مصنوعی ذہانت کے پروگرام اور طلبا

سائنس اور ٹیکنالوجی کی برق رفتار ترقی نے ہماری آنکھوں کے سامنے کئی انقلاب برپا کیے ہیں۔ راقم الحروف نے ساری زندگی سرکاری اسکولوں، کالجوں اور جامعات سے تعلیم حاصل کی۔ چھٹی جماعت میں قدم رکھنے کے بعد انگریزی مضمون سے پہلی بار پالا پڑا اور اے بی سی سیکھنا جوئے شِیر لانے کے مترادف جانا۔ آٹھویں جماعت میں جا کر خدا خدا کرکے ٹاٹ سے جان چُھوٹی اور بینچوں پر بیٹھ کر افسر کا سا گماں ہونے لگا۔

نویں جماعت میں پہنچ کر ایک استادِ محترم کے ہاتھوں میں ایک چھوٹی سی مشین دیکھی، جس کے بارے میں انکشاف ہوا کہ وہ حساب کتاب کرتی ہے۔ کسی نے یہاں تک بھی مژدہ سنایا کہ اب پہاڑے یاد کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ کئی روز کی جاں فشاں ریاضت کے بعد اُس کا نام ’کیلکولیٹر‘ ازبر ہوگیا اور ہماری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اب زندگی کا سب سے بڑا خواب کیلکولیٹر خریدنا تھا جو کہ گیارہویں جماعت میں جاکر شرمندۂ تعبیر ہوا۔ تفریح کا واحد ذریعہ ریڈیو ہوا کرتا تھا۔ اس کے بعد ٹی وی، وی سی آر، کیمرہ، کمپیوٹر، انٹرنیٹ، موبائل فونز، اسمارٹ گھڑیاں، سوشل میڈیا وغیرہ سے واسطہ پڑا۔

حال ہی میں مصنوعی ذہانت کے پروگرام، مثلاً چیٹ جی پی ٹی کے ظہور نے ٹیکنالوجی کے ساتھ ہمارے تعامل کے طریقے میں انقلاب برپا کردیا ہے۔ یہ پروگرام طاقتور قدرتی لسانی حساب کتاب کے عمل کا استعمال کرتے ہوئے انسانوں کی طرح سوچنے اور سیکھنے کی صلاحیت فراہم کرتے ہیں۔ نیز تحریری مواد پیدا کرتے اور مختلف حلقۂ اثر میں بہتر مواصلات اور مدد کو فعال کرتے ہیں۔ یہ مشینوں کے ذریعے انسانی ذہانت (مصنوعی ذہانت) کے مماثل نقالی پر مبنی ہے، جس کےلیے ہم عام طور پر انسانوں پر انحصار کرتے ہیں۔ اگرچہ وہ کارکردگی اور رسائی کے لحاظ سے بہت سے فوائد پیش کرتے ہیں، یہ ضروری ہے کہ طلبا کے ذہنوں اور طویل مدت میں تعلیمی کارکردگی پر ان کے ممکنہ اثرات کا جائزہ لیا جائے۔

مصنوعی ذہانت کے استعمال کے مثبت اثرات

بہتر طریقے سے سیکھنے کا تجربہ

مصنوعی ذہانت کے پروگرام طلبا کو ذاتی نوعیت کے اور فعال انداز میں سیکھنے کے تجربات فراہم کرسکتے ہیں۔ وہ معلومات کے حصول، تصورات کی وضاحت اور مثالوں کی فراہمی میں مدد کرسکتے ہیں، جس سے مضامین کی گہری تفہیم ممکن ہے۔ مثال کے طور پر طلبا ان پروگراموں کو سوال پوچھنے، وضاحت طلب کرنے یا اپنے علم کو بڑھانے کےلیے اضافی وسائل کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں۔

کارکردگی میں اضافہ

مصنوعی ذہانت کے پروگرام وسیع پیمانے پر معلومات تک فوری رسائی فراہم کرتے ہیں جس سے طلبا کو وقت اور محنت بچانے میں مدد ملتی ہے۔ وہ مختلف ذرائع جیسے نصابی کتب، تحقیقی مقالے اور آن لائن ڈیٹا بیس سے متعلقہ مواد کو انتہائی تیزی سے بازیافت کرسکتے ہیں۔ یہ کارکردگی طلبا کو معلومات جمع کرنے پر ضرورت سے زیادہ وقت گزارنے کے بجائے ناقدانہ مہارتوں اور تنقیدی تجزیہ پر توجہ مرکوز کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔

زبان اور اظہارِ خیال سے متعلقہ مہارتوں کی نشوونما

مصنوعی ذہانت کے پروگرام کے ساتھ باقاعدہ تعامل طلبا کی زبان اور اظہارِ خیال سے متعلقہ مہارتوں کی نشوونما میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ طلبا کسی خاص موضوع کے بارے میں کم وقت میں کئی اہم نکات جمع کرسکتے ہیں۔ نیز وہ مربوط اور واضح سوالات تیار کرنے، مختصر اور درست جواب حاصل کرنے اور بامعنی گفتگو میں مشغول ہونے کی مشق کرسکتے ہیں۔ یہ پروگرام غیر مقامی لوگوں کو انگریزی زبان کی مہارت کو بہتر بنانے میں بھی مدد کر سکتے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے راقم نے مشاہدہ کیا ہے کہ بہت سے لوگوں کے برقی خطوط، مختلف میٹنگز کے اہم نکات قلم بند کرنے اور مختلف سرگرمیوں کی کارکردگی رپورٹس میں بہتری نظر آئی اور یہ سب مصنوعی ذہانت کے پروگراموں کے دانش مندانہ استعمال کے مرہونِ منت ہے۔

چوبیس گھنٹے دستیابی

اساتذہ اسکول یا ٹیوشن مراکز میں صرف محدود وقت کےلیے دستیاب ہوتے ہیں۔ تحقیق بتاتی ہے کہ انسان دن میں صرف تین یا چار گھنٹے کےلیے ہی بہتر انداز میں پیداواری صلاحیت کا حامل ہوتا ہے۔ اسی تجزیے کے ضمن میں اساتذہ کو بھی اپنے کام اور ذاتی زندگی میں توازن پیدا کرنے کےلیے وقفے اور چھٹی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسی صورتِ حال میں طلبا کو اگر کسی مضمون میں فوری مدد کی ضرورت پیش آئے تو اساتذہ سے رابطہ انتہائی دشوار ہوتا ہے۔ لیکن مصنوعی ذہانت کے پروگرام بغیر وقفے کے لامتناہی کام سر انجام دیتے رہتے ہیں اور ہمہ وقت طلبا کی تعلیمی مدد کےلیے موجود ہوتے ہیں۔

طلبا کے ذہنوں اور کارکردگی پر مصنوعی ذہانت کے منفی اثرات

مصنوعی ذہانت پر حد سے زیادہ انحصار

مصنوعی ذہانت کے پروگراموں پر حد سے زیادہ انحصار طلبا کی تنقیدی انداز سے سوچنے اور مسائل کو آزادانہ طور پر حل کرنے کی صلاحیت کو روک سکتا ہے۔ جوابات کےلیے ان پروگراموں پر بہت زیادہ انحصار کرنا تخلیقی صلاحیتوں، تجزیاتی سوچ اور بے ساختگی کی کمی کا باعث بن سکتا ہے۔ طلبا بنیادی تصورات کو پوری طرح سمجھے بغیر فوری حل کے عادی ہوسکتے ہیں۔

راقم نے مختلف انٹرویوز میں امیدواروں کے ذاتی بیانات کا جائزہ لیا، جنھیں چیٹ جی پی ٹی یا دیگر مصنوعی ذہانت کے پروگراموں کے ذریعے ترتیب دیا گیا تھا۔ یہ ذاتی بیانات زبان کی فصاحت و بلاغت اور عمدہ خیالات کی بدولت دیکھنے اور پڑھنے سے تعلق رکھتے تھے، لیکن امیدواروں کو ان ذاتی بیانات میں درج شدہ کئی ایک تراکیب اور تصورات کی 5 فیصد بھی تفہیم نہیں تھی۔ پوچھنے پر انھوں نے اعتراف کیا کہ یہ تمام بیانات مصنوعی ذہانت کے مرہونِ منت ہیں۔ حد سے زیادہ چیٹ جی پی ٹی پر انحصار طلبا کی تعلیمی کارکردگی کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور وہ امتحانات یا حقیقی دنیا کے مسائل حل کرنے والے منظرناموں کی الجھنوں میں پھنس سکتے ہیں۔

کم مصروفیت اور سماجی تعامل

مصنوعی ذہانت کے پروگراموں کے وسیع استعمال کے نتیجے میں طلبا کی کلاس روم کے مباحثوں میں شمولیت اور سماجی تعامل میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔ طلبا الگ تھلگ ہوسکتے ہیں اور ساتھیوں کے ساتھ تعاون کرنے یا گروہی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا امکان کم ہوسکتا ہے۔ یہ تنہائی متنوع نقطۂ نظر سے ان کی تعلیمی ترقی میں پیش رفت کو محدود، سماجی ترقی میں رکاوٹ اور باہمی روابط کی مہارتوں کی نشوونما میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔

مثال کے طور پر ایک طالب علم کسی پروجیکٹ کے دوران گروہ کے اراکین کے ساتھ فعال طور پر شامل ہونے کے بجائے مسلسل مصنوعی ذہانت کے پروگراموں کا استعمال کرتا ہے۔ نتیجے کے طور پر وہ اپنے ساتھیوں سے سیکھنے، ٹیم ورک کی مہارتوں کو فروغ دینے اور بامعنی تعلقات استوار کرنے کا موقع گنوا دیتا ہے۔

ناقابلِ اعتبار معلومات اور تعصب

مصنوعی ذہانت کے پروگرام پہلے سے موجود ڈیٹا سے اپنے جواب اخذ کرتے ہیں، جس میں تعصبات یا غلطیاں ہوسکتی ہیں۔ وہ طلبا جو مکمل طور پر ان آلات پر انحصار کرتے ہیں وہ غیر دانستہ طور پر متعصب یا غلط معلومات کو قبول کرسکتے ہیں اور اسے اپنے ذہن پر نقش کرسکتے ہیں۔ مزید یہ کہ تنقیدی جائزے اور تصدیق کی کمی غلط معلومات کے پھیلاؤ کا باعث بن سکتی ہے۔

اس کی مثال ہم یوں دے سکتے ہیں کہ ایک طالب علم تاریخی واقعے کی تحقیق کےلیے مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتا ہے اور یہ پروگرام متعصب یا غلط نقطۂ نظر پیش کرتا ہے۔ بغیر سوال پوچھے یا معلومات کا حوالہ دیے بغیر وہ طالب علم غیر دانستہ طور پر متعصبانہ نقطۂ نظر کو اپنے اسائنمنٹ میں شامل کرلیتا ہے۔ یوں وہ طالب علم ممکنہ طور پر اپنے کام کی درستی اور معیار پر سمجھوتہ کرتا ہے۔

سرقہ کا خطرہ

کسی بھی موضوع پر مطلوبہ مواد لکھنے کےلیے مصنوعی ذہانت کے پروگرام بہت مددگار ہوسکتے ہیں۔ تاہم! ان آلات کے استعمال سے سرقے کا خطرہ ہمیشہ سر پر منڈلاتا رہتا ہے۔ چوں کہ یہ آلات پہلے سے موجود مواد پر مبنی تحریر پیش کرتے ہیں، اس لیے نقل شدہ مواد کا بغیر کسی حوالے کے پیش کرنے کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے اور یوں دوسروں کی دانش ورانہ ملکیت کو اپنے نام سے پیش کرنے کا رواج فروغ پاتا رہے گا۔ اس کے مقابلے میں گوگل آپ کی ویب سائٹ پر ایسی سرقہ سازی پر آپ کو سزا دے سکتا ہے۔

ترقی یافتہ دور میں مصنوعی ذہانت کے پروگرام سیکھنے کے تجربات کو بڑھا کر، کارکردگی کو بہتر بناکر اور زبان کی مہارتوں کی نشوونما کو فروغ دے کر بے شمار فوائد پیش کرتے ہیں۔ تاہم! طلبا کے ذہنوں اور کارکردگی پر ان پروگراموں کے ممکنہ منفی اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ آزاد سوچ، تنقیدی تجزیہ اور بالمشافہ بات چیت کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان پروگراموں کو مددگار وسائل کے طور پر استعمال کرنے کے درمیان توازن قائم کرنا بہت ضروری ہے۔ معلمین اور طلبا کو مصنوعی ذہانت کے پروگرام کے استعمال کی حدود سے آگاہ ہونا چاہیے اور ان کے استعمال کے ساتھ ساتھ ضروری علمی مہارتوں کی نشوونما پر زور دینا چاہیے تاکہ طلبا کے طویل المدتی فوائد کےلیے اچھی تعلیم کو یقینی بنایا جاسکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post مصنوعی ذہانت کے پروگرام اور طلبا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/HKE2WT1
Previous Post Next Post

Contact Form