پاکستان اور اقلیتیں

نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ سانحہ جڑانوالہ انتہائی افسوسناک ہے لیکن اس واقعہ کے ذمے داران کو آئین و قانون کے مطابق انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے، وہ جڑانوالہ آمد کے موقع پر سانحہ کے پچیس متاثرین میں، بیس، بیس لاکھ روپے مالیت کے چیک تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب کررہے تھے۔

پاکستان کا آئین تمام اقلیتوں کی جان و مال، ان کے عقائد اوران عبادت گاہوں کو مکمل تحفظ دینے کا ضامن ہے، اس کے باوجود ریاستی مشینری اقلیتوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوپارہی۔ کہیں نہ کہیں نظام میں کمزور ی ضرور ہے، جس کی وجہ سے شرپسند منہ زور اور ریاست کمزور نظر آتی ہے۔

پاکستان میں مسیحی، ہندو، سکھ، پارسی اور بدھ مت پیروکار رہتے ہیں۔ گو پاکستان میں ان کی تعداد ایک فیصد کے قریب ہے لیکن وہ پاکستانی ہیں اور انھیں پاکستان میں تمام شہری حقوق یکساں طور پر حاصل ہیں۔ پاکستان کے عوام میں مذہبی ہم آہنگی اور بھائی چارے کی فضا ہے لیکن گزشتہ 30 سال سے انتہاپسند اور مخصوص فکر کے لوگ سیاست اور ریاستی نظام میں غالب ہوئے ہیں۔

سرد جنگ کی وجہ سے مخصوص مائنڈ سیٹ کو جڑیں پکڑنے کا موقع ملا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ طاقتور سے طاقتور ہوتا چلا گیا ہے۔

اس مخصوص مائنڈ سیٹ نے اتنی طاقت پکڑی کہ وہ آئینی اور قانونی معاملات میں بھی حاوی ہونے لگا‘ ریاستی مشینری نے آئین اور قانون کے مطابق عمل کرنا ہوتا ہے۔ جب قوانین مخصوص مائنڈ سیٹ کو تحفظ دیں گے تو پھراس مائنڈ سیٹ کے خلاف ریاستی مشینری کوئی سخت ایکشن کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہتی۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں مذہبی انتہا پسندی میں اضافہ ہوا، فرقہ واریت گہری ہوئی اور غیرمسلم اقلیتوں کے خلاف پرتشدد واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

بانی پاکستان نے 11 اگست کو تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’آپ آزاد ہیں، آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے۔ آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا نسل سے ہو، ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔‘‘

تاریخ کے اوراق پلٹیں تو پہلی بار 1931 میں دوسری گول میز کانفرنس کے دوران اقلیتوں کے مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے بشمول ہندوستان کے مسیحیوں نے سر آغا خان کی قیادت میں ایک معاہدہ کیا تھا جو تاریخ پاک و ہند میں ’’اقلیتوں کا معاہدہ‘‘ کہلاتا ہے۔ اس معاہدے کو تحریک آزادی کے دوران اقلیتوں کی مشترکہ عملی جدوجہد بھی قرار دیا جاتا ہے۔

22 دسمبر 1939 کو قائداعظم کی کال پر مسلمان نمایندوں نے کانگریسی وزارتوں سے استعفے دیے اور ’’یوم نجات‘‘ منایا گیا تو کانگریس یہ دیکھ کر حیران ہوگئی کہ ’’یوم نجات‘‘ میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ پارسی، مسیحیوں اور لاکھوں کی تعداد میں شیڈول کاسٹ بھی شریک ہوئے۔

ہندوستانی مسیحی واحد اقلیت تھی، جو تمام کی تمام مسلم لیگ اور قائداعظم کا ساتھ دے رہی تھی اور قیام پاکستان کی حامی رہی۔ 23 مارچ 1940کو جب منٹو پارک لاہور میں تاریخی قراردادِ پاکستان منظور ہوئی تو اس جلسے میں پورے ہندوستان سے ہزاروں عیسائی شریک ہوئے تھے۔

مسیحی برادری اس بات پر یقین رکھتی تھی کہ قائداعظم سچ کے علمبردار ہیں۔مسیحی رہنماؤں نے لاہور میں قائداعظم کو استقبالیہ دیا تھا اور انھیں مسیحی برادری کی مکمل حمایت کا یقین دلایا۔ قائداعظم نے فرمایا کہ پاکستان ایک عوامی، اصلاحی، جمہوری اسلامی ریاست ہوگی۔

1946 میں جب جسٹس دین محمد کی سربراہی میں باؤنڈری کمیشن بنایا گیا تو مسیحی رہنماؤں نے باؤنڈری کمیشن سے کہا کہ ہماری گنتی مسلمانوں کے ساتھ کی جائے۔

اس مطالبے کے بعد نہرو اور پٹیل نے مسیحی لیڈروں کو قائل کرنے کے لیے پورا زور لگایا اور یہ لالچ بھی دیا کہ اگر آپ پاکستان کے بجائے بھارت کے حق میں ووٹ دیں تو عیسائیوں کے لیے کچھ اہم وزارتیں ہمیشہ کے لیے مخصوص کردی جائیں گی لیکن ان رہنماؤں نے یہ پیشکش مسترد کردی۔

دیوان ایس پی سنگھا نے 21 جون 1947کو شملہ پہاڑی لاہور کے نزدیک اپنی رہائش گاہ پر قائداعظم کے اعزاز میں ایک دعوت کا اہتمام کیا۔ اس دعوت میں محترمہ فاطمہ جناح اورسردار عبدالرب نشتر بھی شریک ہوئے تھے۔

اس موقع پر ایس پی سنگھا نے قائداعظم کو یقین دلایا کہ ہم کبھی آپ کی حمایت سے قدم پیچھے نہیں ہٹائیں گے۔ کانگریس اور انگریز کی سازش تھی کہ پورا پنجاب بھارت کا حصہ بن جائے۔ اس سازش کے تحت پنجاب اسمبلی میں ووٹنگ کرائی گئی تو تمام عیسائی ارکان نے مسلم لیگ کے حق میں ووٹ ڈالے۔ حمایت اور مخالفت میں آنے والے ووٹ برابر نکلے تو دیوان بہادر سنگھا نے جو اس وقت اسمبلی کے اسپیکر تھے، اپنا کاسٹنگ ووٹ مسلم لیگ کے حق میں ڈال کر انگریز حکومت اورکانگریس کی سازش ناکام بنادی۔

آج بھی ملک میں تمام سرکاری اداروں بشمول فورسز، پولیس، ریلوے اور سب سے زیادہ میڈیکل میں مسیحیوں شہریوںکی کثیر تعداد کام کر کے ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے لیے مستقل کے بجائے وقتی اقدامات اٹھائے جاتے ہیں، جن کا مقصد محض وقتی طور پر ملک کا امیج بہترکرنا ہوتا ہے نہ کہ مستقل طور پر اقلیتوں کو حقوق دلوانا۔

اقلیتوں کے مسائل کا حل بیان بازی سے نہیں نکلے گا کیونکہ کسی بھی مذمتی بیان کی کوئی آئینی اور قانونی اہمیت نہیں ہوتی۔ یہ زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں ہوتے۔ اصل مسئلہ ریاست کے اقتدار اعلیٰ اور حکومت کی رٹ قائم کرنے کا ہے۔

جہاں کہیں بھی یہ دونوں لوازمات کم ہوں گے ‘ شرپسندوں کو آزادی ملے گی۔ جدید دور کی ریاستوں میں اقلیتوں کا تصور وہ نہیں ہے جو پاکستان میں رائج کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ پاکستان میں بسنے والی ہر قومیت بلالحاظ مذہب ‘مسلک ‘زبان اور تعداد کے برابر کی شہری ہے اور اسے یکساں حقوق حاصل ہوتے ہیں ۔

برطانیہ کی مثال سب کے سامنے ہے۔برطانیہ میں آئینی اور قانونی طور پر ہر برطانوی شہری یکساں حقوق کا مالک ہے۔ قانون میں کسی مذہب یا نسل کے لیے کسی قسم کی الگ شناخت ہے اور نہ ہی کوئی خصوصی حیثیت ہے۔

یہی وجہ ہے کہ برطانیہ میں رشی سونک وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہیں۔اس سے قبل وزیراعظم ترک النسل تھا ‘برطانیہ کے دارالحکومت لندن کا میئر مسلمان ہے۔ کینیڈا کا نائب وزیراعظم سکھ ہے۔ یہ سب اس لیے ممکن ہوا ہے کہ ان ممالک میں آئین اور قانون بالکل واضح اور دو ٹوک ہے۔ آئین اور قانون میں کسی قسم کا ابہام ہے اور نہ ہی ذومعنیت رکھی گئی ہے۔

پاکستان میں انتہا پسندی کے فروغ کی وجوہات اب ڈھکی چھپی نہیں ہیں‘ اصل مسئلہ یہی ہے کہ ان وجوہات کو دور کیسے کیا جائے ۔ملک کی سیاسی قیادت نظریاتی طور پر قلاش ہے ان کے پاس ملک کو چلانے کے لیے کوئی ریشنل سیاسی نظریہ نہیں ہے۔

سیاسی قیادت نے اپنی پارٹی کے کارکنوں کی سیاسی تربیت ہی نہیں کی ہے اور نہ ہی قیادت خوداتنی اہل ہے کہ وہ قوانین کے اندر موجود مقاصد کو سمجھ سکیں‘ملک کے نظام کو جدید خطوط پراستوار کرنے کے لیے پارلیمنٹیرینز نے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ اب تک آئین میںجتنی بھی ترامیم کی گئی ہیں‘ ان سب کا مقصد ریاستی نظام کو طاقتور طبقے کے کنٹرول میں لانا ہے۔

پارلیمانی جمہوری نظام میں سیاسی جماعتوں کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے کیونکہ پارلیمنٹ سیاسی جماعتوں کے ارکان پر ہی مشتمل ہوتی ہے۔ ان کا تعلق خواہ حزب اقتدار سے ہو یا حزب اختلاف سے۔لیکن پاکستان میں سب سے زیادہ کمزور کردار سیاسی جماعتوں کی قیادت اور پارلیمنٹیرینز کا ہے۔ پارلیمنٹیرینز کی بھاری اکثریت کسی مسودہ قانون کو پڑھتی ہے اور نہ ہی اس پر بحث کرنے کے قابل ہے۔

قانون دانوں کی ایک کمیٹی ڈرافٹ تیار کرتی ہے جسے پارلیمنٹ منظور یا مسترد کر دیتی ہے۔ جب تک پارلیمنٹیرینز اپنی جمہوری اہمیت کو نہیں سمجھیں گے ملک میں نہ تو آئین کی سمت درست ہو سکتی ہے اور نہ ہی قانون درست رہ سکتا ہے۔

پاکستان میں سرد جنگ کی وجہ سے کند ذہن اشرافیہ کو پروان چڑھایا گیا ‘ یونیورسٹیوں اور کالجز کو روشن خیالی اور جدیدیت کے بجائے رجعت پسندی کے سپرد کر دیا گیا۔نصاب تعلیم جدید رہا نہ طالب علم جدید بن سکے۔ ایسی صورت میں ریاستی آئین اور مشینری کی سمت کیسے درست ہو سکتی ہے۔

The post پاکستان اور اقلیتیں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/C5lh2rd
Previous Post Next Post

Contact Form