بات چیت یا بحران

پاکستان کے سیاسی اور عدالتی بھونچال میں جہاں ایک جانب عدالت اپنے فیصلے دے رہی ہے تو دوسری جانب پارلیمان عدلیہ کے سوموٹو اقدامات پر قانون سازی کرتی ہوئی نظر آرہی ہے جب کہ عدلیہ کے فیصلوں پر پارلیمانی قرارداد کے ذریعے پارلیمان کی بالادستی کو منوانے کی تگ و دو میں پارلیمانی سیاسی جماعتیں مصروف عمل ہے۔

جمہوری پارلیمان میں بالادست ادارہ پارلیمان ہی ہوتا ہے جو اپنی قانون سازی اور متفقہ قراردادوں کے ذریعے ملک کے انتظام و انصرام کو چلانے والا مستحکم ادارہ ہوتا ہے جب کہ دیگر تمام ادارے پارلیمان کے تابع تصور کیے جاتے ہیں۔

مجوزہ ماحول میں دو اسمبلیوں کے الیکشن تنازعے نے بظاہر پارلیمان اور عدلیہ کو آمنے سامنے آنے پر مجبور کر دیا ہے، جس پر ملک میں درست نکتہ نظر یا رائے کا اس قدر فقدان اور بد اعتمادی کا ماحول پیدا کر دیا گیا ہے کہ سیاسی اور سماجی اعتبار کے رشتے مسلسل شکستہ ہورہے ہیں۔

حالات کے تناظر میں اس کی وجہ پاکستانی معاشرے کی سماجی ، سیاسی اور معاشی فیبرک کو اتنا کمزور اور ناقابل اعتبارکر دیا جانا تھا کہ ہر سوچ اور ہر اعتماد بے یقینی کی ایک ایسی دلدل میں جا گرے جہاں سے کبھی بھی توانا سیاسی معاشی اور قانون و انصاف کی کوئی سبیل نہ نکالی جا سکے جب کہ دوسری جانب سماج میں بچی کچھی سیاسی تقسیم میں اتنا الجھاؤ پیدا کر دیا جائے کہ فریقین کی بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل نکالنے کا کوئی زاویہ یا طریقہ باقی نہ رہے اور اقتدار اعلیٰ پر قابض طاقتور اشرافیہ کسی نہ کسی طرح حاوی رہے۔موجودہ سیاسی اور عدالتی ماحول میں ہمارے ہاں عمومی طور سے قابل ذکر دو نکتہ نظر ہیں۔

پہلا نکتہ نظر عمران خان کے تمام غیر جمہوری، غیر آئینی و غیر قانونی طرز عمل کو شہرت اور عقیدت مند محبت کی بنیاد پر مکمل درست سمجھتا ہے، جس میں وہ غیر منطقی طور پر خواہشات یا ضد کی بنیاد پر پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی کی پانچ سالہ میعاد سے پہلے تحلیل کو نئے مینڈیٹ کی بنیاد سمجھتا ہے جب کہ دوسرا نکتہ نظر یہ سمجھتا ہے کہ ملک کے سیاسی ماحول یا سیاسی اقدار کو تباہ و برباد کرنیوالا عمران خان ٹولہ ہے جو اداروں کو تقسیم کرکے ضرورت اور گروہی مفادات کے لیے کبھی کسی ادارے کو تو کبھی کسی ادارے کو استعمال کرتا ہے اور سیاسی ماحول سے دلیل منطق اور اقدار کا نکالا کرکے اپنے گروہی مفادات کا حصول چاہتا ہے۔

اس گھمبیر سیاسی صورتحال میں سوال یہ ہے کہ عمران خان کا مسلسل یہ مطالبہ کہ عوامی مینڈیٹ کے بر خلاف پانچ سالہ اسمبلی کی مدت سے پہلے توڑی جانیوالی پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی کے الیکشن 90 روز میں کروائے جائیں اور انتخابات کرانے کی آئینی ضرورت کو پورا کیا جائے۔

بظاہر یہ مطالبہ غیر آئینی نہیں لگتا۔مگر اس کمزور دلیل میں سوال یہ ہے کہ اگر واقعی انتخابات کے لیے 90 روز کی آئینی شرط لازم و ملزوم ہے تو 30 اپریل کی تاریخ تو 90 روز سے 15 دن آگے چلی گئی ہے جس پر صدر نے اتفاق کر لیا ہے اور اس مذکورہ تاریخ پر سپریم کورٹ فیصلہ دینے کے بعد خاموشی سے رضامند بھی ہے۔ خیبر پختونخوا کے انتخابات کو مئی میں کروانے پر اب تک وہ شورو غوغا نہیں جو پنجاب اسمبلی کے انتخاب پر ہے؟

تحریک انصاف اور خود کو جمہوریت پسند تجزیہ کار کہلوانے والے حضرات مذکورہ گنجلک صورتحال سے نکلنے کا کیا کوئی حل دے سکتے ہیں؟ اس مقام پر ایک جانب پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی ہے تو دوسری جانب تحریک انصاف، پی ڈی ایم کی حکومتی انتظامی صلاحیت پر بالکل سوال ہو سکتا ہے مگر ان کے سیاسی تجربات اور ان کی سیاسی دانش اور سیاسی رکھ رکھاؤ کم از کم تحریک انصاف کے گالم گلوچ کلچر سے قدرے بہتر دکھائی دیتا ہے۔

جب کہ تحریک انصاف یا عمران خان کے طرز عمل پر نظر ڈالی جائے تو عمومی طور سے دیکھا گیا ہے کہ جب بھی معروف یا سیاسی طور سے اقتدار میں آنے والی جماعتوں نے اسٹبلشمنٹ سے دوری کی راہ اپنانا چاہی تو عمران خان ہمیشہ اسٹبلشمنٹ کے ہر دلعزیز ٹہرے اور اس وقت کے معروضی سیاسی حالات میں عمران خان اسٹبلشمنٹ کے مددگار کے طور پر اشرافیہ کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔

جس کی واضح مثال جنرل مشرف کے ریفرنڈم میں آمر مشرف کی حمایت یا میثاق جمہوریت کے معاہدے کے موقع پر سیاسی جماعتوں کے بجائے ان سے علیحدگی اور میثاق جمہوریت کو تنقید کا نشانہ بنانے سے لے کر دو ہزار چودہ کے دھرنے کی قیادت یا سرگرمی کہ جس کا اصل مقصد ایک منتخب حکومت کے ساتھ پہلی مرتبہ جمہوری طریقے سے دوسری منتخب سیاسی پارٹی کو اقتدار منتقل کرنے کے مثبت عمل کو دھرنے کے ذریعے غیر مستحکم کرنا تھا، یہ سب کچھ عمران خان اسٹبلشمنٹ کی بھرپور حمایت سے کر رہے تھے۔

جس کے نتیجے کے طور پر انھیں دو ہزار اٹھارہ کا جعلی مینڈیٹ دلوایا گیا اور عمران خان نے خوشی خوشی اسٹبلشمنٹ زدہ اقتدار قبول کیا، اور آج بھی عمران خان اپنے رابطے اور اقتدار دلانے میں ممکنہ معاون بننے والی عالمی قوتوں سے استوار کرنے میں جتے ہوئے ہیں، جب کہ سیاسی حکمت عملی یا جمہوری رویہ تو یہ ہونا چاہیے کہ ملک میں جمہوری اداروں کی مضبوطی کے لیے عمران خان کو تمام تر سیاسی اختلافات پرے رکھ کر ملک کی سیاسی جماعتوں سے رابطے کرنے چاہیے تھے بلکہ پہل کرنی چاہیے تھی تاکہ موجودہ سیاسی حکمران کو سیاسی مات دے سکیں۔

مگر چونکہ عمران خان کی اقتداری گھٹی میں طالبان پسند ماحول کے اجزا شامل ہیں لہذا اسی تربیت کے تناظر میں عمران خان یہ کہتے ہوئے کوئی تردد نہیں کرتے کہ ’’ میں دہشت گرد طالبان یا کسی سے بھی مذاکرات کر سکتا ہوں مگر پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے چور ڈاکوؤں سے بات چیت نہیں کر سکتا۔‘‘دوسری جانب مشترکہ پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے عمران خان کی سیاست پر حملے کرتے ہوئے واضح طور پر کہا ہے کہ ’’جب تک عمران خان لاقانونیت پسند اقدامات اور اداروں پر دہشت گردانہ حملے اور ناشائستہ پروپیگنڈے پر قوم سے باضابطہ معافی نہیں مانگتے۔

اس وقت تک حکومت عمران خان سے کسی بھی قسم کی بات چیت کے لیے تیار نہیں۔‘‘ سوال یہ ہے کہ ان دو انتہاؤں کے درمیان بات چیت کا راستہ کیسے نکالا جائے اور وہ کونسا فارمولا سامنے لایا جائے کہ سیاسی مذاکرات کے لیے فضا سازگار ہو سکے۔

اس تشویشناک صورتحال میں فریقین کو اپنے اپنے موقف سے پیچھے ہٹ کر ایک ایسے راستے کا چناؤ کرنا چاہیے جو جمہوری عدم استحکام کو ختم کرے اور اپنی اپنی سیاسی حکمت عملی سے ایک ایسے سیاسی اور معاشی میثاق کا راستہ نکالے، جس سے عوام میں پیدا ہونے والی بے چینی اور خلیج دور ہوسکے اور ملک میں طالبان کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ سے ہر صورت بچا جاسکے کہ دہشتگردی اور سیاسی ہٹ دھرمی کسی بھی طور جمہوریت کے لیے قابل قبول اور سازگار نہیں۔

The post بات چیت یا بحران appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/5v2fVoD
Previous Post Next Post

Contact Form