صرف عوام ہی کیوں قربانی دیں؟

عالمی مالیاتی ادارے کی شرائط کو مدنظر رکھتے ہوئے بجلی کی قیمت میں 7 روپے 50 پیسے فی یونٹ تک اضافے کی کابینہ نے منظوری دیدی، یوں بجلی صارفین پر 3 ہزار 495 ارب کا بوجھ پڑے گا۔

آئی ایم ایف کے احکامات پر ہر قسم کے ٹیکسوں اور مہنگائی کو بالواسطہ انداز میں ایک دفعہ پھر بجلی کے بلوں کے ذریعے عوام پر مسلط کر دیا گیا ہے۔ بجلی کے بِلوں نے اس ملک کے کروڑوں صارفین کی چیخیں نکلوا دی ہیں جس میں حکمرانوں نے بے تحاشہ اضافہ کیا ہے۔

لاکھوں افراد اب بجلی کے بغیر زندگی گزارنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں کیونکہ بجلی جیسی بنیادی ضرورت بھی اب ان کے لیے ایک عیاشی بن چکی ہے۔ دوسری جانب مہنگائی کے اثرات اشیائے خورونوش سمیت ہر شے پر مرتب ہو رہے ہیں۔

آئی ایم ایف سے تین ارب ڈالر کے قرضے کی یقین دہانی کے بعد داد و تحسین کی صدائیں تھم کر نہیں دے رہیں۔ بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے سارے مسائل حل ہونے کو ہیں اور دودھ و شہد کی نہریں بہنے میں کچھ ہی دیر ہے۔ اس کے برعکس اس معاہدہ پر عملدرآمد کی صورت میں جو اقدامات ہوں گے، ان کا بوجھ بہر طور عام آدمی پر ہی پڑے گا۔

یہ بات دلچسپ ہے کہ تمام حکمرانوں کی جانب سے آئی ایم ایف کے پیریاڈک ٹیبل کی فرہنگ میں اپنی اپنی حاضری یقینی بنائی گئی۔ گویا آئی ایم ایف کے ساتھ ہمارے تعلقات کی آبیاری تازہ نہیں ہے بلکہ یہ تعلق دہائیوں سے مربوط ہے۔ انیس سو اٹھاون سے لمحہ موجود تک قرض تو ہم لے رہے ہیں مگر غریب عوام کی بہتری کی ذمے داری آئی ایم ایف پر لاگو ہے۔

جب ملکی درآمدات، برآمدات سے زائد ہوں جیسے موجودہ وقت میں پاکستان کی صورتحال ہے، تو اس وقت ملک کو بیلنس آف پیمنٹ یعنی ادائیگیوں کے توازن کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا کوئی آپشن نہیں رہتا۔ پہلے دوست ممالک بھی مشکل وقت کچھ نرم شرائط کے عوض پاکستان کو قرض ادا کرتے تھے مگر اب حالت یہ آن پہنچی کہ دوست ممالک نے بھی قرض کی ادائیگی آئی ایم ایف پروگرام سے مشروط کر دی ہے۔

جب مہنگائی کا الزام، گیس اور تیل کی قیمتوں میں اضافے کی ذمے داری حکمران اور عوام آئی ایم ایف کے کھاتے میں ڈالتے ہیں تو ہم یہ بات بھول جاتے ہیں کہ گیس اور تیل کی قیمتوں کا تعین ’’ اوگرا ‘‘ کرتا ہے آئی ایم ایف نہیں۔ملک کے معاشی بحران کا سب سے زیادہ ذمے دار طبقہ طاقتور اشرافیہ کا ہے جس نے غلط پالیسیاں بنا کر، کرپشن کرکے، ناجائز مراعات حاصل کر کے اور قرضے معاف کروا کر ملک کو بحران سے دوچار کیا اور پھر آئی ایم ایف کا بہانہ کر کے مشکل فیصلوں کا سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا ہے۔

آج بھی بجٹ خسارہ درست کرنے کے لیے شاہانہ حکومتی اخراجات کم کرنے، کابینہ کا سائز چھوٹا کرنے اور کرپشن کے خاتمے کے لیے مؤثر اقدامات کرنے کی بجائے سارا بوجھ غریب عوام پر ڈال دیا گیا ہے۔ اشرافیہ کا یہ مافیا ٹیکس ایمنسٹی کے نام پر ٹیکس چوری کی بھی حوصلہ افزائی کرتا ہے، ڈالر کی اسمگلنگ پر آنکھیں بند کرلیتا ہے۔

پاکستان کی بہترین بائیس فی صد زرعی زمین اس وقت ایک فی صد اشرافیہ کے پاس ہے جو کہ اس سے نو سو پچاس ارب روپے سالانہ کما کر صرف تین ارب روپے کا ٹیکس ادا کرتی ہے۔ دوسری طرف گھی، چائے اور ڈرنکس سمیت کھانے پینے کی چیزوں پر ٹیکس لگا کر غریب لوگوں سے چار سو پچاس ارب روپے لے لیے جاتے ہیں۔

ملک کا موجودہ اقتصادی بحران ملکی تاریخ کا سب سے بڑا پریشان کن اور مشکل بحران ہے۔ کووڈ کی وبا، تاریخ کے بد ترین سیلاب، عالمی کساد بازاری اور روس، یوکرین کی جنگ سے پیدا ہونے والے حالات نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔

صرف آٹھ سال کے قلیل عرصے میں ملکی قرضے دگنا ہوگئے ہیں۔ پاکستان پر ایک سو چھبیس ارب ڈالر کے قرضے واجب الادا ہیں، یہ بحران حکومتوں کا پیدا کردہ ہے۔ ہر سال قرض کی ادائیگی کے لیے تیرہ ارب ڈالر درکار ہیں اور ملک کو ضروری امپورٹس کے لیے ہر ماہ پانچ چھ ارب ڈالر درکار ہیں۔

ملک کی بیوروکریسی نے بھی ملک کے اقتصادی بحران کی سنگینی میں اضافہ کیا ہے۔ ان کی اقتصادی پالیسیوں کی تشکیل اور اقتصادی پالیسیوں کے نفاذ میں ناکامی نے بھی ملک کے معاشی بحران کو بڑھاوا دیا ہے۔ قرضوں، تجارتی خسارے اور افراط زر کے اردگرد مرکوز رکاوٹوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں ادائیگیوں کے توازن کا جو بحران دکھائی دے رہا ہے وہ دراصل حکمرانی کا بحران ہے۔

یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتیں ہنرمند، صحت مند اور تعلیم یافتہ افرادی قوت تیار کرنے میں درکار سرمایہ کاری کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اس کے بجائے انھوں نے طاقتور گروہوں کی حمایت جاری رکھی، اپنے ذاتی مفادات کو تقویت دی۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں اشرافیہ کو دی جانے والی مراعات ان سب سے بڑی رکاوٹوں میں سے ایک ہے۔ جن کی وجہ سے عوام کو حقیقی ریلیف ملنا ممکن ہی نہیں۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی، این ایچ ڈی آر، جی ڈی پی کا تقریبا 6 فیصد حصہ اشرافیہ کو دی جانے والی مراعات پر صرف ہوتا ہے۔

یہ رقم ساڑھے سترہ ارب ڈالرز کے لگ بھگ بنتی ہے، اس جائزے میں جن تین گروہوں کو سب سے زیادہ مراعات حاصل کرنے والا بتایا گیا وہ بالترتیب کاروباری طبقہ، ایک فیصد امیر ترین افراد اور جاگیردار ہیں۔ کاروباری طبقے کی طرف سے لی جانے والی مراعات کا حجم اس رپورٹ کے مطابق، تقریباً پونے پانچ ارب ڈالرز ہے۔

رپورٹ بتاتی ہے کہ ایک فیصد امیر ترین لوگ ملک کی مجموعی آمدنی کے نو فیصد کے مالک ہیں جب کہ جاگیردار جو ملک کی آبادی کا ایک اعشاریہ ایک فیصد ہیں، بائیس فیصد قابلِ کاشت رقبے کے مالک ہیں۔

اس رپورٹ کے مندرجات سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کے اندر واضح طور پر دو ریاستیں موجود ہیں ایک متوسط، غریب اور پس ماندہ طبقات پر مشتمل اور دوسری وہ جس کا نہ صرف وسائل پر قبضہ ہے بلکہ اقتدار و اختیار کی مختلف شکلیں بھی اسی کے زیرِ اثر ہیں اسی لیے کوئی چاہ کر بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔

این ایچ ڈی آر میں دولت اور وسائل کی جس غیر منصفانہ تقسیم سے متعلق حقائق سامنے لائے گئے ہیں اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں بیس فیصد امیر لوگ ملک کی تقریبا نصف آمدنی کے حامل ہیں اور ان کے مقابلے میں بیس فیصد غریب لوگ مجموعی آمدنی میں صرف سات فیصد حصہ رکھتے ہیں۔

اشرافیہ بلا ٹیکس مراعات، فوائد، محل نما رہائش گاہوں، مفت سہولیات، ملازمین کی فوج ظفرموج سے لطف اندوز ہوتی ہے اور اہم علاقوں میں مہنگے پلاٹ بھی مفت یا رعایتی نرخوں پر حاصل کرتی ہے۔ ملک آئی ایم ایف کے قرضوں پر زندہ ہے جس کی وجہ امرا پر ٹیکس عائد کرنے میں مسلسل ناکامی اور بے تحاشا اخراجات جو اب جی ڈی پی کا تقریبا 25 فیصد ہیں، میں کمی نہ کرنا ہے۔

ہمارے ملک کی 65 فیصد آبادی کا انحصار زراعت پر ہے۔ اسی لیے کسان کو کھاد، بیج زرعی ادویات اور مشینری آسان اقساط پر فراہم کی جائے۔ بجلی ڈیزل اور پانی کم سے کم ریٹ پر فراہم کیا جائے۔ اس کے ساتھ فصل کی نقد اور مناسب ترین سرکاری ریٹ پر خریداری کو یقینی بنایا جائے تاکہ مڈل مین کا کردار ختم ہو، اگر حکومت واقعی غریب اور متوسط طبقے کو ریلیف دینا چاہتی ہے تو اسے ان تجاویز پر غور کرنا چاہیے کیونکہ اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ یہی رہا ہے کہ یہاں طبقہ اشرافیہ مراعات یافتہ ہے اور قربانی غریب عوام سے لی جاتی ہے، اب یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔

موجودہ بحرانوں کا تریاق سب کو معلوم ہے، ٹیکس کے نظام کو بہتر بنانا اور اسے وسعت دینا، ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو متحرک کرنا جو کہ جی ڈی پی کے 15 فیصد حصے سے بھی کم ہو چکی ہے اور توانائی کے شعبے کو ٹھیک کرنا جو گردشی قرضوں میں اضافے کی بڑی وجہ ہے۔ پاکستان کو خسارے میں چلنے والے حکومتی اداروں کی نجکاری پر توجہ دینا ہو گی جن کی وجہ سے ہر سال 1 ہزار ارب روپے سے زیادہ کا خسارہ جھیلنا پڑتا ہے۔

مراعات یافتہ طبقے پر نوازشات کی بارش برسانے کے بجائے غریب عوام کے مسائل پر توجہ دی جائے۔ یہ کتنے دکھ کی بات ہے ملک میں نان اور روٹی سمیت دیگر اشیا خوردونوش کے نرخ آسمان سے باتیں کررہے ہیں مگر ارکان پارلیمنٹ جو کروڑوں اربوں کے اثاثوں کے مالک ہیں ان کے لیے کھانا کم نرخوں پر دستیاب ہے۔

کم آمدن والے ملازمین کو وہ سہولتیں حاصل نہیں جو محکموں کے سربراہان کو حاصل ہیں۔ یہ صورت حال اسلام کے احکامات اور تعلیمات سے متصادم ہے۔ یہ طبقاتی تفاوت ملک اور قوم کے لیے تباہ کن ہے جو کہ ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کررہی ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ آئی ایم ایف کا انتظام عبوری ہے یہ 9ماہ کی مدت کے لیے ہے، اس میں تین ماہ نگران حکومت کے بھی شامل ہیں۔ نومبر میں اگر انتخابات ہوتے ہیں جو کہ اصولا ہونے چاہئیں تو ان کے نتیجے میں بننے والی حکومت کو کسی تاخیر کے بغیر آئی ایم ایف سے رجوع کرنا ہوگا۔

اس طور یہ سوال حقیقت پر مبنی ہے کہ حکمران اتحاد نومبر کے عام انتخابات میں اپنی معاشی پالیسی کے بوجھ سے متاثر رائے دہندگان سے کہے گا کیا اور اس کے پاس انھیں دینے کے لیے ہوگا کیا؟ امید واثق ہے کہ ان سوالات پر غور ہی نہیں کیا جائے گا بلکہ عوام کو جواب سے بھی آگاہ کیا جائے گا۔

The post صرف عوام ہی کیوں قربانی دیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/UhK0Bmj
Previous Post Next Post

Contact Form