دہشت گردی اور معیشت

سوات کے علاقے کبل میں سی ٹی ڈی تھانے کے اندر 2 دھماکوں میں 15 افراد شہید اور 53 زخمی ہوگئے۔ تھانے میں اسلحہ اور مارٹر گولے بھی موجود تھے، ہوسکتا ہے مارٹر گولے پھٹنے سے دھماکے ہوئے۔

آئی جی خیبر پختونخوا اختر حیات کا کہنا ہے کہ سی ٹی ڈی تھانے میں دھماکا دہشت گردی نہیں بلکہ تھانے کے اندر موجود بارودی مواد پھٹا تھا، ادھرعلاقے کے لوگوں نے مظاہرہ کیا ہے۔

مظاہرین کا کہنا ہے کہ دھماکے کی تحقیقات کی جائیں، بدامنی برداشت نہیں کریں گے، دہشت گردی کے واقعے کو غلط رنگ دیا جا رہا ہے۔

کبل میں سی ٹی ڈی تھانے میں ہونے دھماکوں کی نیچر کیا ہے، تحقیقات میں اس کا پتہ چل جائے گا لیکن پاکستان میں چونکہ دہشت گرد کارروائیاں کررہے ہیں، مختلف تجزیوں اور جائزہ رپورٹس میں بھی خدشات ظاہر کیے گئے ہیں کہ رواں برس دہشت گرد عناصر مزید کارروائیاں کرسکتے ہیں، دہشت گرد سیکیورٹی فورسز کو بطور خاص نشانہ بنا رہے ہیں، اس پس منظر کی وجہ سے جب بھی کسی دھماکے کی خبر آتی ہے جو عوامی ذہن دہشت گردی کی طرف ہی جاتا ہے۔

خیبر پختو نخوا اور بلوچستان دہشت گردی کی زد میں ہیں، اس لیے کبل دھماکوں کی شفاف تحقیقات ہونی چاہیے تاکہ عوام مطمئن ہوجائیں۔ اس وقت اہم یہ ہے کہ کس نے اپنی ذمے داری ٹھیک سے ادا نہیں کی جو اتنا بڑا سانحہ رونما ہو گیا اور مزید یہ کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں کہ آیندہ اس قسم کے واقعات نہ ہوں۔

افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے بعد سے دہشت گردوں کے حملوں کا نیا سلسلہ شروع ہواہے ،گزشتہ چند مہینوں کے دوران دہشت گردی کی کارروائیوں میں خاصا اضافہ دیکھا گیا ہے۔

خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی وارداتیں زیاہ ہوئی ہیں۔پاکستان کو اس وقت شدید معاشی مسائل کا سامنا ہے ، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کا بیل آؤٹ پروگرام بیتے برس نومبر سے تعطل کا شکار ہے۔ ان تمام حالات کے ساتھ ملک میں سیاسی گرما گرمی بھی عروج پر ہے جب کہ حکومت اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے مابین ’’سیاسی جنگ‘‘ شدت اختیار کر چکی ہے۔

پاکستان میں دہشت گردی 2000 میں شروع ہوئی اور لوگوں کو اس سے کافی پریشانی کا سامنا رہا۔ یہ 2009 میں اپنے نقطہ عروج پر تھی، ملک میں 2014 میں بھی انتہا پسند عسکری گروہوں کے خلاف ملک گیر آپریشن کا آغاز کیا گیا تھا، اور پاکستانی افواج کی عمدہ کارگردگی کی بدولت اور عوام کے جرآت مندانہ حوصلے سے اس میں کامیابی نصیب ہوئی اور یہ آہستہ آہستہ ختم ہونا شروع ہو گئی، لیکن اب اس نے نئے سرے سے سر اٹھا لیا ہے ۔

کسی بھی ملک میں دہشت گردی معاشرے پر دیر پا اثرات مرتب کرتی ہے، جس میں جانی، مالی، معاشی، اقتصادی اور تعلیمی نقصان شامل ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے دہشت گردی نے بین الااقوامی سطح پر ملکی ساکھ کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ ملک و قوم کا بہت قیمتی سرمایہ دہشت گردی کی نذر ہو گیا ہے۔

آج بھی وقت ہے ان مسائل پر سنجیدگی سے قانون سازی کی جائے۔ پاکستان میں روز بروز بڑھتے ہوئے واقعات حکومتی اور سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں۔عوام کو کچھ امید دلائی جائے، انھیں تازہ صورتحال سے آگاہ کیا جائے، دہشت گردی کے خلاف جنگ عوام کی طاقت سے لڑی جاتی ہے۔

آج بھی پاکستان میں انتہاپسندی کے بیانیے کو تقویت دینے والے متحرک ہیں، عوام کو کنفیوژن میں ڈالا جا رہا ہے؟ سیکیورٹی اہلکار اور امن کمیٹیوں کے افراد مسلسل نشانہ بن رہے ہیں ؟ کیا کسی نے ان حالات کی ذمے داری نہیں لینی؟

اے پی ایس حملے کے بعد نیشنل ایکشن پلان کے تحت شروع ہونے والی موثر کارروائیوں اور سیکیورٹی فورسز کی لاتعداد قربانیوں کے نتیجے میں دہشت گردوںکا خاتمہ کر دیا گیا تھا اور عوام نے سکھ کا سانس لیا تھا، لیکن اب کئی سالوں کے بعد عوام میں اسی طرح دہشت گردی کا خوف کا پھر سے بڑھ جانا یقینی طور پر اپنی ان قربانیوں پر پانی پھیرنے کے مترادف ہے۔

گزشتہ چند ماہ سے خیبر پختونخوا میں جس طرح تسلسل کے ساتھ بدامنی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے اس کے بعد تو کوئی دو رائے نہیں کہ کالعدم تنظیمیں پوری تیاری کے ساتھ میدان میں واپس آ چکی ہیں۔ سوات کے عوام دہشت گردوں اور دہشت گردی کے حوالے بہت حساس ہوچکے ہیں کیونکہ وہ دہشت گردی کی وجہ بہت نقصان اٹھا چکے ہیں۔جب سے دہشت گردی کی وارداتوں کا دوبارہ آغاز ہوا ہے، سوات کے عوام میں خوف کی لہر دوڑ گئی ہے۔

سوات میں بھتہ وصولی کے واقعات ہونا شروع ہوا تو وہاں کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کی پشاوراور اسلام آباد منتقلی کی خبریں بھی شایع ہوتی رہی ہیں۔

سوات کے کسی علاقے میں کوئی دھماکا ہو جائے تو وہاں کے عوام کا ذہن دہشت گردی کی طرف چلا جاتا ہے اور وہ سٹرکوں پر آجاتے کیونکہ انھیں محسوس ہوتا ہے کہ انھیں ایک مرتبہ پھر اکیلا چھوڑ دیا گیا ہے یا باالفاظ دیگر ان کو بطور شکار حملہ آوروں کے سامنے پھینک دیا گیا ہے، لیکن عوام کے مظاہرے یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ وہ جاگ اٹھے ہیں، جس جرات اور بہادری کے ساتھ بدامنی کے خلاف پرامن احتجاج ہوئے ہیں، پاکستان کی حالیہ تاریخ میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔

عوامی بیداری کا کریڈٹ شمالی وزیرستان کے لوگوں جاتا ہے جہاں ٹارگٹ کلنگ کے خلاف سب سے پہلے ایک بڑا منظم عوامی دھرنا ہوا جو کئی ہفتوں تک جاری رہا۔ اس عوامی دھرنے نے پورے خیبر پختونخوا کے عوام کو دہشت گردوں کے خلاف میدان عمل آنے کا حوصلہ دیا۔

اس کے بعد دیر، سوات، اورکزئی، باجوڑ، خیبر اور کرم کے اضلاع میں تسلسل سے بدامنی اور دہشت گردی کے خلاف ہونے والے مظاہروں اور دھرنوں نے بند کمروں میں موجود حکمرانوں کو ایک واضح پیغام دے دیا ہے۔ ان مظاہروں اور احتجاج نے ثابت کیا کہ عوام دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات نہیں بلکہ ان کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سابقہ فاٹا اور سوات کے عوام نے فوج کے شانہ بشانہ لڑ کر جو قربانیاں دی ہیں، اسے کسی طور پر فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اس وقت قبائلی اضلاع اور مالاکنڈ ڈویژن کے عوام کو تسلی دینے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قبائلی علاقوں اور مالاکنڈ ڈویژن کے عوام نے جو دکھ برداشت کیے ہیں، شاید ہی کسی نے دیکھے ہوں۔

ہمیں معاشرتی ناہمواریوں کو ختم کرنا ہو گا۔ انصاف کا بول بالا کرنا ہو گا اور ان لوگوں کی بھی بیخ کنی کرنی ہوگی جو ان دہشت گردوں کے لیے سہولت کاری کرتے ہیں۔ اسی کے ساتھ اپنی سیکیورٹی کو دوبارہ فعال کرنا ہو گا۔ ہم اپنی سیکیورٹی میں کچھ کاہلی سے پیش آ رہے تھے۔

بہت ہو چکا پانی سروں سے گزر گیا اب فیصلے کا وقت ہے اب یا کبھی نہیں۔ ہم سب کی دعائیں تمام شہداء کے لیے ہیں ۔ عوام کو بھی اب کڑی نظر رکھنی ہوگی کہ مزید آگے کوئی دوسری دہشت گردی کی واردات نہ ہو جائے یا دہشت گرد دوبارہ کسی اور موقع سے فائدہ نہ اٹھا پائیں۔ اس وقت ملک کی صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف معاشی بدحالی نے حکومتی کارکردگی کا پول کھول دیا ہے تو دوسری طرف ایک مرتبہ پھر سے سر اٹھاتی ہوئی دہشت گردی نے ان کی انتظامی صلاحیتوں کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔

ملکی حالات یقینی طور پر اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اب یہ معاملات الزام تراشیوں یا پھر کاسمیٹک قسم کے عارضی حل پیش کرنے سے ٹھیک ہونے والے نہیں۔ بات کسی ایک پارٹی یا پھر کسی سیاسی اتحاد کے بس کی بھی نہیں اس کے لیے تمام سیاسی پارٹیوں اور اداروں کو مل کر بیٹھنا ہو گا اور مسئلہ کا حل نکالنے کی کوشش کرنا ہو گی۔

سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی قیادت کومیثاق معیشت بھی کرنا ہوگا اور امن وامان کی صورتحال پر بھی کوئی مستقل اور جامع پالیسی بھی بنانا ہو گی کیونکہ اگر تکنیکی اعتبار سے دیکھا جائے تو کمزور اور لڑکھڑاتی ہوئی معیشت اور دہشت گردی کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور یہ قدم قدم پر ایک دوسرے کو فائدہ پہنچا رہے ہیں اور اگر ہم حالات میں واقعی تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو دونوں کو بیک وقت کنٹرول میں لانا ہوگا۔ اہل وطن کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ اب اس عفریت کا کیا کرنا ہے۔

اس کا سر کچلنا ہو گا ورنہ یہ فتنہ بار بار سر اٹھاتا رہے گا۔ ہمیں اپنی پولرائزڈ سوسائٹی کو دوبارہ ایک قوم میں بدلنا ہوگا۔

The post دہشت گردی اور معیشت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/xhcqEOu
Previous Post Next Post

Contact Form