گزشتہ کئی برسوں سے اس موقع کی تلاش میں رہا کہ انصافیوں کے ’’مرشد‘‘ کا کوئی اچھا اور سچا اقدام یا کم از کم کوئی مثبت اور قابل تقلید بات سن کر اس پر لکھوں اور تحریک انصاف میں موجود دوستوں کے دل پر ہاتھ رکھ سکوں، مگر رب گواہ ہے کوشش کے باوجود بھی مجھے یہ موقع نہیں ملا۔
’’مرشد‘‘ کے بارے میں مسلسل لکھ لکھ کر تہیہ کیا تھا کہ اس بار کم از کم ان کے بارے لکھوں گا ہی نہیں مگر شاید یہ بھی میری قسمت میں نہیں، کیونکہ ’’مرشد‘‘کے کارنامے ہی ایسے ہیں کہ ہفتہ وار کیا، روز لکھنا پڑے تو بھی اسی پر ہی لکھنا پڑے گا۔
گزشتہ دنوں موصوف نے جے آئی ٹی میں پیش ہوکر جو گلفشانی کی، سب حیران ہیں۔ میرا تو سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے، پتہ نہیں انصافیوں کا کیا حال ہوگا۔ میرے خیال میں تو تبدیلی کے خواہشمند انصافیوں کے ساتھ بہت بڑا ہاتھ ہوگیا ہے، کیونکہ جس بندے نے صادق وامین کا لبادہ اوڑھ کر ان کو پیچھے لگایا اب انھوں نے اپنے کئی جھوٹ اور بہتان پر باقاعدہ وہ دستخط ثبت کر دیے جو کبھی وہ خوش نصیب پیروکاروں کے برانڈڈ شرٹس پر کیا کرتا تھا۔ ’’ مرشد‘‘ کی جانب سے پاک فوج کے سینئر ترین آفیسرز پر لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کرنے کے لیے بنائی گئی جے آئی ٹی میں پیش ہوئے۔ جہاں ان سے کئی اہم سوالات ہوئے۔
ان سے جے آئی ٹی نے سوال کیا، کہ کیا کسی افسر نے براہ راست آپ کو دھمکی دی؟ ’’مرشد‘‘ کا جواب تھا، نہیں۔ جے آئی ٹی نے سوال کیا کہ آپ کے پاس ان الزامات سے متعلق کوئی ثبوت ہے؟ جواب دیا، نہیں۔ جے آئی ٹی نے سوال کیا، کہ ثبوت نہیں تو الزامات کس بنیاد پر لگائے؟ جواب تھا مجھے کسی نے بتایا تھا۔’’ مرشد‘‘ سے جے آئی ٹی نے جو سوالات کیے ان تمام کے جوابات تحریری شکل میں ان کے سامنے پیش کیے جس پر ان سے دستخط بھی لے لیے گئے ہیں۔ سنی سنائی بات پر یقین کرنا اور اسے آگے پہنچانا انتہائی غلط اور ناپسندیدہ بات ہے‘یہ تو رہی صداقت اور ذہانت کی کہانی جس کا بھانڈہ بیچ چوراہے پھوٹ کر چکنا چور ہو چکا ہے۔
جہاں تک ان کی ’’ایمانداری‘‘ کی بات تو اس کے لیے توشہ خانہ کا معاملہ ہی کافی ہے، توشہ خانہ بیت المال ہی کی ایک قسم ہے، جس میں آنے والا ہر تحفہ ریاست کا ہوتا ہے۔ لیکن میرے ملک کے پرانے اور نئے حکمرانوں اور افسر شاہی نے اسے بے دردی سے لوٹنے کے لیے قوانین گھڑ رکھے تھے اور حکمران طبقہ اسی کی آڑ میں بیت المال کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتا رہا مگرمرشد نے تو باقاعدہ حدیں پار کردیں‘ باقی حکمرانوں نے تو صرف توشہ خانے سے سستے داموں چیزیں حاصل کیں لیکن ریاست مدینہ کے علمبردار نے تو توشہ خانے سے چیزیں اونے پونے داموں لیں اور انھیں بازار میں مہنگے داموں فروخت بھی کردیا۔ وقت اور حالات نے ثابت کیا کہ انصافیوں کے ’’مرشد‘‘ پرانے چوروں سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔
’’ مرشد‘‘ کا سیاسی نظریہ ہے کہ بار بار اتنا جھوٹ بولو کہ قوم اسے سچ ماننے لگ جائے اور پرانے جھوٹ کی میعاد ختم ہونے سے پہلے ایک نیا جھوٹ بولو تاکہ جھوٹ کا تسلسل برقرار رہے ۔
بد قسمتی سے نوجوان طبقہ اس جال میں تیزی سے اور بری طرح پھنسا۔ انصافی جھوٹ کو سچ سمجھ کر اپناتے رہے۔ سوشل میڈیا کے گالم گلوچ بریگیڈ کے ذریعے اس مہم میں برقی تیزی آگئی۔ لوگوں کو سہانے خواب دکھائے گئے، ملک و قوم کی قسمت سنوارنے کے لیے جیسے دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہوں گی، بیرون ملک مقیم پاکستانی دو سو ارب ڈالر بھیج دیں گے، لوٹ مار کے اربوں ڈالر واپس قومی خزانے میں آئینگے، کروڑ نوکریاں، لاکھوں گھر، نجانے کیا کیا خواب دکھائے گئے۔
تحریک انصاف کے حامی سمجھتے تھے شاید حکومت سنبھالتے ہی جنات کا کوئی گروہ ان کی خدمت میں حاضر ہوجائے گا اور یہ تمام کام حکم ملتے ہی پورے کردے گا۔ شاید جناب آئے بھی لیکن وہ پاکستانی عوام کے بجائے فرح گوگی اور جمیل گجر کے زیادہ کام آئے۔ آخر ’’مرشد‘‘ اقتدار سے محروم ہو گئے۔9 مئی کے واقعات نے ’’ مرشد‘‘ کی پوری کی پوری سیاست کو بھسم کرکے رکھ دیا۔ حسب عادت کام نکلنے کے بعد وہ اپنے قریب ترین لوگوں کو بھی ٹشو کی طرح پھینک دیتے ہیں۔
کہاں ہے فاروق امجد میر، حامد خان اور ظفر اللہ جو لندن میں عیش و عشرت کی زندگی چھوڑ کر صرف پی ٹی آئی کے لیے پاکستان آیا تھا، کہاں ہے حفیظ اللہ نیازی جوجگہ جگہ جاکر آپ کو پروموٹ کرتا رہا۔ کہاں ہے سعید اللہ صدیقی، فردوس شمیم صدیقی اور نعیم الحق اور منصور صدیقی دونوں دنیا سے چلے گئے مگر آپ کو جنازہ میں شرکت کی توفیق بھی نہیں ہوئی۔ اقتدار ملنے کے بعد جس طرح ایک ایک کرکے آپ نے نظریاتی لوگوں کو کھڈے لائن لگایا قوم کو سب یاد ہے۔
9 مئی کے واقعات کے نتیجے میں اللہ نے رسی کو ایسا کھینچا کہ ان کی سیاست، ان کی پارٹی، ان کے نظریات اور جھوٹے دعوے سب زمین بوس ہوگئے ہیں۔ آج ان کے ساتھی ایک ایک کرکے ساتھ چھوڑ رہے ہیں اور دوسری جماعتوں میں پناہ لے رہے ہیں۔ اپنی سیاست کی کشتی کو ڈوبتا دیکھ کر اب انکو نظریاتی کارکن نظر آنا شروع ہوچکے ہیں۔
اپنے دورحکومت میں انکو نظریاتی کارکنوں کی یاد نہیں آئی، آج جب سب کچھ لٹ چکا ہے تو انھیں نظریاتی کارکن یاد آنے لگے ہیں۔ اپنے ہاتھوں بہترین دماغوں، نہایت مخلص اور وفادار کارکنوں، ساتھیوں کا گلا گھونٹنے کے بعد نظریاتی کارکنوں کی یاد ماسوائے سیاسی شعبدہ بازی کے کچھ نہیں ہے۔
ایک نہیں، دو نہیں، بلکہ سیکڑوں وفاداروں کی جوانیاں اور سرمایہ ضایع کر دیاگیا۔ کئی نام میں نے اوپربتا دیے، ایسے سیکڑوں نام اور بھی ہیں جنھوں نے پی ٹی آئی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کیا مگر مرشد نے انھیں وفاداروں ہی کو قربان کردیا۔
آخر کار قدرت نے ایسی کروٹ لی کہ وفاداری کا دعویٰ کرنے والے سارے ساتھی ہوا پرست نکلے۔ ساتھی اگر خدا پرست ملے تو اس سے بڑی نعمت نہیں اور خدا نخواستہ اگر ساتھی ہوا پرست ملے تو اس سے بڑا المیہ کوئی نہیں۔ ہوا پرستوں کے قائد آسمان سے زمین پر ایسے آتے ہیں جیسے مرشد کا سیاسی اسکائی لیب زمین بوس ہوا ہے۔
پاکستان کی سیاست میں اب اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ وہ شجر ممنوع ہے جو اس کے قریب جائے گا وہ ’’سیاسی جنت‘‘سے نکالا جائے گا۔
اللہ رب العزت ہم سب کو ہوا پرستوں کی دوستی سے اپنے حفظ و امان میں رکھے۔( آمین)
The post ہوا پرست appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/QLFsHvc