2022 کا مون سون سیزن وسیع پیمانے پر تباہی چھوڑ کر گیا، جس سے ملک کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈوب گیا اور پاکستان کے نصف سے زیادہ اضلاع کو “آفت زدہ” قرار دیا گیا۔
اس تباہ کن سیلاب سے لگ بھگ 33 ملین لوگ متاثر ہوئے، تقریباً 80 لاکھ اپنے گھروں سے بے گھر ہوئے، جن میں سے تقریباً 4.5 ملین لوگ 2023 کے اوائل میں سیلاب زدہ علاقوں کے قریب رہے۔ سرکاری اور نجی اسٹیک ہولڈر اس صورتحال میں مدد کیلئے متحرک ہوئے۔ ان میں سابق وزیر اعظم عمران خان کا سیلاب زدگان کیلئے ٹیلی تھونز کے ایک سلسلے کے ذریعے فنڈز اکٹھا کرنے کا اقدام قابلِ ذکر ہے۔
اس آرٹیکل میں ان ٹیلی تھونز کے ذریعے اکٹھے کیے گئے فنڈز کے استعمال اور ان کی تقسیم کے بارے میں تفصیلات پیش کی گئی ہیں جن میں گزشتہ چھ ماہ کے دوران کئی سوشل میڈیا پوسٹس کے ذریعے فنڈ کی تقسیم کے طریقہ کار اور اس کی رہنمائی کرنے والی پالیسی کی تفصیل بھی شامل ہے۔ فنڈز جمع کرنے کی مد میں اگست اور ستمبر 2022 کے درمیان تین لائیو فنڈ ریزرز منعقد ہوئے۔
ٹیلی تھون سے تمام عطیات پنجاب، خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ کے سرکاری اکاؤنٹس میں موصول ہوئے۔ صوبائی حکومتوں کے اپنے فلڈ ریلیف فنڈز بھی انہی اکاؤنٹس میں بھیجے گئے۔ مجموعی طور پر 15 ارب روپے کے عطیات دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اس میں سے 4.63 ارب روپے یکم جنوری 2023 تک وقف شدہ کھاتوں میں موصول ہوئے۔
‘عہد کردہ رقم’ اور اکاؤنٹس میں ‘موصول شدہ رقم’ کے درمیان فرق کی تین وجوہات ہیں۔ سب سے پہلی وجہ بین الاقوامی کریڈٹ کارڈ کے لین دین میں ناکامی کی بلند شرح تھی، جس کی مالیت تقریباً 4.345 ارب روپے تھی کیونکہ بہت سی ادائیگیوں کو بلاک کر دیا گیا تھا اور ممکنہ ہائی رسک ادائیگیوں کے طور پر نشان زد کیا گیا تھا۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق، اس رقم کا 58 فیصد وصول نہیں کیا جاسکا کیونکہ اسکیم کے مالک (مثلاً ماسٹر کارڈ/ویزا) نے لین دین کی اجازت نہیں دی۔ 15 فیصد میں تصدیق ناکام ہوگئی؛ 21 فیصد میں جاری کنندہ بینک نے لین دین سے انکار کر دیا؛ دو فیصد میں ادائیگی میں تکنیکی خرابیاں تھیں اور چار فیصد میں ادائیگی “رسک بلاکڈ بن” سے منسلک تھی۔
دوسرا، ٹیلی تھونز کے دوران ڈونرز کی طرف سے عہد کردہ 2 ارب روپے وزرائے اعلیٰ کے اکاؤنٹس میں جانے کی بجائے ان ڈونرز کی طرف سے خود تقسیم کیے جانے تھے اور تیسرا، امریکہ میں مقیم کچھ عطیہ دہندگان’ 501 C-3 انسٹرومنٹ’ چاہتے تھے تاکہ وہ اپنے عطیات پر ٹیکس سے چھوٹ کا فائدہ حاصل کر سکیں اور سرکاری اکاؤنٹ میں عطیہ کرنے سے انہیں ٹیکس میں چھوٹ نہیں ملتی۔
اس کے لیے ایک حل تیار کیا گیا تھا، جس کو عملی جامہ پہنانے میں وقت لگے گا۔اکاؤنٹس میں موصول ہونے والے 4.63 ارب روپے میں سے 83 فیصد رقم مقامی اور باقی بین الاقوامی ڈونرز کی طرف سے تھی۔ مقامی اور بین الاقوامی ڈونرز کے عطیات کا اوسط حجم بالترتیب 31,310 روپے اور 77,107 روپے تھا۔مزید تفصیلات اس ویب سائٹ پر دی گئی ہیں؛
https:// www.insaf.pk/ notification/ telethon – flood- donations- utilization- status
استعمال میں رہنمائی کے لیے، پنجاب اور کے پی دونوں میں خصوصی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں جن کا مینڈیٹ تھا کہ وہ ٹیلی تھون اور چیف منسٹر کے فنڈ سے سیلاب کے امدادی فنڈز کے موثر انتظام اور استعمال کا طریقہ کار وضع کریں اور اس کی نگرانی کریں۔ہر کمیٹی کی سربراہی متعلقہ وزیر اعلیٰ نے کی ، اور مجھے دونوں کمیٹیوں کی قیادت کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔بے گھر ہونے والے لوگوں کی بڑی تعداد کو دیکھتے ہوئے۔
کمیٹیوں نے تباہ شدہ مکانات کی تعمیر نو کو ترجیح دینے کا فیصلہ کیا، سوائے بلوچستان کے، جہاں حکومت بلوچستان کی درخواست کے مطابق امداد فراہم کی گئی۔ہم استفادہ کنندگان کے انتخاب، شفافیت کو یقینی بنانے، اور رساو کو ختم کرنے کے اصول اور ڈیٹا پر مبنی طریقہ کاروضع کرنے کے اپنے مقصد میں واضح تھے۔ اس ضمن میں چار مراحل پر مشتمل طریقہ کار اپنایا گیا۔
پہلے مرحلے میں ہر تباہ شدہ گھر کا شروع سے آخر تک ڈیجیٹل فیلڈ سروے شامل تھا۔ ڈیجیٹل سروے پنجاب میں اربن یونٹ اور خیبر پختونخوامیں کے پی آئی ٹی بورڈ نے متعلقہ پی ڈی ایم اے کے ساتھ مل کر کیا۔سروے ایپ میں ہر سروے ہاؤس کو جیو ٹیگ کرنے اور ثبوت کے طور پر فوٹو اپ لوڈ کرنے کی سہولت تھی، تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ٹیم جسمانی طور پر وہاںموجود تھی۔
ایک بار سسٹم میں داخل ہونے کے بعد، ضلعی ڈیزاسٹر مینجمنٹ یونٹس کی رضامندی کے بغیر ڈیٹا کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔سروے ٹیموں کو تمام تباہ شدہ مکانات تک پہنچنے اور چھ ہفتوں کے اندر مکمل سروے کرنے کے لیے ناہموار اور سیلاب زدہ علاقوں کو عبور کرنا تھا۔ایک کنٹرول روم قائم کیا گیا تھا، جہاں اندرونی تفصیلی ڈیش بورڈ لگائے گئے تھے، جو تباہ شدہ مکانات کی تفصیلات فراہم کرتے تھے۔ ان اقدامات سے فیصلہ سازی میں شفافیت کو یقینی بنایا گیا۔
دوسرے مرحلے نے سیلاب سے ہونیوالے نقصانات کے تخمینے کے عمل میں مزید شدت کو متعارف کرایا جسکے ذریعے سیلاب سے پہلے اور بعد میں سیٹلائٹ کے تصویری نقشوں کو جیو ٹیگ کیے گئے تباہ شدہ مکانات پر رکھا گیا۔ اس سے نقشے پر ان علاقوں کی نشاندہی کرنے میں مدد ملی جو سیلاب زدہ تھے۔ اگر کوئی جیو ٹیگ شدہ مکان ان علاقوں میں ہوتا ہے، تو اس بات کی تصدیق ہو جاتی کہ واقعتاً اس کے مسلسل نقصان زدہ ہونے کا بہت زیادہ امکان ہے۔
تیسرے مرحلے میں بینک برانچوں کے ذریعے، سی سی ٹی وی مانیٹرنگ کے تحت اور بائیو میٹرک دستخط کے ساتھ رقوم کی تقسیم کا فیصلہ شامل تھا، تاکہ دھوکہ دہی کے واقعات کو کم سے کم کیا جا سکے جو کہ ماضی میں قدرتی آفات کیلئے آنے والی امدادی رقوم کے ضمن میں وسیع پیمانے پر دیکھے گئے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں، ایک ہی دورے میں مستحقین کے لیے مکمل بینک اکاؤنٹس کھولے گئے۔
پنجاب میں ہر مستحق فرد کے لیے ورچوئل پروفائلز بنائے گئے تھے، اور ان کے معاوضے کی رقم اس پروفائل میں جمع کر دی گئی تھی، جسے منٹوں میں بینک برانچ سے نکالا جا سکتا تھا۔یہ سب سے کم آمدن والے گھرانوں میں سے کچھ کو مالی معاونت فراہم کرنے کا ایک بے مثال اقدام تھا۔
چوتھے مرحلے میں عوامی طور پر قابل رسائی ڈیش بورڈز کا استعمال شامل تھا کیونکہ شفافیت سیلاب فنڈ کی تقسیم کی پالیسی کا سنگ بنیاد تھا۔سروے اور تقسیم کی تفصیلات کے اعدادوشمار حقیقی معنوں میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کے عوام کی پہنچ میں تھے اور اور وہ لوگ جن کے گھر تباہ ہو چکے ہیں وہ اپنے شناختی کارڈ نمبر کے ذریعے اپنے کیس کی صورتحال کا پتہ لگاسکتے ہیں۔
یکم جنوری 2023 کو ہمارے اکاؤنٹس میں موصول ہونے والے 4.63 ارب روپے میں سے 3.63 بلین روپے ڈیش بورڈز پر مکمل تفصیلات کے ساتھ تقسیم کیے گئے تھے۔کمیٹی کے فیصلے کے مطابق ٹیلی تھون فنڈز کے بقیہ ایک ارب روپے سندھ میں سیلاب کے معاوضے کے لیے مختص کیے گئے تھے اور اس کے لیے این ڈی ایم اے سے سندھ سروے کا ڈیٹا درکار تھا۔
تاہم، متعدد درخواستوں کے باوجود، این ڈی ایم اے اور سندھ حکومت نے ڈیٹا فراہم نہیں کیا اور کہا کہ رقم کی تقسیم کے لیے فنڈز ایم پی ایز کو دے دیے جائیں۔ہم اس سے متفق نہیں تھے کیونکہ تقسیم کا یہ طریقہ شفافیت پر مبنی ادائیگیوں کے اصول کے خلاف تھا۔اس لیے سندھ کے لیے مختص 1 ارب روپے بینک آف پنجاب میں وزیراعلیٰ پنجاب فلڈ ریلیف فنڈ 2022 میں رکھے گئے ہیں اور فیلڈ ڈیٹا کا ابھی بھی انتظار ہے۔
خیبر پختونخوا اور پنجاب میں سیلاب کیلئے ٹیلی تھون کے ذریعے جمع کردہ رقم کی تقسیم کے عمل نے مستقبل میں آفات سے نمٹنے کے لیے ایک مثال کے طور پر کام کیا۔ٹیکنالوجی، بشمول سروے ایپس، ٹرائینگولیشن ڈیٹا اور ان ادائیگیوں کے لیے تیار کردہ ڈیش بورڈز نے فوری طور پر رد عمل اور تشخیص کا موقع فراہم کیا۔اس طریقہ کار کو تمام صوبوں میں نافذ کرنے اور بڑے پیمانے پر ناموافق واقعات میں حکومتی ردعمل کو ہموار کرنے کیلئے اقدامات کیے جانے چاہئیں۔
The post سیلاب فنڈ اور ٹیلی تھون appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/uPN4fqn