا۔ عام طور پر حادثات کا ناگہانی شکار ہونے والوں کے لیے حکومت معاوضے کا اعلان کرتی ہے اور شاید ادا بھی کرتی ہوگی مگر یوم آزادی کے مرحومین و شہدا اس فیاضی سے بھی محروم رہتے ہیں۔

ہر سال اس دن کے آنے پر حکومت ہلکی آواز میں اعلان کر دیتی ہے کہ اس موقع پر فائرنگ منع ہے، مگر جب فائرنگ کی آواز سے محلے کے محلے لرز اٹھتے ہیں تو پولیس کے کار گزاروں کو فائرنگ کی آواز سنائی نہیں دیتی یا پھر وہ فائرنگ کی آواز کو شناخت نہیں کر پاتے ،حالانکہ اس آواز سے ان کی شناسائی ہر فرد سے زیادہ ہوتی ہے۔

14 اگست کو صبح اخبار سے معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ رات آزادی کی خوشی میں کتنے افراد زخمی ہو کر اسپتال میں داخل ہوئے اور کتنے ’’شہید آزادی‘‘ ہوئے۔اس سال اطلاعات کے مطابق 70 سے زیادہ افراد گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے۔ خیال رہے کہ یہ گولیاں نہ تو تاک کر ماری جا رہی تھیں، نہ مارنے والے کی نیت زخمی یا قتل کرنے کی ہوتی ہے۔ یہ تو نشانے کی غلطی، اسلحے کے بے محابہ اور اناڑی پن سے استعمال کا نتیجہ ہوتا ہے۔

اور یہ سب اس لیے ہوتا ہے کہ اس فائرنگ میں ناجائز اسلحہ بھی استعمال ہوتا ہے اور اسلحے کے استعمال کے آداب سے ناواقف لوگوں کی حوصلہ شکنی نہ ہونے اور ان کے خلاف محض آزادی کے ’’احترام‘‘ کے باعث درجنوں لوگ زخمی، ناکارہ اور بعض صورتوں میں موت سے ہم کنار ہو جاتے ہیں۔

ہم آزاد تو ہوگئے مگر آداب آزادی سے ناواقف محض ہیں اور جن کے ذمے آداب آموزی ہے وہ اس جھنجھٹ میں پڑنا ہی نہیں چاہتے۔ آزاد اقوام کی خصوصیات کیا ہوتی ہیں صدیوں کی غلامی نے ہمیں یہ احساس بھلا دیا ہے۔ ہمیں علم ہی نہیں کہ آزادی کی نعمت کی شکر گزاری رضائے خداوندی کے انداز میں کس طرح کی جاتی ہے ہم تو بس مادر پدر آزاد ہوگئے ہیں۔

The post مادر پدر آزاد appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/NMuQPv6
Previous Post Next Post

Contact Form