یہ کوئی سیاست نہیں ہے

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے لاہور میں عدلیہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ریلی کا اعلان کیا، پنجاب حکومت نے تحریک انصاف کو نہ صرف اس ریلی کی اجازت نہیں دی بلکہ طاقت سے اس ریلی کو روکا ہے۔عمران خان کی زمان پارک رہائش گاہ پر پولیس نے ایکشن کیا۔ کسی کو زمان پارک تک پہنچنے نہیں دیا۔

اس کے ساتھ لوگوں کو ریلی کے لیے اکٹھے بھی نہیں ہونے دیا۔ گرفتاریاں بھی کی گئی ہیں۔ لاٹھی چارج اور شیلنگ بھی کی گئی۔ ایک سیاسی کارکن کی موت بھی ہوئی ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ اس کی روڈ ایکسیڈنٹ میں موت ہوئی ہے۔ جب کہ تحریک انصاف کا موقف ہے کہ پولیس تشدد سے موت ہوئی ہے۔ بہر حال ایک انسان کی جان گئی ہے۔

ایک موقف یہ بھی ہے کہ جب پنجاب میں اتخابات کا بگل بج چکا ہے۔ انتخابی شیڈول آچکا ہے۔ ایسے میں پنجاب میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی کیسے ہو سکتی ہے۔ نگران حکومت دفعہ 144کیسے لگا سکتی ہے۔ اگر سیاسی جماعتوں کو سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہو گی تو انتخاب کیسے ہوںگے۔ ریلی نکالنا سیاسی جدو جہد میں جرم کیسے ہو سکتا ہے، اس لیے ریلی پر پابندی ناجائز تھی۔

دوسری طرف سیکیورٹی کے مسائل بھی ہیں۔ تحریک انصاف کا اپنا موقف ہے کہ عمران خان کی جان کو شدید خطرہ ہے، ایسے میں وہ ریلی کیسے نکال سکتے ہیں؟ اگر وہ باہر نکلتے ہیں، ہزاروں لوگ ان کے گرد موجود ہیں اور وہاںکچھ ہو جاتا ہے تو اس کا کون ذمے د ار ہے؟ پہلے بھی وزیر آباد میں واقعہ ہوا ہے اور پی ٹی آئی نے ساری ذمے داری اداروں پر ڈال دی گئی ہے۔

ایسے میں دوبارہ کیسے رسک لیا جا سکتا ہے۔ عمران خان کو خود بھی خیال کرنا چاہیے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک طرف وہ حکومت کو اپنے اوپر حملے کا ذمے دار ٹھہراتے رہیں، ان پر ایف آئی آر درج کرانے کا بیانیہ بناتے رہیں، دوسری طرف وہ ریلیاں نکالنے کا اعلان کر رہے ہیں۔

خود ہی بتائیے ایسے میں حکومت کیا کر سکتی ہے؟ کیا عمران خان کی جان کو دوبارہ رسک میں ڈالا جا سکتا ہے؟ کیا ان کے ساتھ پی ٹی آئی کی دوسری قیادت اورریلی کے شرکاء کی جان کو خطرات نہیں ہوں گے؟

ایک طرف عمران خان عدالتوں میں اس لیے پیش نہیں ہو رہے کہ ان کی جان کو خطرہ، ان کے زخم ٹھیک نہیںہوئے ہیں اور دیگر مسائل بھی ہیں، دوسری طرف وہ ریلی نکالنے کے لیے خود کو محفوظ بھی سمجھتے ہیں اور تندرست بھی ہیں۔

ایسا کیسے ممکن ہے؟ کیا جان کو خطرہ صرف عدالتوں میں پیش ہونے کے لیے ہے؟ سیاسی سرگرمیوں کے لیے جان کو کوئی خطرہ نہیں؟ اگر عدالتوں میں پیش ہونے کے لیے جان کو خطرہ ہے تو ریلی نکالنے کے لیے بھی جان کو خطرہ ہے۔ اگر کوئی سنائپر عدالت میں پیش ہوتے وقت نشانہ بنا سکتا ہے تو ریلی میں کیوں نہیں بنا سکتا۔ یہ کیسا جان کو خطرہ ہے جو صرف عدالتوں میں پیش ہونے کے لیے ہے۔ اس لیے یہ دو عملی مزید نہیں چل سکتی ۔

میں سمجھتا ہوں کہ اگر وہ عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے تو ریلی بھی نہیں نکال سکتے۔ آپ ریاست کے نظام کا اس قدر مذاق نہیں اڑا سکتے۔ ایک طرف عدالتوں میں پیش ہونے کے لیے بہانے دوسری طرف سیاسی ریلیاںنکالنے کے اعلانات اور تیاریاں ۔ اگر عدالت میں ویڈیو لنک کا عذر پیش کیا جا رہا ہے تو پھر سیاست بھی ویڈیو لنک پر ہی کرنا ہوگی۔

اگر جج صاحب کے سامنے نہیں پیش ہو سکتے تو عوام کے سامنے پیش ہونے کی بھی اجازت نہیں ہو سکتی۔ آپ کو ملک کے نظا م انصاف کو اس طرح پاؤں تلے روندنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ آپ نظام انصاف کو مذاق نہیں بنا سکتے۔ روزانہ عدالتوں میں سیکیورٹی مسائل پر پٹیشن اور دوسری طرف ایک دن میں پچیس پچیس استقبال، جشن اور ریلیاں۔ یہ کیسے ممکن ہے۔

میں سمجھتا ہوں عمران خان نے اپنی گرفتاری کو بھی جان بوجھ کر ایشو بنا لیا ہے، یہ سیاسی رہنماؤں کا طرز عمل نہیں ہے۔ کیا زمان پارک کو ایک قلعہ نہیں بنا دیا گیا۔

جہاں کسی کی کوئی رسائی نہیں۔ بیرئیر لگا دئے گئے ہیں جن سے آگے کوئی نہیں جا سکتا۔ باہر کارکن کھڑے کر دیے گئے ہیں جب کہ لاہور کے عام شہریوں کے لیے وہاں سے گزرنا ممکن نہیں رہا ، آپ اندازہ لگائیں پولیس اور دیگر سرکاری اہلکاروں کو بھی اندر جانے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔ اسلام آباد پولیس کو بھی بیرئیر پر روک لیا گیا۔

نیب کے اہلکارجو نوٹس کی تعمیل کے لیے گئے، وہ بھی کئی گھنٹے باہر کھڑے رہے۔ انھیں بھی اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ایسا نیٹ ورک بنا دیا گیا کہ کوئی عمران خان تک پہنچ ہی نہیں سکتا۔ باہر وہ تب نکلتے ہیں، جب لوگ ساتھ ہوں جب کہ ان کے گھر کے اندر کوئی آنہیں سکتا۔ کیا کسی جمہوری سیاسی جماعت اور اس کے رہنماؤںکا یہی کلچر ہوتا ہے۔

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ عمران خان نے ایک پلاننگ کے تحت زمان پارک کو قلعہ بنایا، کیا ایسا نہیں لگتا ہے کہ زمان پارک کوبھی نیا نائن زیرو بنایا جا رہا تھا ، بانی ایم کیو ایم نے اپنے ہیڈ کوارٹر نائن زیرو میں بھی ایسے ہی بیر ئیر لگا لیے گئے تھے۔

وہاں بھی کارکنوں کی ڈیوٹیاں لگتی تھیں۔ وہاں بھی حکومت کی رسائی نہیں ہوا کرتی تھی، کوئی اندر نہیں جا سکتا تھا۔ زمان پارک میں بھی ایسا ہی منظر نظر آ رہا ہے۔ ریاست پاکستان نے پہلے نائن زیرو کے بہت خطرناک نتائج دیکھے ہیں، اب نیا نائن زیر و بننے کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے؟

آپ دیکھیں بانی ایم کیو ایم کے لیے بھی یہ نعرہ لگایا جاتا تھا کہ قائد کا جو غدار ہے، وہ موت کا حقدار ہے۔ عمران خان کے لیے بھی یہ نعرہ لگوایا جا رہا ہے کہ عمران خان ہماری ریڈ لائن ہے، عمران خان کی طرف بڑھنے والا ہاتھ کاٹ دیں گے۔

یہ کوئی سیاسی اور جمہوری رویہ نہیں ہے۔ کوئی بھی سیاستدان اپنے حامیوں کے سر پر خود کو قانون سے بالاتر نہیں بنا سکتا۔ ہم نے کراچی میں اس کی بہت تلخ مثالیں دیکھی ہیں۔اب ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

اگر دوست یہ کہتے ہیں کہ عمران خان مقبول ہیں، لوگ ان سے پیار کرتے ہیں تو بانی ایم کیو ایم کی بھی یہی دلیل تھی لیکن مقبولیت ریاست کے اندر ریاست بنانے کا لائسنس نہیں دیتی بلکہ مقبولیت تو قانون اور ریاست کے سامنے سرنگوں ہونے پر مجبور کرتی ہے۔ کوئی لیڈر اپنی مقبولیت کو نظام انصاف اور قانون کو چیلنج کرنے کے لیے استعمال نہیں کر سکتا۔ ایسی صورت میں ریاست کی رٹ چیلنج ہوتی ہے۔

پی ٹی آئی کا ایک کارکن جاں بحق ہوا ہے‘ یہ انتہائی قابل افسوس ہے ‘ میں سمجھتا ہوںکہ سیاسی لیڈروں کو اپنے کارکنوں کی جان خطرے میں نہیں ڈالنی چاہیے،انھیں اپنے کارکنوں کے تحفظ کا پہلے سوچنا چاہیے۔

وہ خود تو محفوظ بنکر میں بیٹھے رہے اورکارکنوں کو ریاست سے لڑنے پر تیار کرتے ہیں کیونکہ سب کو پتہ تھا کہ دفعہ144 نافذ ہو چکی ہے۔ بہتر یہ تھا کہ پہلے حکومت کے ساتھ بات چیت کر کے ریلی کی اجازت لی جاتی لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔اس کا نتیجہ وہی نکلنا تھا جو نکلا ہے۔ورنہ جمہوری لیڈر تو خود آگے نظر آتے ہیں ۔

بینظیر بھٹو اور دیگر پہلی لاٹھی بھی خود کھاتے رہے ہیں اور پہلی گرفتاری بھی اپنی دیتے تھے۔ لیکن ایم کیو ایم کا اسٹائل مختلف تھا۔ وہاں لیڈر محفوظ اور کارکنو ں کی جانیں خطرے میں ڈالی جاتی تھیں۔ عمران خان کو بھی اپنے کارکنوں کو ڈنڈے دیکر پولیس سے لڑنے نہیں بھیجنا چاہیے کیونکہ یہ جمہوریت نہیں۔

The post یہ کوئی سیاست نہیں ہے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/NSQEVYW
Previous Post Next Post

Contact Form