ایک وزیراعظم ایسا بھی تھا۔۔۔۔

 ہمارے شعراء نے اپنی خستہ حالی کا برملا اعتراف کیا ہے، غالب کہتے ہیں:

چند تصویریں بتاں چند حسینوں کے خطوط

بعد مرنے کے مرے گھر سے یہ ساماں نکلا

اور جون ایلیا اقرار کرتے ہیں:

میرے کمرے کو سجانے کی تمنا ہے تمہیں؟

میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں

ویسے اپنے ملک کے دیگر زبانوں کے بڑے نامی گرامی سیاست دانوں اور شعراء میں سے بھی ہم بہت سوں کی زندگی سے اچھی طرح واقف ہیں کہ اگر وہ چاہتے تو اپنے لیے اور اپنے بال بچوں کے لیے بہت کچھ حاصل کرسکتے تھے مگر اپنے نظریات اور اصولوں پر کبھی بھی سمجھوتا نہیں کیا جس کی وجہ سے بڑی تکلیف، مصیبت اور مشکلات میں اپنی زندگی کے شب و روز گزار دیے۔ ایسی ہی شخصیات میں سے ایک وہ شخصیت بھی تھی۔

ایک نوے برس کے ضعیف، نحیف، بے بس اور لاچار آدمی کے پاس تھا ہی کیا کہ نہ اس نے جوانی میں کچھ کمایا اور حاصل کیا تھا اور نہ اب اس قابل رہا تھا کہ اپنے لیے کچھ کماسکے۔ اب تو اس کی عمر اور کم زور صحت اسے اس بات کی اجازت ہی نہیں دیتی تھی۔

اس کے پاس سر چھپانے کے لیے نہ تو اپنا ذاتی مکان تھا اور نہ ہی کھانے پینے کے لیے قیمتی برتنوں سے بھری ہوئی الماریاں تھیں۔

اس حالت میں اس بے چارے بوڑھے آدمی کے پاس پیسہ کہاں سے آتا کہ نہ تو وہ کوئی بھکاری تھا نہ ہی اس کا کوئی والی وارث تھا اور نہ ہی صاحب جائیداد، نہ پینشن ملتی تھی نہ بینک بیلنس کا مالک تھا، جس سے وہ مالک مکان کو ہر ماہ مقررہ تاریخ پر کرایہ دیتا۔ آخر نوبت یاں تک پہنچی کہ اس کے ذمہ پورے پانچ مہینوں کا کرایہ ادا کرنا واجب ہوگیا۔

ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو ’’اگلے ماہ دے دوں گا‘‘ کہتا، اور اگلے ماہ کے انتظار میں پانچ ماہ گزر گئے آخر کار ایک دن مالک مکان بڑے غصے میں اپنا کرایہ وصول کرنے آدھمکا، اور ’’وہی حالات ہیں فقیروں کے‘‘ کا منظر دیکھ کر اس بوڑھے آدمی کا پورا سامان گھر سے باہر پھینک دیا۔ سامان بھی کیا تھا۔

بوڑھے کے پاس ایک پرانا بستر، المونیم کے کچھ پرانے برتن، پلاسٹک کی ایک بالٹی اور ایک مگ وغیرہ کے علاوہ اللہ اللہ خیر صلا۔

وہ بوڑھا شخص بے بسی اور بے چارگی کی بھرپور تصویر بنا فٹ پاتھ پر بیٹھا تھا۔ یہ ہندوستان کے شہر احمد آباد کے ایک عام سے محلے کا سچا واقعہ ہے۔ محلے والے مل جل کر مالک مکان کے پاس گئے۔ مالک مکان کی منت سماجت اور اس سے التجا کی کہ اس بوڑھے آدمی کو گھر میں رہنے کی اجازت دے دیجیے، کیوںکہ اس کا کوئی والی وارث نہیں ہے۔

ہم آپ سے التجا کرتے ہیں کہ یہ آدمی دو ماہ میں اپنا پورا کرایہ کہیں نہ کہیں سے ادھار لے کر ادا کر دے گا۔ پورے محلے کے لوگ جمع ہوئے تھے اور مالک مکان کی منت سماجت کررہے تھے۔ اس دوران اتفاق سے وہاں ایک اخبار کا رپورٹر گزر رہا تھا۔

یہ تماشا دیکھ کر اسے اس نحیف اور لاچار آدمی پر بہت ترس آیا۔ تمام معاملے اور تماشے کی تصاویر کھینچیں۔ دفتر پہنچ کر اپنے ایڈیٹر کے کمرے میں چلا گیا اور انہیں سارا قصہ سنایا کہ کیسے آج ایک مفلوک الحال بوڑھے شخص کو گھر سے نکالا گیا اور پھر محلہ داروں نے بیچ میں پڑ کر دو ماہ کا وقت لے کر دیا ہے۔ رپورٹر نے وہ تصویریں ایڈیٹر کی میز پر رکھ دیں۔

جیسے ہی ایڈیٹر کی نظریں اس بزرگ شخص کی تصاویر پر پڑیں تو وہ چونک اٹھا۔ اس نے رپورٹر سے پوچھا، کیا تم اس شخص کو جانتے ہو؟ رپورٹر ہنس پڑا کہ اس بوڑھے شخص میں ایسی کون سی غیرمعمولی صفت اور بات ہے کہ کوئی اسے جانے یا اس پر توجہ دے۔ اسے تو محلہ والے بھی نہیں جانتے۔ ایک وقت کا کھانا کھاتا ہے۔

برتن بھی خود دھوتا ہے۔ کرائے کے معمولی سے گھر میں جھاڑو پوچھا بھی خود لگاتا ہے۔ اس کو کسے جاننا ہے۔

ایڈیٹر نے حد درجہ سنجیدگی سے اپنے رپورٹر سے کہا کہ یہ صاحب ہندوستان کے دو مرتبہ وزیراعظم رہ چکے ہیں اور ان کا نام گلزاری لال نندہ ہے۔

رپورٹر کا مُنہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا۔ ہندوستان کا وزیراعظم اور اس بدحالی میں۔۔۔! اگلے دن کے اخبار میں یہ خبر اور تصویر چھپی تو پورے ہندوستان میں ایک قیامت سی آ گئی۔ لوگوں کو معلوم ہوا کہ یہ عاجز بوڑھا ہندوستان کا دو بار وزیراعظم رہ چکا ہے۔

وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کو بھی معلوم ہو گیا کہ گلزاری لال نندہ کتنی غربت اور بے بسی میں سانسیں لے رہے ہیں۔

خبر چھپنے کے چند گھنٹوں بعد ریاست گجرات کا وزیراعلیٰ، چیف سیکرٹری اور کئی وزیر صوبائی دارالحکومت احمدآباد کے اس محلے میں پہنچ گئے۔

سب نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ آپ کو سرکاری گھر میں منتقل کر دیتے ہیں اور سرکار ماہانہ وظیفہ بھی لگا دے گی۔ خدارا اس معمولی سے مکان کو چھوڑ دیجیے، مگر گلزاری لال نندہ نے سختی سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اپنے عہدے سے سبک دوش ہونے کے بعد اب کسی بھی طرح کی سرکاری سہولت پر ان کا کوئی حق نہیں ہے۔

وہ یہیں اسی مکان میں رہیں۔ گلزاری لال کے چند رشتے داروں نے منت سماجت کرکے بہرحال انہیں اس بات پر آمادہ کر لیا کہ ہر ماہ پانچ سو روپے وظیفہ قبول کرلیں۔ سابق وزیراعظم نے بڑی مشکل سے یہ پیسے وصول کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ اب اس قلیل سی رقم میں کرایہ دینے اور کھانے پینے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

مالک مکان کو جب علم ہوا کہ اس کا کرایہ دار ملک کا وزیراعظم رہ چکا ہے تو وہ گلزاری لال نندہ کے پاس آیا اور پیر پکڑ لیے کہ اسے بالکل معلوم نہیں تھا کہ اس کا کرایہ دار اس اعلیٰ ترین منصب پر فائر رہ چکا ہے۔

بوڑھے شخص نے جواب دیا کہ اسے یہ بتانے کی ضرورت ہی نہیں تھی کہ وہ کون ہے۔ وہ تو ایک معمولی سا کرایہ دار ہے اور بس۔ جب تک گلزاری لال نندہ زندہ رہے اسی مکان میں رہے اور مرتے دم تک پانچ سو روپے میں گزارا کرتے رہے۔

گلزاری لال نندا نے لاہور، آگرہ اور الہٰ آباد سے تعلیم حاصل کی تھی۔ انہوں نے الہٰ آباد یونیورسٹی ( 1920.1921) میں مزدوروں سے متعلق پریشانیوں پر ایک ریسرچ اسکالر کے طور پر کام کیا اور1921ء میں نیشنل کالج (بمبئی) میں اقتصادیات کے پروفیسر بن گئے۔

اسی سال وہ تحریک عدم تعاون سے جڑ گئے۔ 1922ء میں احمد آباد ٹیکسٹائل لیبر ایسوسی ایشن کے سیکرٹری بن گئے اور 1926ء تک اس عہدے پر کام کیا۔ ستیہ گرہ کے لیے1923ء میں انہیں گرفتار کر لیا گیا اور پھر1924ء سے لے کر 1944ء تک انہیں قید میں رہنا پڑا۔

نندا 1937 میں بمبئی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے اور1937ء سے 1939 کے دوران، بمبئی حکومت کے پارلیمانی سیکرٹری (لیبر اینڈ ایکسائز) رہے۔ بعد میں، بمبئی حکومت میں 1946ء سے لے کر1950ء تک وزیر برائے محنت و مزدوری کے عہدے پر فائز رہے۔

انہوں نے ریاستی اسمبلی میں مزدور تنازعات بل کام یابی کے ساتھ پیش کیا۔ انہوں نے کستوربہ میمورئیل ٹرسٹ میں ٹرسٹی کی حیثیت سے ’’ہندوستان مزدور سیوک سنگھ‘‘ میں سیکرٹری کی حیثیت سے اور بمبئی ہاؤسنگ بورڈ میں چیئرمین کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ وہ قومی منصوبہ بندی کمیشن کے رکن بھی رہے۔ انہوں نے انڈین نیشنل ٹریڈ یونین کانگریس کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور بعد میں وہ اس کے صدر بھی بنے۔

1947ء میں وہ حکومت کے سفیر کے طور پر عالمی مزدور کانفرنس میں شریک ہوئے۔ انہوں نے کانفرنس کے ذریعہ منعقد کردہ ’’دی فریڈم آف کمیٹی‘‘ پر کام کیا اور سویڈن، فرانس، سوئٹزرلینڈ، بیلجیئم اور انگلینڈ کا دورہ کیا تاکہ وہ ان ممالک میں مزدوری اور ہاؤسنگ سے متعلق صورتِ حال کا مطالعہ کر سکیں۔

مارچ 1950ء میں، نائب چیئرمین کے طور پر منصوبہ بندی کمیشن میں شمولیت اختیار کی۔ اگلے سال ستمبر میں انہیں مرکزی حکومت میں منصوبہ بندی کے وزیر مقرر کیا گیا۔ اس کے علاوہ انہیں آب پاشی اور بجلی کے محکمے کی ذمے داری بھی سونپی گئی۔

وہ 1952ء کے عام انتخابات میں بمبئی سے لوک سبھا کے لیے منتخب ہوئے اور پھر دوبارہ منصوبہ بندی، آب پاشی اور بجلی کے وزیر مقرر کیے گئے۔ انہوں نے1955ء میں سنگاپور میں منعقدہ منصوبہ مشاورتی کمیٹی اور1959ء میں بین الاقوامی مزدور کانفرنس میں ہندوستانی وفد کی نمائندگی کی۔

گلزاری لال نندا 1957ء میں عام انتخابات میں لوک سبھا کے لیے منتخب ہوئے اور محنت و روزگار اور منصوبہ بندی کے مرکزی وزیر کے طور پر مقرر کیے گئے، بعد ازآں منصوبہ بندی کمیشن کے ڈپٹی چئیرمین بنے۔ انہوں نے1959ء میں وفاقی جمہوریہ جرمنی، یوگوسلاویہ اور آسٹریا کا دورہ کیا۔

وہ 1962ء میں ایک مرتبہ پھر عام انتخابات میں گجرات کے سابرکانٹھا انتخابی حلقہ سے لوک سبھا کے لیے منتخب ہوئے۔

انہوں نے 1962ء میں سوشلسٹ تحریک کے لیے کانگریس فورم کی شروعات کی۔ وہ1962 اور 1963 میں مرکزی وزیر برائے محنت و روزگار رہے اور1963 سے 1966 تک داخلی امور کے وزیر کے طور پر فائز رہے۔

پنڈت جواہرلال نہرو کی وفات کے بعد انہوں نے27 مئی1964 کو ہندوستان کے وزیراعظم کے طور پر حلف اٹھایا۔ تاشقند میں لال بہادر شاستری کی وفات کے بعد، 11 جنوری1966ء کو ایک مرتبہ پھر انہوں نے وزیراعظم کے طور پر حلف اٹھایا۔

گلزاری لال نندا کو ایک بھارتی سیاست داں اور ماہراقتصادیات تھے کی حیثیت سے مزدوروں کے مسائل سے خصوصی دل چسپی تھی۔ انہیں 1997ء میں بھارت کا اعلٰی ترین شہری اعزاز ’’بھارت رتن‘‘ سے نوازا گیا۔ وہ حیرت انگیز کردار کے مالک تھے۔

وہ سیالکوٹ میں چار جولائی 1898 ء کو پیدا ہوئے اور پندرہ جنوری 1998 کو احمد آباد میں وفات پائی۔

گلزاری لال کا فلسفہ تھا کہ زندگی بہت سادہ اور قناعت پسندی سے گزارنا چاہیے۔ کسی شان و شوکت کے بغیر انتہائی قلیل رقم میں خوش رہنا ہی اصل امتحان ہے۔ ویسے گلزاری لال نندہ نے سادگی اور قناعت پسندی میں رہنے کی جو مثال قائم کی ہے اس کے لیے حد درجہ مضبوط کردار اور صبر و برداشت کی ضرورت ہے۔

نناوے سال کی عمر میں فوت ہوتے وقت ان کے پاس کسی قسم کی جائیداد، بینک بیلنس اور ذاتی گھر تک نہیں تھا، مگر ان کے پاس عزت و احترام کا وہ خزانہ تھا جو امیر سے امیر لوگوں کے پاس بھی نہیں ہوتا۔ یہ حقیقت اپنی جگہ درست ہے کہ ہمارے ملک خداداد کی طرح ہندوستان کی سیاست میں بھی حد درجہ کرپشن آچکی ہے اس کے باوجود ہمیں گلزاری لال نندہ جیسے کردار مل ہی جاتے ہیں۔

انڈیا میں کئی ایسے بلند سطح کے سیاست داں موجود ہیں جن کے اثاثے کچھ بھی نہیں ہیں، مگر اس سطح کی سادگی اور دیانت کی عملی مثال ہمارے ہاں ڈھونڈنا تقریباً ناممکن ہے۔

گلزاری لال نندہ کے حالات زندگی کا موازنہ اگر ہم اپنے ملک کے سیاست دانوں کے حالات زندگی سے کریں تو سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ کیا ہمارے پاس اس طرح کے سیاست داں ہیں یا مل سکتے ہیں؟ ظاہر ہے اس کا جواب نفی ہی نفی ہے۔ ہمارے ہاں بیشتر سیاست داں تو پیسہ کمانے نہیں بلکہ ہڑپ کرنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔

ملک کے اندر اور ملک سے باہر بھی ان کے اثاثے ہماری بات کا بین ثبوت ہے۔ ان کی عالی شان کوٹھیاں، بنگلے اور پلازے دیکھیں۔ سیکڑوں ہزاروں ایکڑ پر محیط جائیدادیں دیکھیں۔ بلٹ پروف اور دیگر قیمتی گاڑیاں دیکھیں۔

گلزاری لال نندہ کے حالات زندگی سے ہمیں نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے سابق گورنر مرحوم ارباب سکندرخان خلیل کا ایک واقعہ بھی یاد آیا جس کا ذکر خان عبدالولی خان نے اپنی کتاب ’’باچاخان اور خدائی خدمت گاری‘‘ میں کیا ہے ’’جس وقت (1973) میں ملک کے وزیراعظم ذولفقار علی بھٹو نے بلوچستان میں ہماری (نیپ) کی حکومت ختم کرڈالی تو احتجاجاً صوبہ سرحد میں قائم ہماری حکومت بھی مستعفی ہوگئی۔ صوبے کے وزیراعلیٰ مفتی محمود صاحب اور گورنر ارباب سکندرخان خلیل تھے۔

رات کو جب ارباب صاحب اپنے عہدے سے مستعفی ہوئے تو صبح کے ناشتے کے لیے ارباب صاحب مفتی محمود صاحب کے گھر چلے گئے کہ اب میں چوں کہ گورنر نہیں رہا تو گورنرہاؤس کے سرکاری ناشتے پر اب میرا کوئی حق نہیں بنتا اور جب ان کے گھر والے تہکال سے انہیں لینے آئے تو ارباب صاحب کے پاس صرف اپنے کپڑوں کا ایک چھوٹا سا بکس تھا جسے ہاتھ میں اٹھا کر ایک تانگے میں بیٹھ کر روانہ ہوگئے۔‘‘

اسی طرح وزیراعلیٰ مفتی محمودصاحب کے گھر میں کپڑے سوکھنے کی رسی نہیں تھی تو گھر والے دھوئے ہوئے گیلے کپڑے گھر میں موجود چھوٹے چھوٹے پودوں اور درختوں کی شاخوں پر لٹکا دیا کرتے تھے۔ اس قسم کی شخصیات کی فہرست میں ہم باچاخان، معراج محمد خان اجمل خٹک، قلندرمومند اور حبیب جالب سمیت بہت سے نام بھی شامل کرسکتے ہیں۔ یہ شخصیات تھیں جو سیاست اور ادب و صحافت کو ایک مقدس پیشہ اور عبادت سمجھتی تھیں۔

The post ایک وزیراعظم ایسا بھی تھا۔۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/SObJQfa
Previous Post Next Post

Contact Form