بنیادی طور پر نگران حکومتوں کا کام بروقت منصفانہ اور شفاف انتخابات ، بلاتفریق سب کے لیے سازگار حالات کو پیدا کرنا اور قومی سطح پراپنی غیرجانبداری کو قائم کرنا ہوتا ہے ۔
یہ ہی سوچ قومی سطح پر انتخابات کی سیاسی ساکھ کو قائم کرنے میں بھی مدد فراہم کرتی ہے اور انتخابی عمل کو متنازعہ ہونے سے بھی بچاتی ہے ۔لیکن یہاں نگران حکومتوں کی تشکیل میں آئین اور قانون سے زیادہ سیاسی وابستگی یا ایک مخصوص سیاسی ایجنڈے کی بنیاد پر فیصلے کیے جاتے ہیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ انتخابات کی ساکھ کے ساتھ ساتھ یہاں نگرانوں کی ساکھ پر بھی ہمیشہ سے سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔
یہ جو ہمیں نگران وزیر اعظم کی تقرری میں دیکھنے کو ملا اس پر یہ ہی سوال اٹھتا ہے کہ ان کی تقرری کیسے ہوئی ، کیوں ہوئی اور کہاں یہ معاملات طے ہوئے ہیں ۔سابق وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کے بظاہر اتفاق کے عمل کے پیچھے سیاسی سمجھوتوں یا سیاسی بے بسی کے کھیل کو نمایاں طور پر دیکھا جاسکتا ہے ۔ایسے لگتا ہے کہ نگران وزیر اعظم کا فیصلہ حقیقی ’’ فیصلہ سازوں ‘‘ نے کیا ہے اور سیاسی قوتوں کی اس فیصلہ پر جیب خالی تھی۔
نگران وزیر اعظم کا تقرر عام انتخابات تک ہی محدود ہوتا ہے ، لیکن ایسے لگتا ہے کہ اس بار کھیل کے رولز میں کچھ بڑی تبدیلیاں کی گئی ہیں اور یہ نہ تو ایک روائتی نگران حکومت ہوگی اور نہ ہی اس کا مقصد محض 90 دن میں روائتی انداز میں انتخابات کے انعقادکو یقینی بنانا ہے۔
کچھ سیاسی پنڈتوں کے بقول انتخابات سے پہلے بہت کچھ ہونا ہے اور یہ عمل کسی ایک سیاسی فریق تک محدود نہیں ہوگا بلکہ اس عمل میں کچھ اور لوگ بھی نشانے پر آسکتے ہیں ۔یعنی انتخابات کا انعقاد اسی صورت میں ممکن ہوگا جب پہلے سے طے شدہ سیاسی ایجنڈا یا سیاسی نتائج یا سیاسی بندوبست ممکن ہوسکے گا۔
اس بات میں صداقت کتنی ہے اس کی ایک جھلک ہمیں کابینہ کے ناموں کی حتمی فہرست میں دیکھنے کو ملے گی جو ظاہر کرے گی کہ نگران واقعی بروقت انتخابات کا ایجنڈا رکھتے ہیں یا ان کے پیچھے کچھ اور سیاسی عزائم ہیں ۔جو کچھ ہم نے خیبر پختونخوا کی کابینہ میں سیاسی جماعتوں کے نامزد کردہ افراد کو دیکھا اور ان کے سیاسی عزائم دیکھے کیا ایسا ہی نقشہ وفاق میں دیکھنے کو ملے گا یا یہاں کچھ اور نئی شکلوں میں کچھ اور نیا سیاسی ایجنڈا غالب ہوگا۔
نگران حکومت کے تناظر میں سب سے بڑا چیلنج یہ ہی ہے کہ کیا نگران حکومت اپنے مقررہ وقت پر اول انتخابات کو یقینی بناسکے گی۔ دوئم ،کیا انتخابات منصفانہ اور شفافیت کی بنیاد پر ہونگے ۔ سوئم، کیا انتخابات کی سطح پر ہمیں منصفانہ اور شفاف لیول پلینگ فیلڈ دیکھنے کو مل سکے گی۔
چہارم، کیا ایک بڑی سیاسی جماعت کو بطور جماعت آزادانہ اور بغیر کسی خوف کے انتخابی مہم چلانے کی اجازت مل سکے گی۔پنجم ، کیا نگران حکومت کا کردار غیر جانبدارانہ ہوگا یا یہ وہی کچھ کرے گی جو ایک اسکرپٹ کے تحت دیے گئے کھیل کا حصہ ہوگا۔اگرچہ نگران حکومت کی تشکیل سے قبل نگران حکومت اور نگران وزیر اعظم کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا ہے جو یقینی طور پر پس پردہ سیاسی عزائم کے پہلو کو بھی نمایاں کرتا ہے کہ اس بار ان کے سامنے انتخابات سے قبل کچھ اور سیاسی اہداف بھی ہیں اور اس کھیل میں نگران حکومتیں بطور ہتھیار استعمال ہونگی ۔
اسی طرح یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی نگران حکومتوں کو برقرار رکھا جاتا ہے یا اس میں کچھ بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں کی جائیں گی ۔ کیونکہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی دونوں صوبائی نگران حکومتیں ایک مخصوص سیاسی ایجنڈا رکھتی ہیں جو ان کے عملی اقدامات میں دیکھے بھی جا سکتے ہیں ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیں وفاقی یا صوبائی دونوں سطحوں پر نگرانوں کی تشکیل کے معاملات میں آئین اور قانون کے مقابلے میں سیاسی ایجنڈا زیادہ غالب نظر آیا اور کہیں یہ محسوس نہیں ہوا کہ ریاستی نظام میںاصل ترجیح شفاف اور منصفانہ انتخابات ہیں ۔
نگرانوں کی تشکیل کا عمل غیر شفاف ہے اور اس کو اب ہر صورت میں ایک مضبوط سطح کی مشاورت کی بنیاد پر تبدیل ہونا چاہیے ۔ کیونکہ سیاسی جماعتیں حکومت میں ہوں یا حزب اختلاف میں یا طاقت کے مراکز نگرانوں کی مدد سے اپنی مرضی کے مطابق نتائج چاہتے ہیں ، جو سارے انتخابی عمل کو متنازعہ بناتا ہے ، یہ تبدیلی کا تقاضہ کرتا ہے تاکہ انتخابی نظام کو ہر سطح پر شفاف بنایا جاسکے ۔
اب اگر نگران حکومت نے آئین میں دیے گئے مقررہ وقت یعنی 90دن میں انتخابات کو یقینی نہیں بنانا اور انتخابات میں تاخیر کے لیے تمام حربے اختیار کرنے ہیں اور انتخابات کے مقابلے میں کچھ اور سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانا ہے تو پھر اس نگران حکومت کی ابتدا ہی آئین سے انحراف سے ہو گی۔
مشترکہ مفادات کونسل کی مدد سے پہلے ہی نئی مردم شماری کے نتائج کی بنیاد پر انتخابات کا فیصلہ کرکے انتخابی عمل کو تین سے چھ ماہ تک آگے بڑھانے کا عندیہ یا فیصلے نے بروقت انتخابات کی منزل کو اور زیادہ دور کردیا ہے ۔اگرچہ نگران وزیر اعظم پر تمام قوتوں نے اپنے تحفظات کے باوجود ان کی قبولیت کو تسلیم کرلیا ہے ۔لیکن یہ ابتدائی فیصلہ ہے اور دیکھنا ہوگا کہ جیسے جیسے وقت گزرے گا اور نگرانوں کے فیصلے سامنے آئیں گے تو اس کے نتیجے میں سیاسی قوتوں میں ان کی کیا ساکھ قائم ہوتی ہے ۔
کیا وہ واقعی اپنی غیر جانبداری ثابت کرسکیں گے اور کیا خود کو کسی اور بڑے کے مقابلے میں بااختیار نگران وزیر اعظم ثابت ہونگے یا ان کے فیصلے بھی کہیں اور سے ہونگے اور ان کی حیثیت بھی ایک کمزور نگران وزیر اعظم کی ہوگی ۔اہم پہلو اس سیاسی تناؤ اور بالخصوص پی ٹی آئی کے بارے میں پہلے سے موجود پالیسی کی بنیاد پر کیا وہ سب فریقوں کو ساتھ لے کر چل سکیں گے ۔
یہ جو انتخابات سے پہلے ہی انتخابات پر ابہام ، شکوک وشبہات سمیت انتخابی عمل کی ساکھ پر متنازعہ عمل سامنے آرہا ہے یا یہ کہنا کہ ابتدا ہی میں سیاسی انجینئرنگ نمایاں ہے اس کو کیسے کم کیا جاسکے گا ؟کیونکہ اگر نگران بھی پہلے سے جاری سیاسی پالیسی کو نہ صرف برقرار رکھیں گے بلکہ ہمیں اس میں اور زیادہ شدت نظر آئے گی تو حالات میں بہتری کم اور بگاڑ زیادہ نمایاں ہوگا۔
کیونکہ اگر نگرانوں نے بھی سیاسی فیصلوں کے بجائے غیر سیاسی فیصلوں ، انتظامی اور قانونی بنیاد پر کسی کو سیاسی میدان میں رکھنے یا نہ رکھنے کی پالیسی اختیار کی تو اس سے ٹکراو بھی ہوگا اور ان کی غیر جانبداری پر بھی سوالات اٹھائے جائیں گے۔اگرچہ منطق دی جارہی ہے کہ نگرانوں کی ترجیح معیشت ہوگی اور تمام فیصلے اسی بنیاد پرہونگے ۔
اصل مسئلہ نگرانوں کا یہ بھی ہے کہ آئین کے مطابق سیاسی نظام کو ٹریک پر لاکر مہم جوئی یا سیاسی ایڈونچرز کے کھیل سے گریز کیا جائے ۔کیونکہ انتخابات میں تاخیر پہلے سے موجود مسائل میں مزید شدت پیدا کرکے مزید نئے مسائل کو جنم دے گی ۔نگرانوں کی ذمے داری جہاں معاشی معاملات کو درست کرنا یا شفاف انتخابات کو یقینی بنانا ہے وہیں۔
ان پر یہ ذمے داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ سیاست میں موجود کشیدگی ، تناو اور ٹکراو سمیت عدم اعتماد کی پالیسی میں کمی کریں ۔اگر ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ سیاسی تناؤ اور سیاسی دشمنی کی بنیاد پر اختیار کی گئی پالیسی سیاسی و معاشی استحکام کو ممکن بناسکے گی تو یہ ممکن نہیں۔ اگر انتخابات کا عمل شفاف نہیں ہوتا تو پھر نگرانوں کی ساکھ پر بھی سوالات اٹھیں گے کہ نگران بھی شفافیت کے لیے نہیں بلکہ پہلے سے طے شدہ ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے لائے گئے تھے ۔
The post نگران حکومت اور شفافیت کا بحران appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/Qr2PDf6