گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے معاشی میدان میں دو اہم کامیابیاں حاصل کیں۔ پہلی کامیابی بھارت نے پہلی میڈ ان انڈیا مرسڈیز الیکٹرک گاڑی لانچ کی جو صرف ایک مرتبہ چارج ہوکر 850 کلومیٹر تک سفرکرسکتی ہے۔ بھارت کی دوسری بڑی کامیابی آئی فون بنانے والی کمپنی ایپل کے ممبئی میں پہلے اسٹور کا افتتاح ہے۔ یہ افتتاح ایپل کے چیف ایگزیکٹو ٹم کک نے اپنے ہاتھوں سے کیا۔
انڈیا دنیا بھر میں آئی فون کی کل پیداوار کا 5 فیصد حصہ بنا رہا ہے اور انڈیا آئی فون کی پیداوار میں اپنا مارکیٹ شئیر 20 فیصد تک بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا سرچ انجن گوگل ہو یا فیس بک اور ٹویٹر جیسے سوشل پلیٹ فارم ہر جگہ آپ کو اعلیٰ عہدوں پر بھارتی شہری برا جمان نظر آتے ہیں۔
اس وقت دنیا بھر میں بھارتی تارکین وطن کی تعداد لگ بھگ 35 ملین یعنی ساڑھے تین کروڑ ہے جب کہ پاکستانی تارکین وطن کی تعداد قریباً 1 کروڑ یعنی بھارتی تارکین وطن کے مقابلے ایک تہائی۔ بھارت کے برابر نہیں تو کم از کم ایک تہائی پاکستانیوں کو تو گوگل کے سی او سندر پیجائی، یوٹیوب کے سی او نیل موہن جیسی پوزیشنز پر براجمان ہونا چاہیے؟ کیا ہماری قوم ذہانت یا قابلیت میں بھارت سے کم ہے؟ کیا ہمارے نوجوانوں کی ذہنی صلاحیتیں ترقی کی عالمی دوڑ کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں؟
پاکستان اور بھارت ایک ساتھ آزاد ہوئے، ہماری تاریخ ایک ہے، تعلیمی نظام قریب قریب ایک جیسا ، دونوں ممالک میں ایک جیسے مسائل، پھرکیا وجہ ہے کہ ترقی کی اس دوڑ میں ہم کہیں بہت پیچھے رہ گئے ہیں اور ہمارے ساتھ آزاد ہونے والا بھارت آج دنیا بھر میں اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ رہا ہے؟ فرق صرف اور صرف ترجیحات کا ہے۔
90 کی دہائی میں جس وقت ہمارے سیاستدان کرسی کی لڑائی میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف تھے بھارت کی توجہ آئی ٹی کے نئے ادارے بنانے اور دنیا بھر میں نئی تجارتی منڈیاں تلاش کرنے پر تھی۔ بھارت نے معاشی اور عسکری طاقت پر توجہ کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں اپنی سافٹ پاور بڑھانے پر بھی خصوصی طور پر کام کیا۔
بھارتی فیصلہ ساز اداروں اور سفارتکاروں نے 2001 میں عالمی دہشت گردی کی جنگ کا آغاز ہونے کے فوری بعد بھانپ لیا کہ آنے والا دور بیانیے کی جنگ کا دور ہے۔ جس ملک کا بیانیہ جتنا مضبوط ہوگا اس کی خارجہ پالیسی بھی اتنی ہی کامیاب ہوگی اور آنے والے وقت میں صرف بیانیے اور سافٹ پاور کے ذریعے دنیا بھر میں اپنی ریاست کے لیے سیاسی اور معاشی کامیابیاں حاصل کی جا سکتی ہیں۔
بیانیے کی جنگ میں سفارتکاروں سے زیادہ اسکالرز کی اہمیت ہے کیونکہ دنیا ریاستی بیانیے سے زیادہ اسکالرز کے بیانیے کو زیادہ توجہ دیتی ہے۔
بھارت نے دنیا بھر کی جامعات میں 300 سے زیادہ چیئرز قائم کر کے اپنے اسکالرز اور ریسرچرز کو دنیا بھر کی جامعات بھیجا۔ دنیا بھر کی جامعات میں تشکیل دی جانے والی ان چیئرز کے قیام کا مقصد بھارتی زبان اور ثقافت کی ترویج ، عالمی جامعات کے ساتھ تعلیمی روابط اور بیانیے کی ترویج عالمی تھنک ٹینکس کے ساتھ روابط بنانا اور دنیا کی ٹاپ جامعات میں اپنے ملک کے طلبا کے لیے زیادہ سے زیادہ تعلیمی مواقع کا حصول۔
دنیا بھر میں ان خصوصی اسٹڈی سینٹرز اور چیئرز کے قیام کے ذریعے انڈیا نے نہ صرف اپنی سافٹ پاور کو بڑھایا بلکہ تعلیمی روابط کے ذریعے اپنے طلبا کو دنیا کی بہترین جامعات سے اعلیٰ تعلیم دلوا کر سائنس، آئی ٹی ، خلائی تحقیق، میڈیسن جیسے جدید ترین شعبوں میں منظم پلاننگ کے ساتھ اپنی جگہ بنائی۔
ایسا نہیں ہے کہ دنیا نے بھارت کے ساتھ کوئی خصوصی سلوک کرتے ہوئے دنیا بھر کی ٹاپ جامعات میں جگہ دی۔ پاکستان کو بھی عالمی سطح پر اپنی سافٹ پاور کو بڑھانے اور تعلیمی روابط کے فروغ کے لیے حصہ بقدر جثہ شیئر ملا ۔ اس وقت دنیا جرمنی ، ترکی ، مصر ، برطانیہ اور چین سمیت 14 ممالک میں پاکستان چیئرز موجود ہیں، لیکن بدقسمتی سے گزشتہ 10 سال سے دنیا بھر کی جامعات میں موجود ان چیئرز پر موزوں امیدواروں کی تعیناتی ہی نہیں کی جا سکی۔ امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی نے کئی سال تک پاکستان سے کسی بھی امیدوار کی سلیکشن نہ کرنے پر اپنی یونیورسٹی سے پاکستان چیئر کو ہی ختم کردیا۔
2019 میں تحریک انصاف حکومت کے وزیر تعلیم شفقت محمود نے بین الاقوامی جامعات میں خالی پاکستان چیئرز پر تعیناتی کا بیڑہ اٹھایا اس حوالے سے 31 امیدواروں کے انٹرویوز کر کے 5 امیدوار فائنل کیے گئے لیکن آج تک ان کی تعیناتی نہیں ہو سکی۔
اس سے پہلے ن لیگ کے دور حکومت میں 2015 کے دوران پاکستان چیئرز پر تعیناتیوں کے لیے اشتہار دیا گیا لیکن سلیکشن پراسس کے دوران جانبداری اور اقربا پروری کے الزامات کی وجہ سے تعیناتیاں نہیں ہوسکیں۔
اچھی بات یہ ہے کہ طویل عرصے بعد سینیٹ کی کمیٹی برائے تعلیم نے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے پاکستان چیئرز پر طویل عرصے سے تعیناتیاں نہ ہونے پر نہ صرف سخت برہمی کا اظہار کیا بلکہ اسے مجرمانہ غفلت قرار دیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ اس وقت چین، مصر ، جرمنی ، امریکا ، ترکی ، ہانگ کانگ ، ایران ، اردن ، نیپال اور قازقستان میں اردو اور مطالعہ پاکستان کی چیئرز خالی ہیں۔
کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر عرفان صدیقی خصوصی توجہ اور ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے وزارت تعلیم کو ان خالی آسامیوں پر موزوں امیدواروں کی تلاش اور سلیکشن کا پراسس شروع کرنے کی ہدایت شروع کی ہے۔ دیکھتے ہیں کیا اس بار ان خالی آسامیوں پر تعیناتی کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات ہوں گے یا ماضی کی طرح من پسند افراد کو نوازنے کے چکر میں تعیناتی کے پراسس کو متنازعہ بنایا جائے گا۔
بھارت کے مقابلے میں بین الاقوامی جامعات میں ہماری چیئرز کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے لیکن اگر میرٹ کی بنیاد پر ان چیئرز پر قابل امیدواروں کی تعیناتی ہوجاتی ہے تو مجھے یقین ہے پاکستان کے قابل ترین دماغ ہمارے طلبا کے لیے بھارتی اسکالرز کی مانند بین الاقوامی جامعات میں زیادہ سے زیادہ مواقع حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے، کیونکہ اکیڈیمک پروفیسرز اور اسکالرزکا سافٹ پاور کو بڑھانے میں اہم کردار ہوتا ہے۔
غیر ملکی جامعات میں موجود ان چیئرز کے ذریعے ہمارے اسکالرز نہ صرف جدید ریسرچ کو پاکستان کے ساتھ لنک کرسکتے ہیں بلکہ دنیا بھر میں موجود ٹاپ تھنک ٹینکس کے ذریعے پاکستان کے بیانیے کو بھی دنیا بھر میں پھیلا سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اسٹوڈنٹ ایکسچینج پروگرام کے ذریعے زیادہ سے زیادہ پاکستانی طلباء کو بین الاقوامی جامعات میں اعلیٰ تعلیم کے مواقع دلوا سکتے ہیں۔
The post بین الاقوامی جامعات میں خالی پاکستان چیئرز پر تعیناتی appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/jNKnqXH