جمہوری خاندان اورآسان سیاست

یہ بلاول بھٹو زرداری شاہنوازی تو بڑا سمجھ دار بچہ نکلا ہم تو اسے یونہی بروا کے چکنے چکنے پات سمجھ رہے تھے لیکن وہ تو اندر سے بڑا ہوشیار نکلا، اسمبلی کی اپنی آخری تقریر میں تو اس نے کہا کہ نواز اور زرداری ایسے فیصلے کریں کہ میرے اور مریم کے لیے آگے جاکر سیاست کرنا آسان ہو، لیکن ایسا لگتا ہے کہ اگلے تیس سال بھی ایسا ہی چلے گا جیسے پچھلے تیس سال سے چلتا آرہاہے پھر اس نے ’’میثاق جمہوریت‘‘ کے بارے میں بھی بڑی دانشورانہ نکتے بیان کیے۔

باتیں چوںکہ سمجھ داری کی ہیں اورجب باتیں سمجھ داری کی ہوں تو ہماری سمجھ داری کاحال بھی ویسا ہی ہوجاتاہے جیسا کہ دلدل میں پھنسی ہوئی گاڑی کے ٹائروں کا ہوجاتاہے یعنی گھومتے تو بڑی تیزی سے ہیں لیکن ایک انچ بھی آگے نہیںبڑھتے۔

بلاول توخاندان جمہوریت کا سپوت ہے اور مچھلیوں یا بطخوں کے بچوں کو ’’تیرنا‘‘ کوئی نہیں سکھاتا ، پیدا ہوتے ہی تیرنے لگتے ہیں کہ ان کی پیدائش ہی پانی میں ہوتی ہے

کیوں نہ ڈوبے رہیں یہ دیدہ تر پانی میں

ہے بنا مثل حباب اپنا تو گھر پانی میں

ورنہ جس عمر میں بلاول وزیر خارجہ بنے، اس عمر میں تو بچوں کو گھر سے بھی باہرجاتے وقت نگران یا بڑے ساتھ کردیے جاتے ہیں۔ لیکن اس بات میں کسی تحریک انصاف والے کو بھی شک نہیں ہونا چاہیے کہ قومی اسمبلی میں اپنی اس آخری تقریر سے اس نے ثابت کردیاہے کہ ’’پرواز‘‘ کرنے کو وہ مکمل طور پر تیار ہیں لیکن بزرگوں کی رہنمائی چاہیے۔

زرداری صاحب تو یقیناً بلاول کو وہ سب کچھ سکھاچکے ہوں گے جو سکھانے کے لائق ہے اور جو سکھانے کے لائق نہیں ہے شاید وہ اس سے بھی پہلے سکھا چکے ہوں گے ، ادھر نوازشریف ’’مریم‘‘ کو بھی سکھائیں گے تو میثاق جمہوریت اپنے پیروں پر کھڑا ہوجائے گا اور قوم و ملک نہ صرف سرکے بل کھڑے ہوجائیں گے بلکہ چلنے بھی لگیں گے اورشاید پھردوڑنے بھی ۔

وہ بات جو سارے فسانے یعنی بلاول کی تقریر میں تھی ہی نہیں وہی بات ہمیں بہت خوشگوار گزری ہے اور وہ بات ہے کہ ہمارے یہ ’’جمہوری خاندان‘‘ ہمارے کتنے شبھ چنتک ہیں یہاں تک کہ ان خاندانوں کی خواتین اوربچے سب ہمارے ہی ’’غم‘‘ میں دبلے موٹے ہوتے رہتے ہیں اور ہم ناشکروں کو اس کا پتہ بھی نہیں ہے ،اب اس بلاول کو لے لیجیے ابھی اس کے کھانے کھیلنے بلکہ کودنے کے دن ہیں لیکن بیچارے کو ابھی سے قوم اورملک کی ’’چنتا‘‘ بے چین کیے ہوئے ہے نہ صرف گزشتہ تیس برس کے زیاں پر پریشان ہے بلکہ آیندہ تیس برسوں کے لیے بھی پریشان ہیں ۔

زرداری اورنواز شریف کو تو چھوڑئیے کہ وہ تو میثاق جمہوریت کے مطابق اس ملک پر نچھاور ہوچکے ہیں اوران کی دوسری نسل بھی قوم پر قربان ہونے کے لیے خود کو قربان کرنے کے ارادے باندھ چکی ہے ۔ ؎

ہیں کتنے اچھے لوگ کہ جنھیں اپنے غموں سے فرصت تھی

سب پوچھیں ہیں احوال جو کوئی درد کا مارا گزرا ہے

مطلب یہ کہ یہ لوگ ’’اپنے لیے‘‘ کچھ بھی نہیں سوچتے یاکرتے بلکہ جو کچھ بھی سوچتے یا کرتے ہیں ملک کے لیے کرتے اورسوچتے ہیں قوم کے لیے ۔بخدا ہم نے تو جب بلاول بھٹو زرداری شاہنوازی کی یہ درد بھری تقریرسنی تو عش عش کرنے لگے بلکہ اپنے آپ پر شرم آنے لگی کہ یہ بیچارے ہمارے لیے کتنا سوچتے ہیں ؟اورہم ان کے لیے ذرہ بھر بھی نہیں سوچتے۔

یہاں ہم نالائق ہیں کہ ہمارے لیڈر ہمارے لیے کیاکیا نہیں کر رہے ہیں ، بلاول جیسی چھوٹی عمر ہمارے لیے سوچنے لگتے ہیں اور ہم ٹس سے مس نہیں ہو رہے ہیں ، جب وہ ہمارے لیے اتنا سب کچھ کرتے ہیںکہ اتنا خدا کا دیا ہوا ہے ، سیاست سے ملاہوا اورعوام سے چھینا ہوا اتنا کچھ ان کے پاس موجود ہے لیکن اسے تیاگ کر ہمارے غم میں دن رات دبلے پتلے ہورہے ہیں اپنے اوپر سارا آرام حرام کرچکے ہیں اورہمارے غم میں جاگ رہے ہیں۔

تاکہ ہم آرام کی نیند سوئیں اور وہ ہماری غموں کی گٹھڑی لے جاکر کسی محفوظ جگہ پہنچائیں اورہم سے اتنا بھی نہیں ہوسکتا کہ ایک ووٹ سے ان کی مدد کریں۔ہم نے تو سوچ لیا ہے بلکہ پکاپکا فیصلہ کر لیاہے کہ اب جب بھی الیکشن کاسیزن آئے گا ہم اپنا ووٹ ان سب کو دیں گے کسی فرق اور امتیاز کے بغیر پرچی کے ہرخانے پر مہرلگائیں گے تاکہ وہ ہماری خدمت کافریضہ اچھی طرح اداکرسکیں ۔

جب کبھی ہماری سمجھ دانی کاپہیہ دلدل سے نکل کر چلنے لگتا ہے تو ہم اکثر اپنی اس خوش قسمتی پر دل ہی دل میں ناچنے لگتے ہیں کہ ہم پاکستانی کتنے خوش نصیب ہیں، دنیا کے اکثر ممالک کو بڑی محنت اورجتن سے کہیں ایک دو لیڈر مل جاتے ہیں جب کہ ہمیں خدا نے ایسا زرخیز ملک دیاہے جہاں کنکر اٹھاؤ تو اس کے نیچے بھی دوچار لیڈریاجمہوری خاندان نکل آتے ہیں جوہماری خدمت کو بے تاب اور بے چین ہوکر جلسے دھرنے کررہے ہوتے ہیں۔

جناب بلاول کی اس تقریر میں بڑی بات یہ کہی گئی ہے کہ بڑے ہم سے وہی سیاست کراناچاہتے ہیں جو تیس سال بھگتی، اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ہونے والی سیاست سے خوش نہیں ہیں اورکچھ نیاکرناچاہتے ہیں ، اس نے بزرگوں سے درخواست کی ہے کہ وہ کچھ ایسے فیصلے کریں جو میرے اور مریم نواز کے لیے سیاست آسان ہو ، بڑے یعنی ان کے سینئریقیناً ان کی بات مانیں گے اور ایسے فیصلے کریں گے جن سے ان دو نونہالوں کے لیے سیاست آسان ہو  اوراب ہم بھی اس آسان سیاست کے منتظرہیں۔

The post جمہوری خاندان اورآسان سیاست appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/x6XBCoR
Previous Post Next Post

Contact Form